Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو
آیت نمبر 43 تا 46 وَاَقِیْمُوا الصَّلوٰةَ وَاتُوا الزَّکوٰةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ .... الیٰ .... وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ۔ ترجمہ : اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو، نماز پڑھنے والوں (یعنی) محمد ﷺ اور ان کے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھو، اور (آئندہ) آیت ان علماء یہود کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنے رشتہ داروں سے کہا کرتے تھے، کہ دین محمد پر قائم رہو اس لئے کہ وہ حق ہے، کیا تم لوگوں کو نیکی (یعنی) محمد ﷺ پر ایمان کا حکم کرتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو، کہ خود کو ایمان کا حکم نہیں کرتے باوجود یکہ تم کتاب تورات پڑھتے ہو اور اس میں قول و فعل کی مخالفت پر وعید ہے، کیا تم اپنی اس غلط روش کو سمجھتے نہیں ہو ؟ کہ (اس قول و فعل کے تضاد سے) باز آجاؤ جملہ نسیان (یعنی ینسون الخ) استفہام انکاری کا محل ہے، اور اپنے معاملات میں صبر و صلوة سے مدد طلب کرو، نفس جس کو ناپسند کرے، اس کے کرنے پر نفس کو مجبور کرنے کو صبر کہتے ہیں، صرف نماز کا ذکر اس کی عظمت شان کی وجہ سے ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے، کہ جب آپ کو کوئی پریشان کن امر پیش آتا تو نماز کی طرف سبقت فرماتے اور کہا گیا ہے کہ خطاب یہود کو ہے جب ان کو حرص اور حب جاہ نے ایمان لانے سے روک دیا تو ان کو صبر کا کہ وہ روزہ ہے حکم دیا گیا کہ وہ شہوت کو توڑ دیتا ہے اور نماز کا، اس لئے کہ نماز خشوع پیدا کرتی ہے اور تکبر کو ختم کرتی ہے اور نماز بلاشبہ گراں ہے، مگر خشوع اختیار کرنے والوں پر (گراں نہیں ہے) یعنی اطاعت کی طرف مائل ہونے والوں پر جو کہ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ مرنے کے بعد زندہ ہو کر اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور ان کو آخرت میں رب کے پاس جانا ہے، تو وہ ان کو جزا دے گا۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : صَلّوا مع المصلین، وارکعوا مع الراکعین، کی تفسیر صلوا مع المصلین سے کرکے اشارہ کردیا کہ جزء بول کر کل مراد ہے، اور رکوع کی تخصیص اس لئے کہ امم سابقہ کی نمازوں میں رکوع نہیں تھا، مطلب یہ ہے کہ تم وہ نماز پڑھو جس میں رکوع بھی ہو اور مع الراکعین سے اشارہ کردیا کہ جماعت سے نماز پڑھو، خطاب چونکہ یہود کو ہے اس لئے ان سے کہا جا رہا ہے، کہ تم ایسی نماز پڑھو، جس میں رکوع بھی ہو اور باجماعت بھی ہو چونکہ یہود کی نماز میں سجدہ تو تھا، مگر رکوع نہیں تھا۔ اس لئے رکوع والی نماز محمد ﷺ کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ تم محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ اور ان کے جیسی نماز پڑھو۔ قولہ : فجملة النسیان محل الاستفھام الانکاری، مطلب یہ ہے کہ انکار کا تعلق تنسون انفسکم سے ہے، نہ کہ تامرون الناس سے اس لئے کہ امر بالبر تو امر مندوب و مطلوب ہے۔ قولہ : اَفَرَدَھَا بالذکر، یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال یہ ہے کہ صرف نماز ہی کو کیوں ذکر کیا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ اس کی عظمت شان کی وجہ سے اس کو خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ تفسیر و تشریح صبر اور نماز ہر اللہ والے کے دو بڑے ہتھیار ہیں نماز کے ذریعہ ایک مومن کا رابطہ اور تعلق اللہ سے استوار ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے، صبر کے ذریعہ کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے حدیث میں آتا ہے : '' اِذَا حَزَبَہ امر فزعَ اِلَی الصَلوٰةِ '' (احمد، و ابو داؤد) یعنی جب بھی آپ ﷺ کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، تو اس دشواری کا علاج صبر اور نماز ہے ان دو چیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہوجائے گی، صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادہ کی وہ مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے، جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کئے ہوئے راستہ پر لگاتار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور جو شخص خدا کا فرمانبردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو اس کے لئے نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے جسے وہ کبھی گوارا نہیں کرسکتا مگر جو شخص برضا ورغبت خدا کے آگے سر اطاعت خم کرچکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا، اس کے لئے نماز ادا کرنا گراں نہیں، بلکہ نماز چھوڑنا مشکل ہے۔
Top