Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ وہ ہے کہ کوئی خدا نہیں بجز اس کے،3 ۔ زندہ (خدا ہے) سب کا سنبھالنے والا،4
3 ۔ (نہ بہ حیثیت اقنوم کے نہ کسی اور حیثیت سے) یعنی اس خدائے واحد کا شریک کوئی نہ ذات میں ہے نہ افعال میں، دنیا میں بہ کثرت ایسے مشرک مذہبوں کا وجود رہ چکا ہے اور اب بھی ہے جو کہتے ہیں کہ خدائے اعظم تو بیشک ایک ہی ہے لیکن اس کے ماتحت شعبہ وار چھوٹے چھوٹے خدا دیوتا اور دیویاں تو بہت سی ہیں۔ قرآن مجید ان سب کی تردید کرکے کہتا ہے کہ نفس وجود ہی کسی دوسرے خدا کا نہیں نہ چھوٹے کا نہ بڑے کا، الوہیت و ربوبیت تمامتر ایک ہی ذات میں ہے۔ آیت علاوہ ان جاہلی مذاہب کے خاص طور پر مسیحی عقائد کے بھی رد میں ہے۔ 4 ۔ (آیت) ” الحی “۔ وہ وہ خدا ہے جو ہمیشہ زندہ ہی ہے، زندہ ہی رہا اور زندہ ہی رہے گا۔ موت کا اس کے لیے کوئی امکان ہی نہیں، نہ صلیب کے اوپر نہ کسی اور سطح پر۔ اس کی حیات جس طرح آج قائم ہے ہمیشہ سے قائم ہے۔ یہ نہیں کہ اسے بار بار قالب بدلتے رہنے کی ضرورت پیش آئے۔ کبھی وہ انسان بن جائے اور کبھی نعوذ باللہ حیوان۔ وہ زندہ معاذ اللہ اس طرح کا نہیں کہ ہر سال اس پر موت طاری ہوا کرے اور پھر وہ حیات تازہ حاصل کرتا رہے۔ (آیت) ” الحی “۔ کے لفظ نے اس کی صفت حیات کا اثبات کرکے ان سارے خرافات کی تردید کردی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 979 پارہ ہذا) (آیت) ” القیوم “۔ وہ بذات خود قائم ہے اور ساری مخلوقات اس کے وجود سے قائم ہے۔ یہ نہیں کہ وہ خود بھی کسی معنی میں کسی دوسرے کا محتاج ہو جیسا کہ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ :۔ ” جس طرح بیٹا بغیر باپ کے تنہا خدا نہیں اسی طرح باپ بغیر بیٹے کے تنہا خدا نہیں۔ (انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس جلد 7 صفحہ 536) گویا نعوذ باللہ ابن اللہ اور اللہ دونوں اپنی خدائی میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ صفت قیومیت کا اثبات کرکے قرآن نے فرزندی خدا کے عقیدہ کی جڑ ہی کاٹ دی۔ بہت سے جاہلی مذہب ایسے بھی ہیں جو ایک طرف خدا کو خدا بھی مانتے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کے بھی قائل ہیں کہ وہ پیدا کسی اور سے ہے۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر 979 پارہ ہذا)
Top