Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کے ساتھ تم بھی سرنیاز جھکا دو
یہود کی عملی کمزوری : 96: گزشتہ آیات میں یہود اور علمائے یہود کی علمی کمزوریوں کا ذکر تھا اب ان کی عملی کمزوری واضح کی جا رہی ہے ۔ صلوٰۃ و زکوٰۃ ہر زمانے میں اسلام کے اہم ارکان ہیں لیکن یہودی ان سے غافل ہوچکے تھے۔ قوموں کے عروج وزوال کے جو اصولی اسباب و مراتب ہیں ان میں بنیادی چیز یہی ہے کہ سب ایک ہو کر رہیں ان کی قوتوں میں اجتماع و انضمام ہو۔ جہاں انتشار و اختلاف ہوا قوم برباد ہوگئی۔ اس لئے کہ علیحدہ ہونے کی صورت میں عوام الناس اور تعلیم یافتہ اشخاص میں بعد و ہجر کی خلیج حائل ہوگئی۔ تمام لوگ بغیر سردار اور امیر کے رہ جائیں گے اور اہل فضل و کمال کے پاس دماغ تو ہوگا مگر دست وبازو نہ ہوں گے کیونکہ کام کرنے والے صحیح معنوں میں عوام الناس ہی ہوا کرتے ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ اجتماعی زندگی کی جان ہیں۔ ہمارے پیغمبر اسلام یعنی رسول اللہ ﷺ نے بھی اجتماعی زندگی پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ” جو شخص جماعت سے الگ ہوا اور وہ اسی حالت میں مر گیا تو اس کی یہ موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ “ من فارق الجما عۃ فمات میتہ جاھلیۃ۔ امت مسلمہ ایک جماعت ہونے کے فضائل بیشمار بیان ہوئے ہیں لیکن اس جگہ جماعت سے مراد نماز فرض کو باجماعت ادا کرنے کے ہیں جو کسی مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے ۔ یہ حکم کس درجہ کا ہے ؟ علمائے امت نے اس میں بہت کچھ بیان کیا ہے تاہم ایک کثیر جماعت صحابہ ؓ وتابعین (رح) کی اس جماعت کو بھی واجب قرار دیتی ہے اور اس کے ترک کو سخت گناہ جانتی ہے اور بعض صحابہ کرام ؓ تو اس نماز ہی کو جائز قرار نہیں دیتے جو بلا عذر شرعی کے بدوں جماعت پڑھی جائے۔ یہ آیت ظاہری الفاظ کے اعتبار سے ان حضرات کی دلیل ہے جو وجوب جماعت کے قائل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : (لا صلوۃ لجار المسجد الا فی المسجد) (ابو دائود) یعنی مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز صرف مسجد ہی میں جائز ہے جس سے ظاہر ہے کہ جماعت کی نماز ہی مراد ہو سکتی ہے یعنی فرض نماز ، معلوم ہوا کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بھی بغیر جماعت کے جائز نہیں۔ صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ ؓ منقول ہے کہ ایک نابینا صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے مسجد تک پہنچا دے اور مسجد سے واپس لے جائے اس لئے آپ اگر اجازت دیں تو میں نماز گھر میں ہی پڑھ لیا کروں۔ آپ نے اوّل تو ان کو اجازت دے دی۔ مگر جب وہ جانے لگے تو آپ نے سوال کیا کہ کیا اذان کی آواز تمہارے گھر تک پہنچتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں ! اذان کی آواز تو میں سنتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو آپ کو مسجد میں آنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو میں آپ کے لئے کوئی گنجائش اور رخصت نہیں پاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز با جماعت ادا کرنا ، پابندی سے ادا کرنا ، سارے ارکان کو سکون و آرام سے ادا کرنا ، وقت کی پابندی کرنا ، مسجد کے اندر نماز ادا کرنا ، صف بندی کا پورا خیال رکھنا ، ہر رکن امام کے بعد تبدیل کرنا خصوصاً دل لگا کر نماز ادا کرنا۔ سب باتیں ایک خاص قسم کا نظم وضبط حسن و خوبی اور پوری دلجمعی کے ساتھ امت مسلمہ کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لینے کا درس دیتی ہیں اور یہ تمام تصریحات صاف صاف بتا رہی ہیں کہ باہم مل جل کر رہنا اور اکٹھے ہو کر کام کرنا کس درجہ ضروری ہے مگر افسوس ! مسلمان ان سب ارشادات کو فراموش کرچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ من حیث القوم اللہ کے ہاں بھی فراموش کردیئے گئے ہیں۔ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ ۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنا بھی عملی کمزوری ہے : نماز کے ساتھ دوسری تاکید جو بنی اسرائیل کو کی گئی ہے وہ زکوٰۃ ادا کرنے کی ہے۔ اسلئے کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنا بھی انسان کی عملی کمزوری ہے اور خصوصاً اسلامی معاشرے کا تیسرا بڑا رکن ہے۔ زکوٰۃ کے معنی ہیں پاک کرنا اور بڑھنا۔ اصطلاح شریعت میں مال کے اس حصہ کو زکوٰۃ کہتے ہیں جو شرعی احکام کے مطابق مال میں سے حساب کر کے نکالا جاتا ہے نماز کی طرح زکوٰۃ بھی ان احکام میں سے ہے جو احکام تمام انبیاء کرام اپنی اپنی قوموں کو دیتے رہے اور یہی حکم قوم یہود کو بھی دیا گیا ۔ گویا نماز حب جاہ کا ایک علاج ہے اور زکوٰۃ حب مال کا۔ حب جاہ اور حب مال دو بیماریاں ہیں جن کے باعث انسان کی دنیوی زندگی اور اخروی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے اور غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ انسانی تاریخ میں اب تک جتنی انسانیت سوز لڑائیاں لڑی گئیں اور جو جو فساد برپا ہوئے ان میں سے اکثر و بیشتر کو انہی دو بیماریوں نے جنم دیا۔ حب ّمال کے نتائج ِبد کا مختصر ذکر : 1: حب مال سے یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرنے سے کنجوسی اور بخل پیدا ہوتا ہے جس کا ایک قومی نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ اس کی دولت قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ دوسرا نقصان خود اس کی ذات کو پہنچتا ہے کہ معاشرے میں کوئی بھی ایسے شخص کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ 2: خود غرضی پیدا ہوتی ہے جو مال کی ہوس کو پورا کرنے کے لئے اسے اشیاء میں ملاوٹ ، ناپ تول میں کمی ، رشوت ستانی ، مکروفریب اور دغا بازی کے نت نئے حیلے سمجھاتی ہے۔ وہ تجوری پہلے سے زیادہ بھرنے کیلئے دوسروں کا خون نچوڑ لینا جائز قرار دیتی ہے۔ 3: زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے شخص کو کتنا ہی مال مل جائے لیکن مزید کمانے کی دھن ایسی سوار ہوتی ہے کہ تفریح اور آرام کے وقت بھی یہی بےچینی اسے کھائے جاتی ہے کہ کس طرح اپنے سرمایہ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کروں بالآخرجو مال دوسروں کے لئے آرام و راحت کا ذریعہ بنتا ہے اس کے لئے و بال جان بن جاتا ہے۔ دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہوجاتی ہے ۔ 4: زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے کہ حق بات خواہ کتنی ہی صاف اور روشن ہو کر اس کے سامنے آجائے مگر وہ ایسی کسی بات کو مان لینے کی ہمت نہیں کرتا جو اس کی ہوس مال سے متصادم ہو ۔ انجام کا ریہ کہ ایک روز وہ حساب لگاتا ہے کہ کفن پر زیادہ مال خرچ ہوگا یا علاج پر ، تو اس کے کان میں صدا آتی ہے کہ کفن بہتر ہے کیونکہ اس پر مجھ کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔
Top