Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 6
فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْهِمْ وَ لَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَۙ
فَلَنَسْئَلَنَّ : سو ہم ضرور پوچیں گے الَّذِيْنَ : ان سے جو اُرْسِلَ : رسول بھیجے گئے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف وَلَنَسْئَلَنَّ : اور ہم ضرور پوچھیں گے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
سو ہم کو ضرور پوچھنا ہے ان سے جن کے پاس رسول بھیجے گئے تھے، اور ہم کو ضرور پوچھنا ہے رسولوں سے
(آیت) فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ یعنی قیامت کے روز عوام الناس سے سوال کیا جائے گا کہ ہم نے تمہارے پاس اپنے رسول اور کتابیں بھیجی تھیں، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، اور رسولوں سے پوچھا جائے گا کہ جو پیغام رسالت اور احکام الٓہیہ دے کر ہم نے آپ کو بھیجا تھا وہ آپ حضرات نے اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیئے یا نہیں (اخرجہ البیہقی عن ابن عباس مظہری)۔
اور صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حجة الوداع کے خطبہ میں لوگوں سے سوال کیا کہ قیامت کے روز تم لوگوں سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا یا نہیں ؟ فما انتم قائلون، ”یعنی اس وقت تم اس کے جواب میں کیا کہو گے“ ؟ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم کہیں گے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا، اور امانت خداوندی کا حق ادا کردیا، اور امت کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہم اشھد ”یعنی یا اللہ آپ گواہ رہیں“۔
اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مجھ سے دریافت فرماویں گے کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں کو پہنچا دیا، اور میں جواب میں عرض کروں گا کہ میں نے پہنچا دیا ہے، اس لئے اب تم سب اس کا اہتمام کرو کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ غائبین تک میرا پیغام پہنچا دیں (مظہری)
غائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس زمانہ میں موجود تھے مگر اس مجلس میں حاضر نہ تھے، اور وہ نسلیں بھی جو بعد میں پیدا ہوں گی، ان تک رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ آنے والی نسل کو اس پیغام کے پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں، تاکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام بنی آدم کو یہ پیغام پہنچ جائے۔
Top