Tafseer-e-Haqqani - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور جو لوگ کہ (یہ) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ان سے بھی ہم نے عہد لیا تھا پھر تو وہ بھی اس کا ایک حصہ بھول گئے کہ جس سے ان کو نصیحت دی گئی تھی سو ہم نے ان میں قیامت تک عداوت اور کینہ ڈال دیا اور عنقریب اللہ ان کو بتلا دے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔
ترکیب : ومن الذین الخ اخذنا سے متعلق ہے بینھم اغرینا کا ظرف ہے۔ یبین جملہ حال ہے رسولنا سے۔ سبل السلام مفعول ثانی ہے یہدی کا من اتبع مفعول اول اور یخرجہم کی ضمیر فاعل اللہ کی طرف رجوع کرتی ہے۔ اس کا عطف یہدی پر ہے۔ ان اراد شرط فمن یملک جملہ دال برجزا۔ تفسیر : یہ بارہ نقیب جبرون تک آئے اور وہاں سے ملک کی سرسبزی اور خوبی اور وہاں کے لوگوں کی خصوصاً بنی اعناق اور عموری اور عمالیق اور حتی اور بیوسی لوگوں کی قد آوری اور بہادری دیکھ کر واپس آئے اور بنی اسرائیل کو نہایت تشویش اور خوف میں ڈال کر ڈرایا مگر کالب اور یوشع بن نون نے لوگوں کو تسلی اور خدا کی مدد کا بھروسہ دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قال رجلان من الذین یخافون الآیہ (توریت سفر عدد باب 13) اس عہد کے علاوہ کہ وہاں کے لوگوں کی قد آوری اور بہادری نہ بیان کریں۔ یہ بھی عہد خدا نے بنی اسرائیل سے لیا تھا کہ تم اس ملک میں جائو تو میری شریعت اور احکام پر عمل کرنا جیسا کہ سفر عدد کی 15 و دیگر فصول سے ثابت ہے اور خدا نے ان سے یہ عہد کیا تھا کہ میں تم کو اس سرزمین میں بسائوں گا کہ جہاں باغ اور نہریں جاری ہیں۔ سو اول تو اس عہد کو ان نقیبوں نے توڑ ڈالا کہ جس پر خدا تعالیٰ نے غصہ ظاہر فرما کر یہ فرمایا کہ میں اس خبیث گروہ کو بجز ان دو شخصوں کے اس سرزمین میں جانے نہ دوں گا۔ بیس برس کی عمر سے لے کر اور زیادہ تک کے لوگ بیابانوں میں وباء اور دشمنوں کی تلواروں سے فنا کئے گئے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد میں یہ ملک خدا نے بنی اسرائیل کو عطا کیا۔ پھر ان ملکوں پر قبضہ و اقتدار پا کر بنی اسرائیل نے اس عہد نامہ کو کہ جو یوشع کی معرفت تازہ کیا گیا تھا (کتاب یوشع اول باب درس 8) بنی اسرائیل نے بت پرستی اور شریعت کو ترک کرنے سے توڑ ڈالا جس پر طرح طرح کے مصائب اور غیر بادشاہوں کے ہاتھ سے ذلت اور رسوائی ان پر پڑی جیسا کہ کتاب تاریخ اور کتاب سموئیل سے ثابت ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نبی ﷺ کو فرماتا ہے ولا تزال تطلع علی خائنۃ منہم کہ اس خبیث گروہ میں اب تک وہی آثار بدبختی باقی ہیں جن پر وقتاً فوقتاً آپ مطلع ہوتے رہتے ہیں مگر ان میں عبداللہ بن سلام ؓ جیسے چند نیک بھی ہیں۔ سو آپ ان بدبختوں سے درگذر کیجئے۔ اس کے بعد نصاریٰ نے جو کچھ خدا تعالیٰ سے عہد کرکے اس کے برخلاف کیا اور اس کی سزا باہمی عداوت جو ان پر پڑی اس کو بیان فرماتا ہے۔ نصاریٰ سے عہد کا لینا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت ہوا تھا۔ انجیل یوحنا کے 14 باب 15 درس میں ہے اور اگر مجھے پیار کرتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کرو۔ اور پھر آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری کی خبر دے کر آپ پر ایمان لانے کی تاکید کی تھی اور آنحضرت ﷺ کی بہت کچھ مدح فرمائی تھی جیسا کہ اسی کتاب کے اسی باب سے ثابت ہے جس کے بعض جملے یہ ہیں اس جہان کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں اور اسی کتاب کے 6 باب میں تو صاف فارقلیط کے آنے کی خبر ہے جو لفظ احمد کا ترجمہ ہے۔ مگر نصاریٰ نے باوجود یکہ فارقلیط کے منتظر تھے جب فارقلیط آنحضرت ﷺ ظاہر ہوئے تو انکار کردیا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عہد کو توڑ ڈالا، فاغرینا بینہم العداوۃ یہود و نصاریٰ میں عداوت مذہبی قائم ہوئی اور قائم رہے گی۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس سے مراد خود نصاریٰ کی باہمی عداوت ہے اور یہی ٹھیک ہے۔ سو بموجب پیشین گوئی خدا تعالیٰ کے نصاریٰ کے فرقوں میں جیسی کچھ عداوت پیدا ہوئی اور اب ہے ‘ بیان سے باہر ہے۔ تاریخ کلیسا سے معلوم ہوجاوے گا کہ باہم صرف مذہبی امور میں ان میں کس قدر قتال وجدال واقع ہوا ہے ؟
Top