Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
سو جن لوگوں کی طرف رسول بھیجے گئے ہم ان سے ضرور سوال کریں گے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے
(1) امام ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے البعث میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین “ سے مراد ہے کہ ہم لوگوں سے سوال کریں گے ان چیزوں سے جو انہوں نے جواب دیا تھا پیغمبروں کو اور ہم پیغمبروں سے بھی سوال کریں گے جو انہوں نے تبلیغ کی (یعنی اللہ کا پیغام پہنچایا) لفظ آیت ” لنقصن علیھم بعلم “ یعنی کتاب (اعمال نامہ) رکھا جائے گا قیامت کے دن اور وہ بات کرے گا ان معاملات کے بارے میں جو وہ عمل کرتے تھے۔ (2) امام عبد بن حمید نے عبد بن حمید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین “ سے مراد ہے کہ ایک ان میں سے انبیاء ہوں گے اور دوسرے ان میں سے فرشتے ہوں گے۔ (اور فرمایا) لفظ آیت ” فلنقصن علیھم بعلم “ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ (3) امام ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم “ کے بارے میں فرمایا کہ لوگوں سے ہم لا الہ الا اللہ کے بارے میں سوال کریں گے۔ لفظ آیت ” ولنسئلن المرسلین سے مراد ہے جبرئیل (علیہ السلام) کہ ہم ضرور ان سے بھی پوچھیں گے۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم “ یعنی ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے کیا تم کو رسولوں نے پیغام پہنچا دیا تھا۔ لفظ آیت ” ولنسئلن المرسلین “ یعنی اور ہم رسولوں سے ضرور پوچھیں گے کہ انہوں نے تمہیں کیا جواب دیا تھا۔ قیامت کے دن چار باتوں کے بارے میں سوال ہوگا (5) امام ابن ابی حاتم نے القاسم ابی عبد الرحمن سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ بندہ سے قیامت کے دن چار باتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا میں نے تیرا جسم نہیں بنایا تھا پس کس چیز میں تو نے اس کو بوسیدہ کیا۔ کیا میں نے تجھ کو علم نہیں دیا تھا تو نے کہاں تک عمل کیا جس کے بارے میں تو جانتا تھا۔ کیا میں نے تجھ کو مال نہیں دیا تھا پس کس چیز میں تو نے خرچ کیا میری اطاعت میں یا میری نافرمانی میں کیا میں نے تجھ کو عمر نہیں دی تھی پس کس چیز میں تو نے اس کو فنا کیا۔ (6) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے وھیب بن ورد (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے مخلوق میں سے اللہ کی طرف سب سے زیادہ قریب اسرافیل ہیں اور عرش ان کے کاندھے پر ہوگا۔ جب وحی نازل ہوتی ہے تو تختی کو لٹکا دیا جاتا ہے عرش کی جانب سے اسرافیل کے چہرے سے ٹکراتی ہے تو وہ اس میں دیکھتا ہے اور وہ جبرئیل کی طرف بھیج دیتا ہے وہ اسے یاد کرتے ہیں اور اسے آگے رسولوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ جب قیامت کا دن ہوگا اسرافیل (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا وہ لائے جائیں گے۔ ان کے مونڈھے اور پسلیوں کے درمیان کا گوشت کانپ رہا ہوگا (یعنی وہ گھبرائے ہوئے ہوں گے) ان سے کہا جائے گا تو نے کیا کیا تیری طرف وہ تختی دی گئی تھی۔ وہ کہیں گے اے میرے رب وہ میں نے جبرئیل کو دے دی تھی جبرئیل کو بلایا جائے گا۔ ان کو اس حال میں لایا جائے گا کہ ان کے مونڈھے اور پسلیوں کے درمیان کا گوشت کانپ رہا ہوگا۔ اس سے کہا جائے گا تو نے کیا کیا اس بارے میں جو تجھ کو اسرافیل نے پہنچایا تھا۔ وہ کہیں گے اے میرے رب میں نے رسولوں کو پیغام پہنچا دیا تھا۔ رسولوں کو بلایا جائے گا ان کے مونڈھوں اور پسلیوں کے درمیان کا گوشت کانپ رہا ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا تم نے کیا کیا جو تم کو جبرئیل نے امانت دی تھی تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب ہم نے لوگوں کو (آپ کا پیغام) پہنچا دیا تھا اسی کو فرمایا لفظ آیت ” فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن المرسلین “ (7) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں ابو سنان (رح) سے روایت کیا کہ مخلوق میں سے سب سے زیادہ قریب اللہ کی طرف لوح ہے جو عرش سے لٹکی ہوئی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتے ہیں کہ کسی چیز کی وحی کی جائے تو اس کو تختی میں لکھ دیتے ہیں۔ وہ تختی آتی ہے یہاں تک کہ اسرافیل کے ماتھے سے ٹکراتی ہے اور اسرافیل اپنے چہرے کو اپنے پروں سے چھپالیتے ہیں اور اپنی آنکھ کو اوپر نہیں اٹھاتے اللہ کی عظمت کرتے ہوئے۔ پھر وہ اس میں دیکھتے ہیں اگر وہ حکم ہے آسمان والوں کی طرف تو وہ میکائیل کو دے دیتے ہیں اور اگر وہ حکم ہے زمین والوں کی طرف تو وہ جبرئیل (علیہ السلام) کو دے دیتے ہیں۔ تو سب سے پہلے قیامت کے دن تختی کا حساب لیا جائے گا۔ اس کو بلایا جائے گا تو اس کے مونڈھوں اور پسلیوں کے درمیان کا گوشت کانپ رہا ہوگا۔ اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو نے پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ جواب دے گی ہاں تو ہمارے رب فرمائیں گے تیرے لئے گواہی کون دے گا۔ وہ کہے گی اسرافیل (علیہ السلام) پھر اسرافیل (علیہ السلام) کو بلایا جائے گا تو اس کے مونڈھوں اور پسلیوں کے درمیان کا گوشت کانپ رہا ہوگا۔ اس سے کہا جائے گا کیا تختی نے تجھ کو پیغام پہنچا دیا تھا تو کہیں گے ہاں تختی کہے گی۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے برے حساب (یعنی حساب کی سختی) سے نجات دی۔ پھر اسی طرح (آگے سب سے سوالات ہوں گے) (8) امام ابو الشیخ نے عظمۃ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ عزوجل فرمائیں گے اے اسرافیل لے آ جو کچھ میں نے تیرے سپرد کیا تھا۔ وہ کہیں گے ہاں اے میرے رب صور میں اتنے اتنے سوراخ ہیں اور انسانوں کی روحوں میں سے اتنی ہیں۔ اتنے جن ہیں۔ اور شیاطین کی تعداد اتنی ہے۔ اور وحشی جانور اتنے ہیں اور پرندے اتنے ہیں اور چوپاؤں کی تعداد اتنی ہے۔ اور کیڑے مکوڑے اتنے ہیں۔ اور مچھلیاں اتنی تعداد میں ہیں۔ اللہ عزوجل فرمائیں گے ؛ اس کو لوح میں سے دیکھو تو وہ تعداد برابر برابر ہوگی نہ اس میں زیادتی ہوگی اور نہ اس میں کمی ہوگی۔ پھر اللہ عز وجل فرمائیں گے لے آؤ جو میں نے تیرے سپرد کیا تھا۔ اے میکائیل (علیہ السلام) وہ کہیں گے جی ہاں میں حاضر ہوں۔ تو نے نازل کیا اتنے اتنے کیل اتنا اتنا وزن مثقال۔ اتنا وزن قیراط اتنا اتنا وزن رائی کے دانہ کے برابر اور اتنا اتنا وزن درہ نازل فرمایا تو نے سال میں اتنا اتنا اور نازل فرمایا مہینے میں اتنا اتنا ہفتے میں اتنا اتنا ایک دن میں اتنا اتنا اور ایک ساعت میں اتنا اتنا نازل کیا۔ اور نازل کیا کھیتی کے لئے اتنا اتنا اور نازل کیا شیاطین کے لئے اتنا اتنا اور نازل کیا انسانوں کے لئے اتنا اتنا اور نازل کیا جانوروں کے لئے اتنا اتنا اور نازل کیا وحشی جانوروں کے لئے اتنا اتنا اور پرندوں کے لئے اتنا اتنا اور مچھلیوں کے لئے اتنا اتنا اور کیڑے مکوڑوں کے لئے اتنا اتنا لہذا یہ کل تعداد اتنی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کو دیکھو لوح میں سے۔ اچانک وہ ہو بہو اسی طرح ہوگی نہ زیادتی ہوگی نہ اس میں کمی ہوگی پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے جبرئیل (علیہ السلام) لے آو جو کچھ تیرے سپرد کیا تھا۔ وہ کہیں گے ہاں میرے رب تو نے اپنے فلاں نبی پر اتنی آیتیں فلاں فلاں مہینے میں اور فلاں فلاں ہفتے میں اور فلاں فلاں دن میں نازل فرمائیں اور تو نے اپنے فلاں نبی پر اتنی آیتیں اور اتنی سورتیں نازل فرمائیں سورتوں میں اتنی اتنی آیتیں ہیں۔ تو جب اتنی آیتیں ہیں تو ان میں حروف اتنے ہیں اتنے تو نے مدینہ میں ہلاک کئے ہیں۔ اور اتنے تو نے زمین میں دھنسا دیئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اے لوح اس کو دیکھ لو تو اچانک وہ اسی طرح ہوگا نہ اس میں زیادتی ہوگی نہ اس میں کمی ہوگی پھر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے لے آؤ اے عزرائیل جو کچھ تیرے سپرد تھا وہ کہیں گے ہاں اے میرے رب تو نے اتنے انسانوں اتنے جنوں اور اتنے شیطانوں کی روحیں قبض کی ہیں لوگوں کو پانی میں غرق کیا ہے اور اتنے لوگوں کو جلا دیا ہے اتنے کافر ہیں اتنے شہید ہیں اور اتنوں پر مکان گرا دیئے گئے۔ اتنے لوگوں کو سانپ اور اس جیسے دیگر کیڑوں سے ڈسوایا اتنے میدانوں میں اور اتنے پہاڑوں میں تھے اتنے پرندے تھے۔ اور اتنے کیڑے مکوڑے اور اتنے جنگلی جانور تھے۔ پس اتنی اتنی چیزیں تھیں حتی کہ کل تعداد اتنی ہوگی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے اس کا لوح سے موازنہ کرو۔ اچانک وہ ہوبہو اسی طرح ہوگی نہ اس میں زیادتی ہوگی اور نہ اس میں کمی ہوگی۔ (9) امام احمد نے معاویہ بن حیدہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرا رب مجھے بلائے گا اور مجھ سے پوچھے گا تو نے میرے بندوں کو پیغام پہنچا دیا تھا۔ اور میں کہنے والا ہوں گا اے میرے رب میں نے ان کو پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ تم میں سے جو حاضر ہے اس کو چاہئے کہ وہ غائب کو پیغام پہنچا دے پھر تم قیامت کے دن بلائے جاؤ گے۔ اس حال میں کہ تمہارے منہ چھینکوں کے ساتھ بند ہوں گے یعنی منہ سے کچھ بات چیت نہ کرسکو گے اور تمہارے پاؤں تمہارے اعمال پر گواہی دیں گے۔ تمہارے اعضاء میں سے اس کی ران اور اس کی ہتھیلی گواہی دے گی۔ (10) امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا امام سے لوگوں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آدمی اپنے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور عورت اپنے خاوند کے گھر کے بارے میں پوچھی جائے گی۔ اور غلام اپنے آقا کے حال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (11) امام بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا اپنی رعیت کے بارے میں امام پوچھا جائے گا لوگوں کے بارے میں اور آدمی پوچھا جائے گا اپنے اہل و عیال کے بارے میں اور عورت پوچھی جائے گی اپنے خاوند کے گھر کے بارے میں اور غلام پوچھا جائے گا اپنے آقا کے مال کے بارے میں۔ ہر سردار سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا (12) امام ابن حبان اور ابو نعیم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سوال کرنے والے ہیں ہر سردار سے اس کی رعایا کے بارے میں آیا اس نے حفاظت کی یا اس کو ضائع کیا یہاں تک کہ آدمی سے سوال کیا جائے گا اس کے گھر والوں کے بارے میں۔ (13) امام طبرانی نے الاوسط میں سند صحیح کے ساتھ انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے پوچھا جائے گا۔ اس کی رغبت کے بارے میں پس تیار کرلو مسائل کے لئے جواب کو صحابہ نے عرض کیا کیا اس کا جواب کیا ہے۔ آپ نے فرمایا نیک اعمال۔ (14) امام طبرای نے کبیر میں مقدام ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا نہیں ہوگا کوئی آدمی اپنی قوم پر سردار مگر یہ کہ قیامت کے دن ان کے آگے آگے آئے گا۔ اس کے آگے ایک جھنڈا ہوگا جو وہ اٹھائے ہوگا اور لوگ اس کے پیچھے ہوں گے۔ اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور وہ لوگ بھی اس کے بارے میں سوال کئے جائیں گے۔ (15) امام طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ہے کوئی امیر جو دس آدمیوں پر امیر بنایا گیا مگر اس سے پوچھا جائے گا ان سب کے بارے میں قیامت کے دن۔ (16) امام طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ سوال کرنے والے ہیں ہر رعبت والے سے اس کی رعایا کے بایر میں کہ جس پر اس کو نگران بنایا گیا تھا کہ اس نے اللہ کا حکم ان پر نافذ کیا یا ضائع کیا یہاں تک کہ ہر آدمی سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (17) امام طبرانی نے الاوسط میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے جس کے بارے میں بندہ سے سوال کیا جائے گا قیامت کے دن وہ یہ ہے کہ دیکھا جائے گا اس کی نمازوں میں اگر وہ ٹھیک نکلیں تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔
Top