Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا،
پہلی آیت میں ارشاد ہے (الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم) اس میں لفظ الم تو متشابہات قرآنیہ میں سے ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان ایک راز ہیں جس کی تفصیل اس رکوع کی آخری آیتوں میں آتی ہے اس کے بعد (اللہ لا الہ الا ھو) میں مضمون توحید کو ایک دعوے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود بنانے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد (الحی القیوم) سے توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئی جس کی تشریح یہ ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائی عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزت وجبروت کے انتہائی مقام کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز خود اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکے اپنے وجود اور اس کی بقاء میں دوسرے کی محتاج ہو اس کا عزت وجبروت میں کیا مقام ہوسکتا ہے اس لئے بالکل واضح ہوگیا کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں نہ خود اپنے وجود کی مالک ہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہیں وہ خواہ پتھر کے تراشیدہ بت ہوں یا پانی اور درخت ہوں یا فرشتے اور پیغمبر ہوں ان میں کوئی بھی لائق عبادت نہیں لائق عبادت وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ موجود ہے اور ہمیشہ زندہ و قائم رہے گی اور وہ صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
Top