Tafseer-e-Jalalain - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اسکو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا ہے )
آیت نمبر 9 تا 24 ترجمہ : اور اگر ہم کافر انسان کو اپنی رحمت) مثلاً ( مالداری اور صحت سے نوازنے کے بعد اس کو رحمت سے محروم کردیتے ہیں تو وہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر اس رحمت کی بےحد ناشکری کرنے لگتا ہے، اور اگر اس مصیبت کے بعد جو اس پر آپڑی تھی) مثلاً ( فقر اور سختی، ہم اس کو نعمتوں کا مزا چکھا دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرے سب دکھ دور ہوگئے اور ان نعمتوں کے زوال کا خیال بھی نہیں کرتا اور نہ ان پر شکر ادا کرتا ہے) اور ( وہ اترانے لگتا ہے اور جو کچھ اس کا دیا گیا ہے اس کی وجہ سے لوگوں پر شیخی بگھارنے لگتا ہے، مگر جو لوگ مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں میں نیک عمل کرتے ہیں یہی ہیں وہ لوگ ہیں کہ جن کیلئے مغفرت ہے اور بڑا اجر ہے وہ جنت ہے، تو اے محمد ایسا نہ ہو کہ قرآن سے ان کی بےتوجہی کہ وجہ سے اس وحی کے کچھ حصے کو جو آپ کی طرف بھیجی جاتی ہے ان تک پہنچانے کو چھوڑ دیں اور ان کو قرآن سنانے سے ان کی اس بات کی وجہ سے تنگ دل ہوتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ کس لئے ان پر ہماری تجویز کے مطابق خزانہ نازل نہیں کیا گیا یا کس لئے ان کے ساتھ فرشتہ نہیں آیا جو ان کی تصدیق کرتا، آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں آپ کی ذمہ داری تو صرف پہنچا دینا ہے نہ کہ وہ سب کچھ کردکھانا جس کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے اور اللہ ہر شئ پر پورا اختیار رکھنے والا ہے تو وہ ان کو سزا دے گا کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے قرآن خود گھڑ لیا ہے تو) جواب میں ( آپ کہئے کہ تم بھی فصاحت و بلاغت میں میرے جیسے فصیح عرب ہو لہٰذا اس کے جیسی دس سورتیں گھڑ کرلے آو، اولاً ان کو دس سورتوں سے چیلنج دیا) اور ( پھر ایک سورت سے۔ اور اس کام میں مدد کے لئے اللہ کے سوا جس کو تم بلاسکتے ہو بلالو اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ اس کو اس نے خود گھڑ لیا ہے۔ پس اگر وہ غیر جن کو تم نے مدد کیلئے پکارا ہے تمہاری پکار کا جواب نہ دیں تو سمجھ لو خطاب مشرکوں کو ہے کہ یہ) قرآن ( خدا ہی کے علم کے ساتھ اتارا گیا ہے اور اس پر افتراء نہیں ہے اور یہ بھی یقین کرلو انْ مخففہ عن الثقیلہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو کیا تم اس حجت قاطعہ کے بعد بھی مسلمان ہوتے ہو ؟ یعنی مسلمان ہوجاو، جس شخص نے دنیوی زندگی اور اس کی رونق ہی کو مقصد بنا لیا ہے بایں طور کہ اس نے شرک پر اصرار کیا، اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت ریاکاروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو ہم ان کے اعمال خیر مثلاً صدقہ اور صلہ رحمی کا صلہ) دنیا ہی میں ( پورا پورا دیتے ہیں بایں طور کہ ہم ان کے رزق میں وسعت کردیتے ہیں اور دنیا میں ان کے صلہ میں کچھ کمی نہیں کی جاتی) سو ( یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں ناز جہنم کے سوا کچھ نہیں، اور جو کچھ انہوں نے عمل خیر کیا آخرت میں سب ضائع ہوگا تو ان کو کچھ اجر نہ ملے گا اور جو) عمل خیر (وہ کرتے رہے ہیں سب باطل ہوجائیگا، کیا وہ شخص جو اپنے رب کی جانب سے دلیل پر ہو اور وہ) دلیل ( قرآن ہے اور وہ شخص نبی ﷺ یا مومنین ہیں اور اس کے ساتح اللہ کی طرف سے شاہد بھی ہو کہ جو اس کی تصدیق کرتا ہو اور وہ جبرئیل (علیہ السلام) ہیں اور قرآن سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات بھی اس کی شاہد ہے، حال یہ ہے کہ وہ پیشوا اور رحمت ہے اس شخص کے برابر جو ایسا نہیں ہے، ہوسکتا ہے ؟ نہیں ہوسکتا اور یہی لوگ جو دلیل پر ہیں قرآن پر ایمان رکھتے ہیں تو ان کیلئے جنت ہے اور تمام کفار میں سے جو فریق بھی اس کا منکر ہوگا تو اس کیلئے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے تو قرآن کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ بالقین قرآن تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے لیکن اکثر لوگ) یعنی ( اہل مکہ یقین کرنے والے نہیں ہیں اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا کہ جو اللہ کی طرف شریک اور ولد کی نسبت کرکے اللہ پر جھوٹا بہتان لگاتا ہے ؟ کوئی نہیں ہوگا ایسے لوگ منجملہ دیگر لوگوں کے قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے پیش کئے جائیں گے) اشھاد ( شاھد کی جمع ہے مراد فرشتے ہیں رسولوں کے بارے میں پیغام رسانی کی اور کفار کے بارے میں جھٹلانے کی گواہی دیں گے گواہ کہیں گے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے متعلق جھوٹی باتیں کہی تھیں، سب سن لو ایسے ظالموں مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہے جو اللہ کے راستے سے دین اسلام سے روکتے تھے اور ٹیڑھے راستہ کی جستجو میں لگے رہتے تھے اور یہ لوگ آخرت کے بھی منکر تھے، ھُمْ سابق ھم کی تاکید ہے یہ لوگ روئے زمین پر اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے تھے اور نہ کوئی غیر اللہ ان کا مددگار ہوگا جو ان سے اللہ کے عذاب کو دفع کرسکے، دوسروں کو گمراہ کرنے کی وجہ سے ایسوں کو دوگنی سزا ہوگی یہ لوگ نفرت کی وجہ سے نہ حق بات سن سکتے تھے اس سے شدید کراہت کی وجہ سے گویا کہ ان میں اس کی طاقت ہی نہیں تھی یہ وہ لوگ ہیں جو دائمی آگ کی طرف لوٹنے کی وجہ سے خود کو برباد کر بیٹھے اللہ پر جو دعوائے شریک گھڑا تھا سب بھول جائیں گے یقینی بات ہے کہ آخرت میں یہی لوگ سب سے زیادہ خسارہ میں ہوں گے، بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور) دل سے ( اپنے رب کی جانب جھکے اور ان کو اطمینان ہوا اور) اس کی طرف ( رجوع کیا، ایسے لوگ اہل جنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے دونوں فریقوں یعنی کافروں اور مومنوں کی حالت ایسی ہے جیسے ایک شخص اندھا اور بہرا ہو یہ مثال کافر کی ہے اور ایک شخص ایسا ہو کہ جو دیکھتا بھی ہو اور سنتا بھی ہو یہ مثال مومن کی ہے، کیا دونوں شخص حالت میں برابر ہوسکتے ہیں ؟ نہیں ہوسکتے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟ اس میں اصل میں تاء کا ذال میں ادغام، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے ؟ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : وَلَئِن اَذَقْنَا الْانسَانَ مِنّا رحمۃً ) الآیۃ (لَئنْ میں لام قسمیہ ہے، انَّہ لَیئوس کفور، جواب قسم ہے اور جواب شرط محذوف ہے مِنّا حال ہے رحمۃً ۔ اَذَقنا کا مفعول ثانی ہے، مِنّا اصل میں رحمۃً کی صفت ہے مقدم ہونے کی وجہ سے حال ہوگئی۔ قولہ : لیئوس اور کفور، یہ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں اور یہ دونوں اِنَّ کی خبریں ہیں۔ قولہ : الکافر، اس میں اشارہ ہے کہ الانسان میں الف لام عہد کا ہے۔ قولہ : شدید الکفر بہ یہ کفور کے صیغہ مبالغہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : ولم یتوقع زوَالَھا اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذھَبَ السیئات میں مصائب کے صرف ختم ہونے ہی کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ قائل نے ان مصائب کے عدم عود کا ارادہ کیا ہے، یعنی اب حاصل شدہ نعمتوں کے زوال کا اندیشہ نہیں ہے۔ قولہ : لکن اِلاّ کی تفسیر لکن سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ ہے اسلئے کہ لئن اَذقنا الانسانَ میں انسان سے مراد انسان کافر ہے لہٰذا اَلَّذینَ صبروا اس میں داخل نہ ہوں گے۔ قولہ : بیان، بیّنۃ کی تفسیر بیان سے کرکے ایک سوال کا جواب دینا مقصود ہے۔ سوال : اللہ تعالیٰ کے قول یتلوہ کی ضمیر بینۃ کی طرف راجع ہے ضمیر اور مرجع میں مطابقت نہیں ہے۔ جواب : جواب کا حاصل یہ ہے کہ بینۃ معنی میں بیان کے ہے۔ قولہ : ھو النبی ﷺ او المومنون یہ مَنْ کانَ علیٰ بیْنۃ میں مَنْ کے مصداق کی وضاحت ہے مَن کے مصداق میں دو احتمال ہیں ایک تو آپ ﷺ اور دوسرا مومنون اور وھی القرآن، بینۃ کے مصداق کا بیان ہے۔ قولہ : حَال، ای ھما حالان من کتاب موسیٰ (علیہ السلام) ۔ قولہ : کمن لیس کذلک، مفسر علام نے اس جملہ کا اضافہ کرکے اشارہ کردیا کہ اَفَمَنْ کانَ الخ مبتداء کی خبر محذوف ہے اور وہ کمنْ لیسَ کذلک ہے۔ قولہ : لا اس میں اشارہ ہے کہ اَفَمَنْ کان علی بینۃ میں ہمزہ انکاری ہے۔ قولہ : یَطلبُون السبیل یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یَبْغونھا کی ضمیر سبیل کی طرف لوٹ رہی ہے حالانکہ ضمیر مونث ہے اور سبیل مذکر ہے جواب کا حاصل یہ ہے کہ لفظ سبیل مذکر اور مونث دونوں طرح مستعمل ہے۔ تفسیر و تشریح وَلَئِن اَذقنَا الْانسَانَ ) الآیۃ ( پہلی اور دوسری آیت میں بشری طبیعت اور ایک طبعی عادت قبیحہ کا ذکر ہے، اور مسلمانوں کو اس سے بچنے کی ہدایت ہے، ارشاد ربانی ہے کہ اگر ہم انسان کو کوئی نعمت چکھا دیتے ہیں اور پھر اس سے واپس لے لیتے ہیں تو ناامید اور ناشکرا ہوجاتا ہے، اور اگر کسی تکلیف کے بعد کسی نعمت کا مزا چکھا دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ میرے سب دکھ درد دور ہوگئے، اور وہ اترانے اور دوسروں پر فوقیت جتانے اور شیخی بگھارنے لگتا ہے مطلب یہ کہ انسان فطرۃ عجلت پسند اور زود رنج واقع ہوا ہے گذشتہ پر ناشکری اور آئندہ سے مایوسی یہی اس کی زندگی کا حاصل ہے، اگر خدا چند روز اپنی مہربانی سے عیش و آرام میں رکھنے کے بعد کسی تکلیف سے دو چار کردیتا ہے تو پچھلی مہربانیاں بھی بھلا دیتا ہے اور ناامید ہو کر آئندہ کیلئے آس توڑ بیٹھتا ہے۔ اِلا الذین صَبَروا وعملوا لصّٰلحٰت) الآیۃ ( اوپر جو عام لوگوں کا حال بیان ہوا ہے اس سے اللہ کے وہ بندے مستثنی ہیں جو تکلیف و مصیبت کا مقابلہ صبر و استقامت سے کرتے ہیں اور امن و راحت کے وقت شکر گزاری کے ساتھ عمل صالح میں مستعدی سے لگے رہتے ہیں، مذکورہ صفات کے حاملین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انکی خطائیں بخشدی جائیں گی اور ان کو ان کے اعمال کا بڑا اجر ملے گا شان نزول : فَلَعلَّکَ تارِک بعض ما یوحٰی اِلیکَ یہ آیت ایک واقعہ میں نازل ہوئی ہے واقعہ یہ تھا کہ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کے سامنے مختلف قسم کی فرمائشیں پیش کیں جن میں ایک یہ کہ اس قرآن میں چونکہ ہمارے بتوں کو برا کہا گیا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان نہیں لاسکتے اسلئے آپ یا تو کوئی دوسرا قرآن لائیں یا اسی میں ترمیم کرکے ہمارے بتوں کی مذمت نکال دیں، ائتِ بقرآن غیر ھذا او بدّلہُ ۔ دوسرے یہ کہ ہم آپ کے رسول ہونے پر جب یقین کریں گے کہ یا تو دنیا کے بادشاہوں کی طرح آپ پر کوئی خزانہ نازل ہوجائے جس سے سب لوگ استفادہ کریں، یا پھر کوئی فرشتہ آسمان سے آجائے وہ آپ کے ساتھ یہ تصدیق کرتا پھرے کہ بیشک یہ اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ ﷺ ان کی بیہودہ فرمائشوں سے بہت دل تنگ ہوتے تھے اسلئے کہ یہ فرمائشیں محض بےعقلی پر مبنی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دل جوئی اور تسلی کیلئے یہ آیت نازل فرمائی جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ باتیں جو آپ کی جانب وحی کی گئی ہیں اور وہ مشرکین کو گراں گذرتی ہیں، ممکن ہے کہ آپ وہ باتیں انھیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔
Top