Baseerat-e-Quran - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
پھر ہم ان سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس ( ہم نے اپنے ) رسول بھیجے تھے اور ہم ان رسولوں سے بھی سوال کریں گے۔
لغات القرآن : آیت نمبر 6 تا 10 : نسئلن (ہم ضرور پوچھیں گے) نقصن ( ہم ضرور بتائیں گے) غآ ئبین ( غائب رہنے والے) ثقلت (بھاری ہوئے) موازین ( موزون) ۔ وزن۔ تول ‘ خفت (ہلکے ہوئے) خسروا (انہوں نے نقصان اٹھایا) ‘ مکنا ( ہم نے ٹھکانا دیا (معایش (معیشۃ) ۔ زندگی گذارنے کا سامان۔ تشریح : آیت نمبر 6 تا 10 : سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 4 تا 5 میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی بستیوں اور شہر والوں کا ذکر کیا ہے جن کے برے اعمال اور بد کرداریوں کی وجہ سے مختلف وقتوں میں مختلف عذاب آئے ‘ کسی قوم کی شکل بدل دی گئی ‘ کہیں پتھربرسائے گئیے ‘ بہت سی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا ‘ زلزلے ‘ سیلاب بیماریوں اور آفتوں میں مبتلا کیا گیا اور کسی پر ظالم و جابر حکمرانوں کو مسلط کردیا گیا۔ یہ تو وہ عذاب تھے جو ان پر انکی بد اعمالیوں کے سبب اس دنیا میں آئے لیکن آخرت میں ایسی قوموں کا کیا انجام ہوگا۔ اس کے متعلق قرآن کی بہت سی آیات اور احادیث میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ آیت نمبر 6 تا 10 میں حشر کے ہولناک دن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ جب اچھے برے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں سے سوالات کر کے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ سب سے پہلے انبیاء کرام علیھم السلام کی امتوں سے پوچھا جائے گا کہ بتائو ! کیا تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آئے ؟ انہوں نے سچائی کا پیغام تمہیں پہنچایا ؟ ایمان والوں کو جنت کی بشارت اور کفر کی روش پر چلنے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا تھا ؟ کیا نہوں نے توحید و رسالت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی دعوت دی تھی ؟ کیا انہوں نے کلمہ شہادت کے ذریعہ اللہ کی حاکمیت اور عبودیت قائم کرنے کی تلقین کی تھی ؟ اسی طرح کے بہت سے سوالات کئے جائیں گے۔ اس جگہ امتوں کا جواب تو نقل نہیں کیا گیا لیکن قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان امتوں کے لوگوں کے جوابات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان میں کچھ تو لوگ وہ ہوں گے جو اپنی خطاؤں ‘ لغزشوں اور کفر و شرک کا اقرار کرلیں گے لیکن وہ لوگ جن کو دنیا میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہوگی وہ انبیاء کرام علیھم السلام کے منہ پر انکار کرتے ہوئے کہہدیں گے کہ ہمیں تو کوئی ڈرانے والا یا نصیحت کرنے والا نہیں آیا تھا۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں مگر اس عدالت میں انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لئے حق تعالیٰ شانہ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ تم اپنے گواہ لے کر آئو کہ تم نے پیغام حق ان لوگوں تک پہنچایا ہے یا نہیں ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی گواہی کے لئے امت محمدی کو پیش کریں گے کہ یہ ہمارے گواہ ہیں۔ منکرین پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ یہ تو ہمارے بہت بعد میں آئے ہیں ان کو کیا معلوم۔ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی امت سے پوچھیں گے کہ تمہیں یہ بات کس نے بتائی۔ آپ ﷺ کے امتی نبی کریم ﷺ کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے کہ آپ ﷺ نے ہمیں بتایا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ ارشاد فرمائیں گے کہ اے اللہ آپ کے کلام کے ذریعہ میں نے ان کو بتایا کہ ان سب انبیاء کرام (علیہ السلام) نے پیغام حق کو پوری دیانت و امانت سے اپنی امتوں کو پہنچایا۔ جب نبی کریم ﷺ یہ ارشاد فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ ہم اپنے رسول ﷺ پر گواہ ہیں ( یہ تفصیل حدیث شریف میں ہے اور سورة بقرہ کی آیت میں بھی مختصراً اس حقیقت کی نشاندھی فرمائی گئی ہے) ۔ پھر اس کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ مخالفین کی طرف سے ہر طرح کے خطرات کے باوجود کیا تم نے اپنافرض ادا کیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچایا ؟ کیا تم نے مشرکین کے سامنے توحید خالص کا پیغام پیش کیا تھا ؟ کیا تم نے پیغام حق کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے تبلیغ قولی کے ساتھ تنظیم و جہاد کی عملی کوششیں بھی کی تھیں ؟ ۔۔۔۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) عرض کریں گے الٰہی ہم نے اس سچائی کے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اے اللہ آپ ہر غیب کے جاننے والے ہیں۔ اسی طرح اہل کفر و شرک سے بھی سوال ہوگا کہ آخر تمہارے پاس ضد ‘ اور ہٹ دھرمی کی کیا دلیل تھی ؟ تم کیوں بھاگے پھر رہے تھے ؟ آخر تم کیوں بہانے بناتے رہے ؟ اہل ایمان سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنے ایمان کو ہر طرح کی ملاوٹ سے محفوظ رکھا تھا ؟ کیا تم نے ان ہزاروں نعمتوں کا جواب شکراداکرکے یدا تھا جو ہم نے تمہیں عطاکی تھیں۔ فرمایا جائے گا کہ ہم نے تمہیں ٹھکانا دیا تھا ‘ وسائل زندگی اور ان گنت نعمتوں سے نوازا تھا تم کوئی شکر کا نمونہ لے کر آئے ہو تو پیش کرو۔ قیامت کے ہیبت ناک دن میں یہ سوال و جواب ہوں گے۔ حالانکہ اللہ کو تو سب کچھ معلوم ہے اس کے ریکارڈ میں ایک ایک بات موجود ہے لیکن ان سوال و جواب اور گواہیوں کا مقصد صرف ضابطہ کی عدالتی کارروائی ہے اور بات کو منطقی نتیجہ تک پہنچانا ہے تاکہ جنت اور جہنم میں جانے والے اللہ کی عدالت و صداقت کو تسلیم کرلیں اور اپنے بہتر اور برے انجام تک اپنے اعمال کے سبب پہنچ جائیں۔۔۔۔ ۔ قیامت کا دن عدل و انصاف کا دن ہوگا۔ جس میں ایک ایک نفس کے اعمال کو میزان عدل پر تولا جائے گا ۔ وہ میزان عدل جو سچ اور حق ہے۔ میزان عدل میں وہی اعمال بھاری اور وزن دارہوں گے جو صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کئے گئے ہوں گے ورنہ اچھے سے اچھا عمل اگر محض دکھاوے ‘ نمود ونمائش ‘ فریب ‘ باطل اور ابلیس کی راہ میں ہوگا۔ وہ بےوزن ہوگا۔ اس دن کا تول بالکل حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاریہوں گے وہی کامیاب و بامراد ہوں گے۔ لیکن جن کے اعمال بےوزن اور کفر و شرک کے ساتھ ہوں وہی حسرت وافسوس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ سورة قارعہ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا پلہ بھاری نکلا وہ خوش خوش ہمیشہ عیش میں رہے گا اور جس کا پلہ ہلکا نکلا وہ جہنم کی گود میں جا گرے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضر صحابہ کرام ؓ سے پوچھا کہ جب قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچادیا تھا یا نہیں ؟ تو تم کیا جواب دو گے ؟ سارے صحابہ ؓ نے ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ ہم یہی کہیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام تمام و کمال ہم تک پہنچایا ہے اور اللہ کیا مانت کا حق ادا کردیا ہے اور آ پنے امت کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ فرمایا یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے حاضرین سے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ میرا یہ پیغام ان تک پہنچادیں جو موجود نہیں ہیں (یعنی ان لوگوں تک جو اس محفل میں نہیں ہیں یا جو میرے بعد نسلاً بعد نسل دنیا میں آئیں گے) ۔ ان آیات کا خلاصہ اور وضاحت یہ ہے :۔ (1) کفرو شرک میں مبتلا لوگوں سے اور انبیاء کرام علیھم السلام سے عدت و انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے سوالات کئے جائیں گے جس میں کفار کو ذلت کا منہ دیکھنا پڑے گا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نیک صالح امتی سرخ روہوں کو نجات اور فلاح پائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود کہ اللہ کو ذرہ ذرہ کا علم ہے اسکا علم ہر چیز پر غالب ہے اس کی نگاہوں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے وہ کسی شہادت اور گواہی کا محتاج نہیں ہے لیکن جس طرح اللہ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا میں رہنے سہنے اور عمال کرنے کی آزادی دی ہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی ہر ملزم کو اپنی صفائی کا پورا پورا موقع عطا فرمائیں گے۔ (2) اعمال کا تو لاجانا برحق ہے لیکن ان اعمال کو کس طرح تو لا جائے گا کس ‘ چیز پر تولاجائے گا اس کی وضاحت موجود نہیں ہے ہمارے سامنے تولنے کا جوآلہ یا ذریعہ ہوگا ہم انسانی محاوروں کے مطابق بات سمجھانے کے لئے اسی طرح سمجھانے کی کوشش کریں گے جیسے صدیوں پہلے کسی چیز کو تولنے اور ناپنے کے پیمانے ہوتے تھے۔ ہمارے بزرگوں نے بات کو سمجھانے کے لئے ان یہ چیزوں کا سہارا لیا اور بات کو سمجھادیا۔ آج کے دور میں تو بادل ‘ ہوا ‘ برف ‘ سونا چاندی اور چیزوں کو تولنے کے اتنے پیمانے نکل آئے ہیں جن کا تصور چند سو سال پہلے کرنا بھی ناممکن تھا اور آنے والے دور میں نجانے تولنے کے کون کونسے ذریعے نکل آئیں گے۔ بہر ال ماضی ‘ حال اور مستقبل میں کسی چیز کو تولنے کی جو بھی چیزیں نکل آئیں ہم بات کو اسی طرح سمجھائیں گے کیونکہ جو چیز سامنے ہوتی ہے اس کو مثال بنا بات کو سمجھایا جاتا ہے۔ مقصد ہے بات کا سمجھانا مثالوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ ۔۔ اس لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی عدالت میں انسانوں کے اعمال کس طرح تو لے جائیں گے۔ اس کے پیمانے کیا ہوں گے۔ اس کے پیچھے پڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اتنا سمجھ لیں تو کافی ہے کہ بہر حال انسانوں کے وزن داراعمال ہی ان کا نجات کا سبب بنیں گے۔ (3) نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی سامنے آیا کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام صحابہ کرام ؓ کو گواہ بنایا اور صحابہ ؓ نے اعتراف و اقرار کی سعادت حاصل کی۔ اسی میں آپکا یہ ارشاد کہ جو اس وقت موجود ہیں وہ میرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ ان سے مراد وہ لوگ بھی تھے جو اس وقت حجۃ الوداع کے موقع پر موجود نہیں تھے اور وہ لوگ بھی ہیں جو آنے والی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے آپ کے اس حکم کی تعمیل میں آپ کے ایک ایک ارشاد بلکہ ایک ایک ادا کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور قرآن کریم اور احادیث رسول ﷺ کو پوری دیانت و امانت سے صدیاں گذرنے کے باوجود ہم تک پہنچادیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم بھی ان حضرت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پیغام کو آنے والی نسلوں تک پہنچا کر اللہ و رسول کے سامنے سرخ رو ہوسکیں۔ اس موقع پر ختم نبوت کا مسئلہ بھی بہت واضح طریقہ پر سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ کہ آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ لوگو ! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں۔ (نعوذ باللہ) میرے بعد ایک اور بنی آئے گا جو اس کی وضاحت کرے گا بلکہ آپ نے دین اسلام پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری امت کے تمام افراد پر ڈالی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث اس بات پر گواہ ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ جھوٹا ہے۔
Top