Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 14
وَ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰۤى اَخَذْنَا مِیْثَاقَهُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ١۪ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ١ؕ وَ سَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللّٰهُ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَمِنَ : اور سے الَّذِيْنَ قَالُوْٓا : جن لوگوں نے کہا اِنَّا : ہم نَصٰرٰٓى : نصاری اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد فَنَسُوْا : پھر وہ بھول گئے حَظًّا : ایک بڑا حصہ مِّمَّا : اس سے جو ذُكِّرُوْا بِهٖ : جس کی نصیحت کی گئی تھی فَاَغْرَيْنَا : تو ہم نے لگا دی بَيْنَهُمُ : ان کے درمیان الْعَدَاوَةَ : عداوت وَالْبَغْضَآءَ : اور بغض اِلٰي : تک يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت وَسَوْفَ : اور جلد يُنَبِّئُهُمُ : انہیں جتا دے گا اللّٰهُ : اللہ بِمَا كَانُوْا : جو وہ يَصْنَعُوْنَ : کرتے تھے
اور جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں ہم نے ان سے عہد لیا تھا،67 ۔ سو جو کچھ انہیں نصیحت کی گئی (اس کا) بڑا حصہ وہ بھلا بیٹھے،68 ۔ تو ہم نے ان میں باہم بغض اور عداوت قیامت تک کے لیے ڈال دیا،69 ۔ اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ انہیں عنقریب وہ جتلا دے گا،70 ۔
67 ۔ (ویسا ہی عہد جس کا ذکر ابھی بنی اسرائیلی کے سلسلہ میں اوپر آچکا ہے) (آیت) ” قالوا انا نصری “۔ انداز بیان کی احتیاط ملاحظہ ہو۔ یہ ارشاد نہیں ہوا کہ ہم نے نصاری سے عہد لیا بلکہ یہ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنے نصاری کہتے ہیں، ان سے ہم نے عہد لیا ، (آیت) ” نصری “۔ نصرانی کی جمع ہے۔ اور اس لفظ پر حاشیے پ 1 میں گزر چکے۔ زیر (آیت) ” وقالت النصری لیست الیھود “ الخ۔ 68 ۔ (اور اسی بھلائے ہوئے بڑے حصہ میں توحید الہی بھی شامل ہے اور تصدیق رسالت محمدی ﷺ بھی) یہ قرآن کا ایک عجیب معجزہ ہے، کہ آج جو صحیفے انجیلوں کے نام سے مسیحی ہاتھوں میں موجود ہیں، صدگونہ تحریفات کے بعد بشارات محمدی ان میں اب تک باقی ہیں، حضرت یحییٰ کے سلسلہ میں ہے :۔ ” جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے، کہ تو کون ہے ؟ اس نے انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں، انہوں نے اس سے پوچھا، پھر کون ہے : کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں۔ کیا تو وہ نبی ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں۔ بس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ (یوحنا۔ 1: 19 ۔ 22) ” اس نے جواب دیا کہ نہیں، بس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟ (یوحنا۔ 1: 19 ۔ 22) ” انہوں نے اس سے سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ ایلیاہ ہے۔ نہ وہ نبی۔ تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے “۔ ؟ (یوحنا۔ 1:25) یہ بارباروہ نبی کے سوال کے کیا معنی ؟ ضرور ہے کہ کسی معروف نبی کی پیشگوئی یہود میں مدت سے چلی آرہی ہے، اور یہ النبی یقینامسیح (علیہ السلام) سے الگ کوئی تھے، جیسا کہ اوپر کے سوالات سے ظاہر ہے۔ اور آگے چلئے۔ خود مسیح (علیہ السلام) نے ایک بار عید کے اخیر دن کھڑے ہو کر پکارا کہ اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آکر زندگی کا پانی پئے۔” بس بھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سن کر کہا، بیشک یہی وہ نبی ہے۔ اوروں نے کہا، یہ مسیح (علیہ السلام) ہے “۔ (یوحنا 7:40) ایک حوالہ اور ملاحظہ ہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) دنیا سے رخصت ہونے سے قبل اپنے شاگردوں کو تسلی دیتے ہیں۔” اگر تم مجھ سے محبت رکھتے ہو تو میرے حکموں پر عمل کروگے۔ اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے “۔ (یوحنا۔ 14: 16) (” مددگار “ کے لفظ پر اردو وانجیل میں نسخہ ” یا وکیل یا شفیع “ بھی درج ہے) اب یہ ابد تک ساتھ رہنے والا مددگار یا شفیع یا وکیل بجزنبی ” خاتم النبیین “ کے اور کون ہے ؟ اسی کی تاکید ایک بار پھر حضرت مسیح (علیہ السلام) کی زبان سے ملاحظہ ہو :۔ ” میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مددگار (وکیل یا شفیع) تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر میں جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا “۔ (یوحنا 16:7، 8) اس کے کھلے ہوئے معنی یہ ہوئے کہ وہ نبی آکر پرانی شریعتیں منسوخ کرے گا، اور نئی شریعت چلائے گا۔ (آیت) ” حضا “۔ پر حاشیہ ابھی نمبر 63 میں گزر چکا۔ 69 ۔ (آیت) ” بینھم “۔ یعنی مسیحی قوموں کے درمیان۔ اشارہ نصرانیوں کے اندرونی مذہبی اختلاف کی جانب ہے۔ مسیحیوں کے اندرجس کثرت سے فرقے ہیں اور پھر ان باہم جس درجہ شدید اختلافات ہیں، باہر والوں کو اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ اور اگر اس مفہوم میں یورپ کی موجودہ سیاسی قومیں شامل سمجھی جائیں تو ان کی باہمی رقابتیں اور عداوتیں تو اور زیادہ ظاہر و روشن ہیں۔ جرمنی کی آویزش فرانس سے، برطانیہ کا غصہ روس پر، فرانس کی عداوت اسپین سے، امریکہ کی بدگمانی اٹلی سے، وغیرہا۔ اندرونی نفسانیت اور کشمکش کی حدوحساب ہی نہیں۔ (آیت) ” الی یوم القیمۃ “۔ یعنی ہمیشہ، مستقل طور پر، قرآن مجید ظاہر ہے کہ محاورہ انسانی کے مطابق ہے۔ اور محاورہ میں ” قیامت تک سے “ مراد یہ ہوتی ہے کہ جب تک اس شے کا وجود باقی ہے۔ قرآن مجید ہی میں ابلیس کے ذکر میں ہے کہ اس پر لعنت قیامت تک رہے گی، معنی بالکل ظاہر ہیں کہ وہ لعنت اس پر ہمیشہ رہے گی، نہ یہ کہ وہ یوم حشر کے بعد لعنت سے نجات پاجائے گا۔ اس لیے زائغین جدید میں سے ایک صاحب کا آیت کے ذیل میں یہ کہنا کہ ” اس سے یہ معلوم ہوا کہ عیسائی قیامت کے دن تک رہیں گے۔ اور یہ خیال کہ کسی وقت کل کے کل مسلمان ہوجائیں گے، اس آیت کے رو سے غلط ٹھہرتا ہے “ جہل محض ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ معاصی جس طرح عقاب آخروی کا سبب بنتے ہیں، عقاب دنیوی کا بھی باعث بن سکتے ہیں۔ 70 ۔ (آیت) ” سوف “۔ یعنی قیامت میں، قرآن مجید نے قرب آخرت کے استحضار کے لیے بار بار اس کی آمد ووقوع کے لیے (آیت) ” سوف “۔ کا لفظ اختیار کیا ہے۔ القاء عداوت وبغض باہمی میں ذکر وبال دنیوی کا تھا، اب سزائے آخرت کا آگیا۔
Top