Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
سو یاد رکھو ہم ان لوگوں سے پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی ہم استفسار کریں گے
ارشاد فرمایا : فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْھِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْھِمْ بِعِلْمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ ۔ (الاعراف : 6، 7) ” سو یاد رکھو ہم ان لوگوں سے پرسش کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے اور خود رسولوں سے بھی ہم استفسار کریں گے پھر ہم ان کے سامنے سب بیان کریں گے پورے علم کے ساتھ اور ہم کہیں غائب نہیں رہے “۔ انذار کی تفصیل سب سے پہلے ان آیات کے اسلوب پر غور کیجیے کہ اس کے تیور کس قدر تیکھے ہیں یہ تصور دیا جا رہا ہے کہ ذرا اس وقت کو ذہن میں تازہ کرو جب تم سب اپنی ان تمام بےایمانیوں اور بد اعمالیوں سمیت اور اپنے تمام پندار اور تکبر و غرور کا سرمایہ ساتھ لیے ہوئے اللہ کے سامنے بےبسی کے حالت میں کھڑے ہو گے اور وہ تم سے تمہاری ایک ایک بات اور تمہاری ایک ایک حرکت کے بارے میں سوال کرے گا آج جبکہ تم اپنے اقتدار کے نشے میں اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بڑی سے بڑی بات کہنے اور ہولناک سے ہولناک ظلم ڈھانے سے دریغ نہیں کر رہے اللہ کے رسول کی عظیم اور دلآویز شخصیت بھی تمہیں گستاخیوں سے روکنے کے لیے کافی نہیں اور ان پر ایمان لانے والوں کے لیے تم نے عذاب کی بھٹیاں سلگا رکھی ہیں۔ بلال جیسے وفا شعاروں کے لیے تمہارے پاس رحم و مروت کا نام تک نہیں ‘ خباب جیسے سرفروشوں کے لیے تمہارے پاس دہکتے انگاروں کے بستر ہیں جن پر تم انھیں لٹا کر ان کے ایمان کا امتحان لیتے ہو۔ تم ایک سے ایک بڑی ظالمانہ حرکت کرتے ہو لیکن تمہارے ضمیر میں خلش تک نہیں ہوتی۔ لیکن اس دن جب تمہیں اللہ کے سامنے کھڑا ہونا پڑے گا تو تم خود اپنی نگاہوں سے تصور میں اپنا ایک ایک ظلم دیکھو گے تمہیں اپنی ایک ایک بات یاد آئے گی جس سے تم نے اللہ کے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کی دل آزاری کی تھی اور جو تم بارگاہ اقدس میں گستاخیاں کرتے رہے تھے اب پروردگار پورے جلال سے تمہارے ایک ایک عمل کی تم سے باز پرس کرے گا اور وہ تم سے پوچھے گا کہ دیکھو ہمارے رسول نے جس طرح خون جگر پی پی کر تمہیں سمجھانے اور اللہ کا دین پہنچانے کی کوشش کی تم نے اس کے جواب میں کیا رویہ اختیار کیا۔ سوچ لو اس وقت تمہاری کیا حالت ہوگی اور تم اپنے موجودہ رویے کا کیا جواب پیش کرسکو گے اور پھر اس کے بعد اگلے جملے سے اللہ کے مزید جلال کا اظہار ہوتا ہے کہ وہاں سوال ان مجرموں سے تو ہوگا ہی خود اللہ کے نبیوں سے بھی پوچھا جائے گا جس کا ذکر دوسری جگہ قرآن کریم میں یہ کہہ کر فرمایا گیا ہے۔ یَوْمَ یَجْمَعِ اللہ ُ الرُّسُلَ مَاذَا اُجِبْتُمْ ” جس دن اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا پھر پوچھے گا تمہیں کیا جواب ملا “ یعنی ایک طرف تو ان مجرموں سے جواب طلبی ہوگی لیکن اللہ کے جلال کا کیا ٹھکانہ ہے کہ خود اللہ کے رسول بھی جواب طلبی کی زد میں ہوں گے اور وہ اس قدر اللہ کے جلال سے کانپ رہے ہوں گے کہ صرف یہ کہہ کر چپ ہوجائیں گے کہ یا اللہ ہم جن لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے ان کے رویے کی پوری کیفیت سے ہم پوری طرح واقف نہیں کیونکہ ان کی اندرونی باتیں اور ان کی پوشیدہ حرکتیں اور ان کے بعد کے آنے والی نسلوں کا رویہ وہ تو ہم نہیں جانتے کیونکہ غیبوں کے جاننے والے تو آپ ہی ہیں حالانکہ رسولوں سے جو بات پوچھی جائے گی اس کا تعلق ان کی اپنی زندگی سے نہیں نہ ان کی ذمہ داریوں سے ہے بلکہ صرف ان کی امتوں کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا کہ انھوں نے تمہاری دعوت سے کیا سلوک کیا لیکن وہ چونکہ اللہ کے جلال کی حقیقت سے واقف ہیں اس لیے وہ کھل کے بات کہنے کی ہمت نہیں کرسکیں گے بلکہ احادیث میں قیامت کی جو تفصیلات ہمیں ملتی ہیں اس سے جو صورت حال سامنے آتی ہے اس کو تو محسوس کر کے ہی پتہ پانی ہونے لگتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے تو ان کی کیفیت یہ ہوگی کہ ہر شخص اپنے پسینے میں ڈوبا ہوگا اور اللہ کے جلال کی وجہ سے ایک ایسی ہیبت طاری ہوگی کہ کوئی شخص نہ بولنے کی ہمت کرے گا نہ دائیں بائیں دیکھنے کی ہمت کرے گا جب یہ انتظار ناقابل برداشت ہونے لگے گا تو کچھ لوگ اپنے اپنے انبیاء و رسل کی طرف رجوع کریں گے کہ آپ اللہ سے دعا کریں کہ کم از کم حساب کتاب تو شروع ہو لیکن ہر رسول اور پیغمبر اللہ کے جلال سے خوف زدہ ہونے کے باعث زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ بالآخر سب آنحضرت ﷺ سے گزارش کریں گے کہ آپ اللہ سے دعا فرمائیں اور شفاعت کریں کہ وہ اپنی مخلوق کا حساب شروع کرے تب حضور فرماتے ہیں کہ میں کچھ کہنے کی بجائے سرسجدے میں رکھ دوں گا اور اب میں نہیں جانتا کہ میں کن کلمات کے ساتھ اللہ کی حمد وثناء کروں گا اس وقت وہ کلمات اللہ میرے دل میں ڈالے گا اور ان کے ذریعے سے میں اپنے اللہ کو پکاروں گا۔ دیرتک سجدے میں پڑے رہنے کے بعد اللہ کی طرف سے آواز آئے گی کہ اے محمد ﷺ ! سر اٹھائو ‘ مانگو ہم عطا کریں گے۔ تب حضور ساری امتوں کے لیے حساب کتاب شروع کرنے کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہی وہ شفاعت کبریٰ کا مقام ہے جس پر ہمارے رسول پاک کو فائز کیا جائے گا لیکن اس صورت حال سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس دن اللہ کے جلال کی کیفیت کیا ہوگی ؟ چناچہ لوگوں سے جب ان کا حساب لیا جائے گا تو نہ صرف کہ بارگاہ ایزدی میں ان سے باز پرس ہوگی بلکہ جہنم میں انھیں ڈالتے ہوئے جہنم کے داروغے بھی ان سے پوچھیں گے کہ آج تمہیں جس طرح عذاب کے حوالے کیا جا رہا ہے ذرا بتلائو تو سہی کہ تمہاری طرف اللہ کے رسول تمہیں ہدایت دینے کے لیے نہیں آئے تھے چناچہ قرآن کریم میں اس کی تفسیر اس طرح بیان کی گئی ہے : کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیْھَا فَوْجٌ سَأَلَھُمْ خَزَنَتُھَا اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَذِیْرٌ قَالُوْا بَلٰی قَدْ جَآئَنَا نَذِیْرٌ فَکَذَّبْنَا وَ قُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہ ُ مِنْ شَیْئٍ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ کَبِیْرٍ وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ فَاعْتَرَفُوْا بِذَنْبِھمْ فَسُحْقًا لاِّ َصْحٰبِ السَّعِیْرِ ” جب جب ان کی کوئی بھیڑ دوزخ میں جھونکی جائے گی اس کے داروغے ان سے پوچھیں گے کیا تمہارے پاس کوئی ہوشیار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ کہیں گے ہاں ہمارے پاس ایک ہوشیار کرنے والا آیا تو تھا پر ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ خدا نے کوئی چیز بھی نہیں اتاری ہے ‘ تم تو ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ وہ اعتراف کریں گے کہ اگر ہم سنتے سمجھتے ہوتے تو جہنم میں پڑنے والے نہ بنتے۔ پس وہ اپنے جرم کا اقرار کریں گے تو لعنت ہو ان دوزخیوں پر “ (الملک : 8-11) اگلی آیت کریمہ میں اس دن کی کیفیت کو اور پر جلال بنادیا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ اگر آج اس کے پڑھنے والے پوری طرح اس کا ادراک کرلیں تو بہت ممکن ہے وہ راہ راست اختیار کرلیں ورنہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ محض سخن آرائی نہیں بلکہ ایک حقیقت کا بیان ہے کہ اس دن کافروں کو ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہونا ہوگا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ اس دن کے ہولناک منظر کا پورا نقشہ تو شاید الفاظ ادا کرنے سے ویسے بھی قاصر ہوں کیونکہ کسی زبان میں بھی ابھی تک وہ وسعت پیدا نہیں ہوسکی جس میں پوری طرح اس دن کی ہولناکی کا نقشہ کھینچا جاسکے۔ ذرا اندازہ فرمایئے جب اللہ تعالیٰ عدالت کی مسند پر پورے جلال سے جلوہ افروز ہوں گے اور کافر مجرموں کی صورت اس عدالت میں اپنے کرتوتوں کو سامنے پا کر آنے والے انجام کا تصور کر کے کانپ رہے ہوں گے تو زیادہ سے زیادہ اس سے بچنے کی کوئی ہلکی سی امید ہوسکتی ہے یا عذاب میں تخفیف کی اگر کوئی کوشش کی جاسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اپنے جرائم کو ماننے سے انکار کردیا جائے یا جھوٹ بول کر اپنے جرائم کی شدت کو کم کر کے دکھایا جائے لیکن اللہ فرماتا ہے کہ تم ایسی کوئی کوشش بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکو گے کیونکہ ہم تمہاری سخن سازی سے پہلے ہی ایک ایک بات کو کھول کھول کر بیان کردیں گے کیونکہ تمہاری کوئی بات بھی ہمارے علم سے مخفی نہیں ہے اور تمہارا کوئی کام بھی ایسا نہیں کہ جب تم وہ کام کر رہے تھے تو ہوسکتا ہے کہ تاریکی اور تنہائی میں تمہاری اپنی ذات بھی اس سے پوری طرح باخبر نہ ہو اور تمہاری نگاہیں اس سے نہ دیکھ سکیں لیکن اللہ کی ذات تو اس سے پوری طرح باخبر ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے کہ تم نے اپنی زندگی میں جو کچھ کیا ہے تم نے یہ سمجھ کے کیا ہے کہ شاید تمہارے ان کاموں کو حالات کی رفتار فنا کر دے گی اور وقت اس پر غبار ڈال کے آگے نکل جائے گا لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم جب بھی کوئی کام کرتے ہو اور جس حال میں بھی ہوتے ہو اللہ تم سے غائب نہیں ہوتا۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم برابر تمہارے ایک ایک عمل سے واقف رہے ہیں اور تمہارے کسی کام کے وقت بھی ہم وہاں سے غیر حاضر نہ تھے پھر ان کو اپنے علم و خبر کے مطابق ایک ایک بات کھول کھول کے بتائی جائے گی جہاں ان کی زندگی کا روزنامچہ ان کے سامنے کھول دیا جائے گا وہاں اللہ کے رسولوں نے جس طرح حق ابلاغ ادا کیا اور ان کی تکذیب کرنے والوں نے جس طرح جان بوجھ کر ان کی تکذیب کی اور انھوں نے جس طرح اپنے خون سے ہدایت کے دیپ جلائے اور انھوں نے جس طرح روشنی کے سامنے آنکھیں بند رکھیں انھوں نے جس طرح ان کی اذیتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور ان کی گالیاں سن کر دعائیں دیتے رہے ایک ایک چیز ان کے سامنے کھول کھول کر بیان کردی جائے گی۔ آج شاید اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہو کہ ایسی صورت حال میں ان کافروں کی کیفیت کیا ہوگی اور وہ خوف و دہشت کے کس عالم سے گزر رہے ہوں گے۔ مشرکینِ مکہ کی ایک خاصی بڑی تعداد قیامت ہی کی منکر تھی لیکن جو لوگ قیامت کے آنے کو ممکن سمجھتے تھے ان کے لیے بھی یہ بات سمجھنا بہت مشکل تھی کہ اربوں کھربوں مخلوق کو کس طرح بیک وقت زندہ کردیا جائے گا ؟ اور اگر زندہ کر بھی دیا جائے تو اتنی بڑی تعداد کا حساب لینا کس طرح ممکن ہوگا ؟ اور پھر یہ بات تو ان کے لیے اور بھی حیران کن تھی کہ ہم نے زندگی بھر جو اعمال کیے ہیں جو شاید ہمیں بھی پوری طرح یاد نہ ہوں ان میں سے ایک ایک بات کی باز پرس کیسے ہوگی ؟ اور ایک ایک عمل کس طرح ہمارے سامنے لایا جاسکے گا ؟ یعنی قیامت میں جواب دہی کا پورا طریق کار اور اس کی پوری تفصیلات ان کے لیے ناقابل یقین تھیں اور اس لیے وہ ہمیشہ ان کا تمسخر اڑاتے تھے چناچہ اگلی آیت کریمہ میں انہی تفصیلات میں سے چند باتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top