Al-Qurtubi - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور جو لوگ (اپنے تئیں) کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ ہم نے ان سے بھی عہد لیا تھا مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جو ان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا تو ہم نے ان کے باہم قیامت تک کے لئے دشمنی اور کینہ ڈال دیا۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے خدا عنقریب ان کو اس سے آگاہ کرے گا۔
آیت نمبر : 13 تا 16۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن الذین قالوا انا نصری اخذنا میثاقھم “۔ یعنی ہم نے نصاری سے توحید اور حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا تھا، کیونکہ وہ انجیل میں مکتوب ہے۔ (آیت) ” فنسو احظا “۔ سو انہوں نے بھلا دیا بڑا حصہ اور وہ حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانا ہے یعنی جو انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس پر عمل نہ کیا اور انہوں نے اس خواہش نفس اور تحریف کو حضرت محمد ﷺ کے انکار کا سبب بنایا (آیت) ” اخذنا میثاقھم “۔ کا معنی اس طرح ہے جیسے تیرا قول ہے : اخذت من زید ثوبہ ودرھمہ، میں نے زید سے کپڑا اور درہم لیا، یہ اخفش کا قول ہے۔ الذین “ کا مقام ” اخذنا “ کے بعد ہے اور میثاق سے پہلے ہے تقدیر اس طرح ہوگی : اخذنا من الذین قالوا انا نصاری میثاقھم “۔ کیونکہ یہ (آیت) ” اخذنا “ کا مفعول ثانی ہے کو فیوں کے نزدیک اس کی تقدیر اس طرح ہے : ومن الذین قالوا انا نصاری من اخذنا میثاقھم “۔ ھم ضمیر کا مرجع من محذوفہ ہے اور پہلے قول کی بنا پر ھم ضمیر کا مرجع ” الذین “ ہے، اور نحوی علماء ” اخذنا میثاقھم من الذین قالوا انا نصاری “ ، جائز قرار نہیں دیتے اور نہ ” الینھا لبست من الثیاب “ کو جائز قرار دیتے ہیں تاکہ مضمر ظاہر پر مقدم نہ ہو اور ان کے قول (آیت) ” انا نصری ‘۔۔۔۔۔ من النصاری “۔ نہیں کہا میں دلیل ہے کہ انہوں نے نصرانیت کو گھڑا تھا اور انہوں نے یہ نام خود رکھا تھا، یہ معنی حسن سے مروی ہے۔ (1) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 186) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاغرینا بینھم العداوۃ والبغضآء “۔ یعنی ہم نے ابھارا، بعض نے فرمایا : ہم نے ان کے ساتھ چمٹا دی، یہ الفراء سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملانا، جیسے گوند وغیرہ۔ کہا جاتا ہے : غری بالشی یغری غرا (غین کے فتحہ کے ساتھ مقصور) اور غراء غین کے کسرہ کے ساتھ ممدود جب کوئی کسی کا حریص ہوجائے گویا وہ اس کے ساتھ چمٹ گیا ہے، رمانی نے حکایت کیا ہے کہ الاغراء کا معنی، بعض کو بعض پر مسلط کرنا ہے، بعض علماء نے فرمایا : الاغراء کا معنی ابھارنا ہے اس کا اصل معنی ملانا ہے کہا جاتا ہے : غربت بالرجل غرا مقصور ممدود غین کے فتحہ کے ساتھ، جب تو کسی کے ساتھ چمٹ جائے، کثیر نے کہا : اذاقیل مھلا قالت العین بالبکا غراء مد تھا حوافل نھل : اغریت زیدا بکذا حتی غری بہ۔ اس سے الغراء ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو چمٹایا جاتا ہے، پس الاغراء بالشی، کا معنی ہے تسلط کی جہت سے کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ چمٹانا ہے، اغریت الکلب، یعنی میں نے کتے کو شکار پر ابھارا، (آیت) ” بینھم العداوۃ “ کے لیے ظرف ہے اور البغضاء سے مراد بعض ہے، اس کے ساتھ یہود ونصاری کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ ان کا ذکر پہلے ہوچکا (2) (احکام القرآن للطبری، جلد 6، صفحہ 190) سدی اور قتادہ ؓ سے مروی ہے کہ بعض بعض کے لیے دشمن ہیں، بعض علماء نے فرمایا : یہ نصاری کے افتراق کی طرف اشارہ ہے، یہ ربیع بن انس کا قول ہے، کیونکہ وہ قریب مذکورہ ہیں، کیونکہ وہ یعاقبۃ، نسطوریہ اور ملکانیہ فرقوں میں بٹ گئے تھے یعنی بعض نے بعض کو کافر کہا : (3) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 186) نحاس نے کہا : (آیت) ” فاغرینا بینھم “۔ الخ کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سے بہتر قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کی عداوت اور ان سے بغض رکھنے کا حکم دیا ہر فرقہ کو دوسرے فرقہ سے عداوت کا حکم دیا گیا تھا، کیونکہ وہ کفار ہیں۔ اور (آیت) ” وسوف ینبئھم اللہ “۔ یہ انہیں دھمکی ہے یعنی وہ میثاق کو توڑنے کی جزا پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یاھل الکتب ، “۔ الکتب ہم جنس ہے بمعنی الکتب ہے، تمام اہل کتاب مخاطب ہیں، (آیت) ” قد جآء کم رسولنا “۔ یعنی حضرت محمد ﷺ (آیت) ” یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتب “۔ یعنی من کتبکم “ ، یعنی آپ ﷺ پر ایمان لانا، آیت رجم اور اصحاب السبت کا واقعہ جنہیں بندروں میں مسخ کردیا گیا تھا وہ انہیں چھپاتے تھے۔ (آیت) ” ویعفوا عن کثیر “۔ یعنی وہ چھوڑ دیتا ہے اور بیان نہیں فرماتا اس کی نبوت پر جو اس میں حجت ہے اسے بیان کرتا ہے اور اس کی صداقت اور رسالت کی شہادت پر جو دلالت ہے اسے بیان کرتا ہے اور جس چیز کے بیان کی ضرورت نہیں ہوتی اسے وہ چھوڑ دیتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” ویعفوا عن کثیر “۔ یعنی بہت سی چیزوں سے درگزر فرماتا ہے اور اس کے متعلق تمہیں خبر نہیں دیتا، ذکر کیا جاتا ہے کہ ان کے علماء میں سے ایک شخص تھا جو نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور پوچھا کہنے لگا : اے شخص ! تو نے ہم سے درگزر کیا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے اعراض کیا اور کچھ بیان نہ کیا، یہودی نے ارادہ کیا تھا، کہ وہ آپ کی کلام میں تناقص ظاہر کرے، جب رسول اللہ ﷺ نے اسے کچھ بیان نہ کیا تو وہ اٹھ کر چلا گیا اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا : میرا خیال ہے۔ وہ جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ سچا ہے، کیونکہ اس نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے کہ وہ اسے بیان نہیں کرتا جو اس سے پوچھتا ہے، (آیت) ” قد جآء کم من اللہ نور “۔ روشنی، بعض علماء نے فرمایا : نور سے مراد اسلام ہے، بعض نے فرمایا : حضرت محمد ﷺ ہیں یہ زجاج سے مروی ہے (1) (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 22) (آیت) ” وکتب مبین “۔ یعنی قرآن، کیونکہ قرآن احکام کو بیان کرتا ہے، یہ پہلے گزر چکا ہے، (آیت) ” یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتا ہے۔ (آیت) ” سبل السلم “۔ سلامتی کا راستہ جو دارالسلام تک پہنچانے والا ہے۔ ہر آفت سے پاک ہے اور ہر خوف سے امن والا ہے اور وہ جنت ہے، حسن اور سدی نے کہا : السلام سے مراد اللہ تعالیٰ (2) (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 187) معنی ہوگا اللہ کا دین اور وہ اسلام ہے جیسے فرمایا : (آیت) ” ان الدین عند اللہ الاسلام “۔ (آل عمران : 19) (آیت) ” یخرجھم من الظلمت الی النور “۔ یعنی کفر وجہالت کی تاریکیوں سے نور اسلام اور ہدایت کی طرف نکالتا ہے، (آیت) ” باذنہ “ اپنی توفیق اور ارادہ سے۔
Top