Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 84
وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ
وَهُوَ الَّذِيْ : اور وہ اللہ وہ ذات ہے فِي السَّمَآءِ : جو آسمان میں اِلٰهٌ : الہ ہے وَّفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اِلٰهٌ : الہ ہے ۭ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ : اور وہ حکمت والا ہے، علم والا ہے
اور وہی (ایک) آسمانوں میں معبود ہے اور (وہی) زمین میں معبود ہے اور وہ دانا (اور) علم والا ہے
اللہ ہی زمین و آسمان میں قابل عبادت ہے : آیت 84: وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰہٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰہٌ (اور وہی ذات ہے جو آسمان میں بھی قابل عبادت ہے اور زمین میں بھی قابل عبادت ہے) اللہ تعالیٰ کا اسم الٰہ یہ وصف کا معنی لئے ہوئے ہے۔ اس لئے ظرف کو فی السماء اور فی الارض میں اس کے ساتھ معلق کیا ہے۔ جیسا کہ تم کہو ہو حاتم فی الطی و حاتم فی تغلب۔ اس میں جواد کا معنی متضمن ہے جس کی وجہ سے وہ ہر دو قبیلوں میں معروف ہے۔ گویا تم نے اس طرح کہا ہو جواد فی طیّ و جواد فی تغلب۔ کہ وہ قبیلہ طے میں بھی سخی اور قبیلہ تغلب میں بھی سخی ہے۔ اسی طرح یہاں وہ آسمان کا بھی الٰہ اور زمین میں بھی قابل عبادت وہی ہے۔ قراءت : وہو الذی فی السماء اللّٰہ وفی الارض اللّٰہ۔ اور اس کی مثال وہ ارشاد ہے۔ وہو اللّٰہ فی السمٰوٰت وفی الارض [ الانعام : 3] گویا معبود ہونے کا معنی صفت میں متضمن ہے۔ اور موصول کی طرف لوٹنے والی ضمیر طوالت کلام کی وجہ سے حذف کردی گئی ہے۔ جیسا کہتے ہیں ماانا بالذی قائل لک شیئًا۔ میں ایسا نہیں کہ تمہیں کچھ کہوں۔ تقدیر کلام : اس طرح ہے۔ وہوا لذی ہو فی السماء الٰہ۔ وہ وہی ذات ہے جو کہ آسمان میں معبود ہے۔ نحو : الہٌ یہ مرفوع ہے۔ کیونکہ مبتدأ مضمر کی خبر ہے۔ اور الہٌ یہ ابتداء کی وجہ سے مرفوع نہیں ہے۔ اور فی السماء۔ یہ خبر ہے۔ کیونکہ اس صورت میں صلہ ضمیر عائد سے خالی ہے جو موصول کی طرف لوٹے۔ وَہُوَ الْحَکِیْمُ (وہ اپنے اقوال و افعال میں حکمت والا ہے) الْعَلِیْمُ (وہ جو کچھ ہوا اور جو ہونے والا ہے تمام کا علم رکھتا ہے)
Top