Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
سو ہم کو ان سے بھی پوچھنا ہے کہ جن کے پاس رسول بھیجے گئے تھے اور رسولوں سے پوچھیں گے
ترکیب : الذین صلہ و موصولہ مفعول ہے لنسئلن کا بعلم لنقصن سے متعلق یا مفعول اس کا علیہم فعل سے متعلق۔ والوزن مبتدا یومئذ ثابت کے متعلق ہو کر خبر الحق الوزن کی صفت اور بھی احتمال ہے۔ تفسیر : رسول کو تبلیغ پر اور امت کو قبول پر مامور کرکے اول رسول کی مخالفت کا دنیاوی نتیجہ بیان فرمایا تھا کہ ہم ان کو یکایک مبتلائے بلا کردیں گے (مسلمانوں پر جو آج کل نحوست ہے وہ نافرمانی رسول کریم ﷺ کا نتیجہ ہے) اب یہاں آخرت کا نتیجہ بیان کرتا ہے اور ضمناً عالم آخرت میں پیش آنے والی حالتیں بھی بیان فرماتا ہے۔ اول یہ کہ ہم ان لوگوں سے کہ جن کے پاس رسول یا ان کے نائب آئے اور انہوں نے نہ مانا ٗ بازپرس کریں گے اور رسول سے بھی سوال کریں گے کہ آیا تم نے تو کچھ کمی احکام پہنچانے میں نہیں کی تھی ؟ گو ہم سب کچھ جانتے ہیں کیونکہ اس وقت بھی ہم موجود تھے مگر یہ سوال صرف تنبیہ کے لئے ہوگا۔ سو ہم ہر بات ان پر کھول دیں گے جس کو وہ آج مخفی کرتے ہیں۔ بظاہر اس آیت میں اور اس آیت میں فیومئذ لایسئل عن ذنبہ انس ولا جان وقولہ ولا یسئل عن ذنوبہم المجرمون کچھ تعارض سا معلوم ہوتا ہے مگر دراصل کچھ بھی تعارض نہیں کیونکہ نہ پوچھنے سے مراد عزت و احترام کا پوچھنا ہے اور یہاں پوچھنے سے مراد بازپرس کرنا ہے۔ مثلاً کوئی یوں کہے کہ حساب لیا جاوے گا ٗبازپرس ہوگی ٗ فلاں باتوں پر سوال ہوگا اور عذرات باطلہ میں تمہاری بات بھی نہ پوچھی جائے گی تو اس کلام میں کچھ بھی منافات نہیں۔ اور علاوہ اس کے پوچھنے کا موقع اور نہ پوچھنے کا اور محل ہے۔ دوم والوزن یومئذن الحق کہ اس روز اعمال کا وزن ہوگا۔ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کو ترازوئے عمل قائم ہوگی۔ ایک پلے میں نیکی اور دوسرے میں بدی رکھی جاوے گی۔ پس فمن ثقلت موازینہ جن کے اعمال نیک کی تولیں بھاری ہوں گی کہیں روزہ کی کہیں نماز کی کہیں صدقہ و خیرات کی فاولئک ھم المفلحون سو یہی فلاح پاویں گے عالم قدس میں حیات ابدی کے مستحق ہوں گے جن کا مقام جنت ہے اور جن کی نیکی کی تولیں ہلکی ہوں گی فاولئک الذین خسروا الخ سو وہ خسارہ میں پڑیں گے اور یہ خسارہ میں پڑنا انہوں نے اپنے ہاتھ سے کیا کہ جو آیات الٰہی پر ظلم کیا یعنی ان کی تکذیب کی یا ان پر عمل نہ کیا۔ اس ترازو سے مراد دنیا کی ترازو آٹا دال تولنے کی نہیں کہ اس پر اعمال کا تولنا (جو اغراض غیر قائم بالذات ہیں فلسفیوں کے کہنے سے) محال خیال کیا جاوے جس کی توجیہ میں اعمال کو مع ان کاغذوں کے تولنا کہا جاوے کہ جن میں وہ اعمال ملائکہ نے لکھے تھے بلکہ اس سے مراد ایک خاص موازنہ ہے جو اعمال کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی طرح اس آیت اور اس آیت میں فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا کچھ بھی مخالف نہیں کیونکہ جن کے اعمال صالحہ برباد ہوگئے ان کے لئے کون وزن قائم ہوسکتا ہے ؟
Top