Tafseer-e-Jalalain - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، زندہ ہمیشہ رہنے ولا
آیت نمبر 1 تا 9 ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے الم اللہ ہی اپنی مراد کو اس سے بہتر جانتا ہے۔ اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو (نظام کائنات کو) سنبھالے ہوئے ہے اس نے اے محمد آپ پر قرآن کو جو کہ خبر دینے میں صداقت پر مشتمل ہے بتدریج نازل فرمایا اپنے سے سابق کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس کے نازل کرنے سے پہلے تورات اور انجیل نازل کیں حال یہ ہے کہ وہ رہ نما ہیں (ھُدًی) التوراۃ والانجیل سے حال ہے، یعنی یہ دونوں کتابیں ان لوگوں کو گمراہی سے ہدایت کی جانب رہنمائی کرنے والی ہے جنہوں نے ان کی اتباع کی اور ان دونوں میں اَنْزَل کی تعبیر اختیار کی اور قرآن میں نزَّلَ کی جو تکرار کا مقتضی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ایک وقت نازل کی گئیں بخلاف قرآن کے (کہ یہ بتدریج نازل کیا گیا) اور نازل کیا فرقان کو، مراد وہ کتابیں ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہیں، تینوں کے ذکر کے بعد فرقان کا ذکر کیا تاکہ مذکورہ تینوں (کتابوں) کے علاوہ کو بھی شامل ہوجائے، بیشک جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں (یعنی) قرآن وغیرہ سے کفر کیا ان کے لیے سخت عذاب ہے اور اللہ اپنے امر میں غالب ہے، لہٰذا کوئی شئ اس کو اس کے وعدہ وعید کو پورا کرنے سے نہیں روک سکتی، اور اپنے نافرمانوں سے سخت بدلہ لینے والا ہے کہ اس جیسی عقوبت پر کوئی قادر نہیں، بلاشبہ اللہ ایسا ہے کہ اس سے کوئی شئ مخفی نہیں خواہ زمین میں ہو یا آسمان میں اس کے عالم میں واقع ہونے والی کلی و جزئی چیز سے واقف ہونے کی وجہ سے، اور زمین و آسمان کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ حس ان دونوں سے تجاوز نہیں کرتی۔ وہ ایسا ہے کہ رحموں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے جیسی چاہتا ہے، لڑکا یا لڑکی اور سفید اور کالی وغیرہ بجز اس کے کوئی معبود نہیں جو اپنے ملک میں بڑا زبردست اور اپنی صنعت میں بڑی حکمت والا ہے وہ وہی خدا ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی اس میں محکم آیتیں ہیں (یعنی) واضح، جو واضح الدلالت ہیں اور وہی کتاب کا اصل مدار ہیں، یعنی اصل کتاب ہیں جو احکام میں معتمد علیہ ہیں اور دیگر متشابہ ہیں جن کے معانی مفہوم نہیں ہوتے جیسا کہ سورتوں کے اوائل، اور اللہ تعالیٰ کے قول ” اُحْکِمَتْ آیاتہٗ “ میں پورے قرآن کو محکم قرار دیا گیا ہے، یہ اس معنی کر ہے کہ اس میں کوئی عیب نہیں، اور اللہ تعالیٰ کے قول ” کتابًا متشابھًا “ میں پورے قرآن کو متشابہ قرار دیا گیا ہے، یہ اس معنی کر ہے کہ اس کا بعض بعض سے حسن و صدق میں مشابہ ہے، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی یعنی حق سے انحراف ہے وہ اپنے حامیوں کے لیے ان کے شہادت اور التباس میں واقع ہونے کی وجہ سے فتنہ کی تلاش میں پیچھے ہو لیتے ہیں جو متشابہ ہے، اور اس کی غلط تفسیر کی تلاش میں دراں حالیکہ اللہ وحدہ کے علاوہ اس کی حقیقی مراد کوئی نہیں جانتا اور پختہ کار اور مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم متشابہ پر ایمان لاچکے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس کی (حقیقی) مراد سے واقف نہیں ہیں (والراسخون فی العلم) مبتداء ہے اور (یقولون آمنا بہ) اس کی خبر ہے، محکم اور متشابہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور نصیحت عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں (یَذَّکّرُ ) اصل میں تاء کو ذال میں ادغام کرکے بنا ہے، یعنی نصیحت حاصل کرتے ہیں، اور جب کسی کو متشابہ کے پیچھے پڑتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار تو ہمارے قلوب کو حق سے نہ پھیر اس حق کی ایسی تاویل کی جستجو کے ذریعہ جو ہمارے لیے لائق نہیں ہے جیسا کہ تو نے ان لوگوں کے قلوب کو کج کردیا بعد اس کے کہ تو ہم کو راہ حق دکھا چکا، اور ہم کو اپنے پاس سے استقامت بخش کر خصوصی رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بڑا عطا کرنے والا ہے، اے ہمارے رب یقیناً تو لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے یعنی ایسے دن میں کہ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں وہ قیامت کا دن ہے، تو ان کو اپنے وعدہ کے مطابق ان کے اعمال کا صلہ دے گا، یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا یعنی بعث بعد الموت کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اس میں خطاب سے (غیب) کی جانب التفات ہے، اور احتمال یہ بھی ہے کہ (انا اللہ لایخلف المیعاد) اللہ تعالیٰ کا کلام ہو، اور (رَبّنا لاتُزِغ قلوبنا) سے دعاء کرنے کی غرض یہ ہے کہ ان کا مقصد امر آخرت ہے، اور اسی وجہ سے ہدایت پر استقامت کو سوال کیا تاکہ اس کا ثواب حاصل کریں۔ مسلم و بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ! آپ ﷺ نے یہ آیت (ھو الذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمٰت الاٰیۃ) تلاوت فرمائی اور آپ ﷺ نے فرمایا ! (اے عائشہ) جب تو دیکھے کہ لوگ قرآن کے متشابہات کے پیچھے پڑے ہیں (تو سمجھ لو) یہی ہیں وہ لوگ جن کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی ہے، تو تم اس سے بچتی رہنا۔ طبرانی نے کبیر میں ابو ملک اشعری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے میری امت پر صرف تین باتوں کا خوف ہے اور ان باتوں میں سے ایک بات یہ ذکر فرمائی، کہ لوگوں کے سامنے کتاب (قرآن) کھولی جائے گی تو مومن اس کی تاویل کی جستجو میں لگ جائے گا حالانکہ اس کی تاویل کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور راسخین فی العلم کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے کہ کل کا کل (قرآن) ہمارے رب کی طرف سے ہے اور عقلمندہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ (الحدیث) تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اٰلُ ، کنبہ، اہل خانہ، اولاد، عمران، کہا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے والد مراد ہیں اور کہا گیا ہے کہ عمران حضرت مریم کے والد کا نام ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد عمران اور حضرت مریم کے والد عمران کے درمیان ایک ہزار آٹھ سو سال کا فاصلہ ہے۔ قولہ : متلبّسًا اس میں اشارہ ہے کہ باء الصاق کے لیے ہے، اور یہ کہ بالحق، متلبِّسًا سے متعلق ہو کر حال ہے۔ قولہ : قبل تنزیلہٖ اس میں اشارہ ہے کہ قبل قطع اضافت کی وجہ سے مبنی علی الضم ہے۔ قولہ : حال بمعنیٰ ھَادِییْنَ اس اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : ھُدًی، مصدر ہے اس کا حمل کتابیں (یعنی توریت و انجیل) پر جائز نہیں ہے ورنہ تو مصدر کا حمل ذات پر لازم آئے گا۔ جواب : ھدًی مصدر ہے یہ ھادیین کے معنی میں ہو کر حال ہے اور حال کی ذات پر حمل درست ہے۔ قولہ : بمعنی الکتب، یہ اس سوال مقدر کا جواب ہے کہ فرقان قرآن کا نام ہے لہٰذا تکرار لازم آگیا اس لیے کہ سابق میں بھی قرآن کا ذکر ہوچکا ہے اور فرقان سے بھی قرآن ہی مراد ہے۔ جواب : فرقان کے یہاں لغوی معنی مراد ہیں لہٰذا یہ ہر آسمانی کتاب کو شامل ہے۔ قولہ : من انْجاز وَعْدِہ، ای اتمام وعْدِہ۔ اللغۃ والبلاغۃ قولہ : التوراۃ والانجیل، یہ دونوں عجمی لفظ ہیں، اور بعض حضرات نے کہا کہ عربی ہیں، عربی ہونے کی صورت میں بعض نے وری الزند سے مشتق مانا ہے، چقماق سے چونکہ روشنی نکلتی ہے اور تورات کے ذریعہ بھی گمراہی کی تاریکی سے ہدایت کی روشنی کی طرف نکلتے تھے اسی لیے وری الزند سے مشتق مانا ہے، زند، چقماق کو کہتے ہیں اور بعض نے وریت فی کلامی سے مشتق مانا ہے، اس وقت توریہ سے مشتق ہوگا جس کے معنی اشارہ کنایہ کرنا ہے، توریت اس لیے کہا گیا اس میں تلویحات اور ایحازات اشارات و کنایات ہیں۔ قولہ : انجیل جو لوگ اس کو عربی کہتے ہیں وہ اس کو نجل سے مشتق مانتے ہیں اس کے معنی توسع کے ہیں سے ان کا قول عین نجلاء، وسیع چشمہ اور انجیل میں تورات کی بہ نسبت چونکہ توسع ہے اس لیے اس کو انجیل کہا گیا۔ المجاز : اللہ تعالیٰ کے قول ” لِما بین یَدَیْہِ “ میں صنعت مجاز ہے، بمعنی اَم۔ امَہٗ ۔ الطباق : الارض والسماء، اس میں صنعت طباق ہے۔ الایجاز بالحذف : یشاءُ اس کا مفعول اظہار قدرت و غرابت کے لیے محذوف ہے۔ تفسیر و تشریح یہ سورت مدنی ہے اس کی تمام آیتیں ہجرت کے بعد مختلف اوقات میں نازل ہوئی ہیں اس سورت کا ابتدائی حصہ آیت 83 تک نصاریٰ کے وفد نجران کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ عرب کا اگر نقشہ سامنے ہو تو جنوب مشرق میں جو علاقہ یمن کے نام سے موسوم ہے اس کے شمالی حصہ میں ایک مقام نجران ہے، عہد نبوت میں یہاں مسیحیوں کی آبادی تھی 9 یا 10 ہجری میں ان کے چودہ اکابر کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، آنحضور ﷺ نے گفتگو کے دوران ان کے عقائد تثلیث اور ابنیت کی لغویات ان پر پوری طرح واضح فرما دی۔ اسی واقعہ کے دوان مباہلہ کا معاملہ بھی پیش آیا جس کی تفصیل انشاء اللہ آئندہ آئے گی، سورة بقرہ میں جس طرح خطاب خاص طور پر یہود کی جانب تھا، اسی طرح اس سورت میں مسیحیوں کی جانب ہے، سورة آل عمران کے فضائل بھی احادیث میں بکثرت وارد ہوئے ہیں۔ اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ ، اللہ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں، یعنی اس خدائے واحد کا شریک کوئی نہ ذات میں ہے اور نہ صفات میں اور نہ افعال میں بکثرت ایسے مشرک مذہبوں کا وجود رہ چکا ہے اور اب بھی ہے جو کہتے ہیں کہ بیشک خدائے اعظم تو ایک ہی ہے لیکن اس کے ماتحت شعبہ وار چھوٹے چھوٹے خدا دیوتا اور دیویاں بہت سی ہیں قرآن مجید اس کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نفس وجود ہی اس کے علاوہ کسی دوسرے خدا کا نہیں نہ چھوٹے کا اور نہ بڑے کا، الوہیت و ربوبیت تمام تر ایک ہی ذات میں ہے، آیت میں علاوہ ان جاہلی مذاہب کے خاص طور پر مسیحی عقائد کے بھی رد میں ہے۔ اَلْحَیُّ القیوُّم، حیّ ، القیوم، اللہ کے خاص صفات ہیں، حیّ کا مطلب ہے کہ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں۔ قیوم کا مطلب ہے ساری کائنات کا قائم رکھنے والا محافظ و نگران، عیسائی حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں کا ایک مانتے ہیں، ان کو بتایا جا رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ بھی اللہ کی مخلوق ہیں وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت بعد کا ہے تو پھر اللہ، یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہوسکتے ہیں، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو ان کو الوہیت کی صفات کا حامل اور قدیم ہونا چاہیے تھا۔ اور ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے ہم کنار ہوں گے۔ اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق ہم کنار ہوچکے۔
Top