Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ اس کے سوا (اور) کوئی معبود نہیں
الم اس کی تشریح سورة بقرہ میں ہوچکی۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ ان عیسائیوں کے مقابلہ میں ان کے تینوں عقیدے بطلان کے لئے یہ ایک چھوٹا سا جملہ بیشمار دلائل اور براہین کا مجموعہ ہے۔ ان کے تین عقیدے یہ تھے۔ اول تثلیث کہ خدا اور عیسیٰ اور روح القدس تینوں مل کر ایک خدا بعض حضرت مریم علیھا السلام کو تیسرا اقنوم قرار دیتے تھے۔ دوم حضرت عیسیٰ خدا ہے ٗ انسان کی شکل میں خدا نے ظہور کیا تھا۔ سوم حضرت عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے۔ آج کل کے عیسائی بھی بجز چند فرقوں کے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس آیت میں ان تینوں عقیدوں کو باطل کردیا۔ اللّٰہ لا الہ الا ھو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ صرف اس توحید سے تینوں عقائد کا ابطال ہوگیا۔ اول کا اس لئے کہ جب خدا ‘ تثلیث اور توحید حقیقی میں صریح تضاد ہے۔ اگر ہر ہر جز کو خدا مستقل مانا جائے تو تین خدا ہوتے ہیں۔ اگر تینوں سے مرکب کو خدا کہا جائے تو وہ مرکب اعتباری واحد ہے نہ حقیقی طور پر علاوہ اس کے وہ حادث بھی ہوگا ٗ پھر وہ قیوم نہیں ہوسکتا کیونکہ قیوم حقیقی وہی ہے جس نے سب کو قائم و موجود کیا ہو۔ اس کو کسی نے موجود نہ کیا ہو اور حادث کے لئے محدث قیوم ہونا ہے۔ دوسرے کا ابطال اس طور سے کہ اگر عیسیٰ کو بھی خدا مانا جائے تو دو خدا ہوجاتے ہیں۔ توحید نہیں رہتی۔ اسی طرح سے تیسرے عقیدہ کا ابطال بھی ظاہر ہے کہ بیٹا قیوم نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے باپ قیوم ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ ایک ہے اس کی کیا دلیل ؟ اس کی دلیل یہ ہے الحی القیوم حی کے معنی زندہ کے ہیں جس واجب کو الوجود کہتے ہیں اور اس کے سوا جو کچھ ممکن الوجود ہے اس کی ذات کے لحاظ سے وہ معدوم ہے نہ حی ہے نہ قیوم ہے۔ اس جملہ میں اور جملہ مذاہب باطلہ کا بھی ابطال ہوگیا کس لئے کہ جس قدر مشرک گروہ ہیں وہ جو غیر اللہ کو پوجتے ہیں ضرور ان کو حی وقیوم سمجھتے ہیں۔ خدائی کارخانہ میں نفع و نقصان کا مالک و مختار بھی جانتے ہیں۔ عرب کے مشرک بتوں کو ارواح غیر مرئیہ کو جنوں کو ایرانی عناصر اور سیارات کو بعض فرشتوں اور خدا کے برگزیدہ بندوں کو پوجتے پکارتے ان کی نذر و نیاز کرتے ہیں۔ اسی اعتقاد سے کہ وہ کارساز ہے۔ جب آیت نے یہ ثابت کردیا کہ وہی حی یعنی زندہ ہے تو یہ جملہ اشیاء مرتبہ ذات میں سرے سے موجود ہی نہیں معدوم ہیں۔ پھر جب معدوم ہیں تو کیونکر قیوم یعنی کارساز ہیں۔ محمد ﷺ کی نبوت اور قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا ثبوت : جب خدا تعالیٰ ان کے عقائدِ مذکورہ کو باطل کرچکا اور توحید خوب ثابت ہوچکی تو اب آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن مجید کا کتاب الٰہی ہونا ثابت کرتا ہے نزل علیک الکتاب بالحق مصدقالما بین یدیہ یہاں کتاب یعنی قرآن مجید کی نسبت فرمایا ہم نے اس کو آپ پر اے نبی نازل کیا ہے۔ یہ کتاب برحق ہے اور اگلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ دو گواہ کتاب الٰہی ہونے کے لئے خدا نے بیان فرمائے جیسا کہ پہلے مطالب کے لئے دو گواہ الحی القیوم بیان کئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک شخص ایسے ملک کے باشندے سے کہ جس میں علوم و فنون کا مطلق چرچا نہ ہو اور خاص اس شخص نے نہ کبھی کچھ لکھا پڑھا ہو نہ کسی اہل علم یہودی یا نصرانی یا مجوسی کی صحبت پائی ہو۔ نہ جہان کی سیر کی ہو بلکہ چالیس برس کا وہ حصہ (کہ جس میں اکتساب علوم کیا جاتا ہے) ایک ریگستانی ملک کے دو خشک پہاڑوں میں گزارا ہو پھر اس پر دنیا کی تنگدستی اور عزیز و اقارب کے روزمرہ کے جورو ظلم اور بھی مزید ہوں پھر اس سے ایک ایسی کتاب کا ظاہر ہونا کہ جس میں یہ دو وصف ہوں بلاشک معجزہ ہے۔ وہ کتاب آسمانی اور وہ شخص نبی ہے۔ وصف اول برحق ہونا اس کی یہ صورت ہے کہ قرآن مجید کے مطالب عالیہ (ذات وصفات مبداء معاد ‘ انسان کی سعادت و شقاوت ‘ قصص گذشتہ اخبار آیندہ قوانین ملت ‘ دستور العمل ‘ سیاست ملک ‘ میراث ‘ بیع و شراء ‘ حلت و حرمت ‘ طہارت و نجاست علم اخلاق ‘ رحمدلی ‘ راستبازی ‘ بردباری ‘ خدا ترسی ‘ دنیا سے دل برداشتگی وغیرہ وغیرہ) کس عمدہ اور پاکیزہ عبارت میں مبالغہ شاعرانہ اور تخیلات جاہلانہ سے خالی ایسے ہیں کہ جن میں سے کوئی بھی عقل سلیم کے برخلاف نہیں۔ دوسرا وصف تصدیق کرنا کتب الٰہیہ کا۔ سو یہ بھی ایک بڑی بھاری بات ہے۔ قرآن میں اور کتب سابقہ تورات و انجیل و زبور کے مضامین مذکورہ بالا میں سرموتفاوت نہیں اور جو امور جزئیات فرعیات میں کچھ فرق ہے تو بلحاظ ملک و زمانہ ہے۔ اس لئے کہ انبیاء ہر زمانہ میں لوگوں کے مناسب احکام میں کمی زیادتی کیا کرتے ہیں۔ یہ بات بغیر اس کے کہ سب کا مبداء الہام ربانی واحد مانا جاوے۔ ممکن نہیں بالخصوص اس شخص کے لئے کہ جس نے وہ کتابیں آنکھ سے بھی نہیں دیکھیں چہ جائیکہ ان کو یاد کیا ہو۔ پس جب اس قرآن میں یہ دو وصف ہیں تو اس کے کتاب الٰہی ہونے میں کیا شبہ ہے اور جب یہ کتاب الٰہی ہے تو آنحضرت ﷺ نبی برحق ہیں۔
Top