Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور قائم کرو نماز کو اور دو زکوۃ اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ
گزشتہ سے پیوستہ : اس رکوع کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی خلافت کا ذکر فرمایا ۔ پھر زمین پر اترنے کا حکم دیا۔ اور ہدایت و راہنمائی کا وہ اصول ہی بتلا دیا۔ جس پر جنت میں دوبارہ داخلے کا دار و مدار ہے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل سے خطاب ہوا۔ دوسری قوموں کے مقابلے میں بنی اسرائیل کو مدت دراز تک فضیلت حاصل رہی۔ نبوت اور حکومت ان میں رہی۔ ان میں بڑے بڑے عابد و زاہد لوگ پیدا ہوئے۔ مگر ایک طویل عرصہ کے بعد اس قوم میں خرابیاں پیدا ہوگئیں ۔ جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خلافت ارضی بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل کردی۔ گزشتہ درس میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ان پر کیے گئے انعامات یاد دلائے گئے اور انہیں قرآن پاک پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی۔ اور انہیں نصیحت کی گئی کہ وہ بنی اسرائیل میں اولین کا فر نہ بنیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے آئندہ نسلیں بھی نبی کے قدموں پر چلیں گی اور اس طرح ان کا وبال بھی کفر میں پہل کرنے والوں پر پڑے گا۔ انہیں حق و باطل کی تلبیس سے اور کتمان حق سے منع کیا گیا اور ترغیب دی گئی۔ کہ تمہاری اپنی کتابوں میں قرآن پاک اور خاتم النبین ﷺ کے متعلق جو پیشن گوئیاں موجود ہیں انہیں ظاہر کریں۔ قبول حق سے انکار کی وجوہات : مدینہ طیبہ کے اطراف میں رہنے والے اہل کتاب یعنی یہود نسلی برتری کے زعم میں مبتلا تھے۔ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے دوسری اقوام کو کم تر سمجھتے تھے۔ ، عربوں کو وہ جاہل ، ان پڑھ اور امی خیال کرتے تھے۔ اس قسم کے اشارات آگے اسی سورة میں ، سورة ال عمران میں اور دیگر سورتوں میں بھی ملتے ہیں۔ بنی اسرائیل کا دوسرا باطل زعم یہ تھا کہ نبوت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہی کے خاندان میں جاری رہے گی۔ مگر جب نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بنی اسمعیل میں آگئے تو ان کی ساری برتری ختم ہوگئی اور وہ حسد کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ چناچہ ان کے قبول حق سے انکار کی ایک بڑی وجہ یہ تھی ۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس وقت انہیں جو مالی اور منصبی برتری حاصل تھی۔ ایمان لانے سے وہ ضائع ہوجاتی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی۔ اور انہیں حضور نبی کریم ﷺ کی تابعداری کرنی پڑے گی۔ چناچہ ایسی ہی چیزیں ان کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ حب مال وحب جاہ کی بیماریاں : حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 24 مطبع مجتبائی دہلی) کہ یہود کو حب مال اور حب جاہ کی دو ایسی بیماریاں لاحق تھیں ۔ جن کی وجہ سے وہ ایمان لانے سے گریز کرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی اکثر لوگ انہی دو بیماریوں میں مبتلا ہو کر خیر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حب مال کی بیماری کی شدت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : “ وانہ لحب الخیر لشدید ” مال کی محبت انسان میں فطرۃ بڑی شدید ہے۔ دوسری جگہ فرمایا “ وتحبون المال حبا جما ” تم جی بھر کر مال سے محبت کرتے ہو۔ جس کی وجہ سے بہت سے خرابیاں پید اہوتی ہیں اور لوگوں کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔ اس قسم کی چیزیں بنی اسرائیل کے قبول حق میں مانع تھیں۔ ان بیماریوں کا علاج : ان دو بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ نے یہ تجویز کیا “ واقیموالصلوۃ ” نماز قائم کرو۔ “ واتوا الزکوۃ ” اور زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی حب جاہ کی بیماری کے لیے نماز شافی ہے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے غرور ، تکبر اور بڑائی کا علاج رکھا ہے۔ جو شخص نماز قائم کرے گا ، اس کا مطلب سمجھے گا۔ وہ حب اجہ کی بیماری سے شفا یاب ہوجائے گا۔ اسی طرح حب مال کی بیماری کا علاج ادائیگی زکوٰۃ میں ہے۔ اور اس میں بہت سی حکمتیں ہیں منجملہ ان کے بخل دور کرنا بھی ہے۔ چناچہ جب کوئی شخص ہر سال مال کی زکوٰۃ ادا کرے گا۔ تو وہ بخل کی لعنت سے پاک ہوجائے گا۔ پھر یہ بھی ہے کہ صرف مقررہ مقدار میں زکوٰۃ ادا کردینا ہی کافی نہیں بلکہ فرمایا “ لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون ” یعنی تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز خرچ نہ کرو یہی وہ جذبہ ہے۔ جو مال کی محبت کو کم کرکے بخل سے نجات دلاتا ہے۔ گویا نماز اور زکوٰۃ حب جاہ اور حب مال کی بیماری کا علاج ہے نماز جامع عبادت ہے : امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 53) کہ اللہ تعالیٰ نے “ واستعینوا بالصبر والصلوۃ ” میں نماز کے ساتھ توسل پکڑنے کا اس لیے حکم دیا ہے کہ نماز تمام عبادات کی جامع ہے۔ نماز میں روحانی ، نفسانی اور جسمانی ہر قسم کی عبادات جمع ہیں۔ مثلاً نماز طہارت پر موقوف ہے اور طہارت اسلام میں ایک بہت بڑا اصول ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیمات کا حصہ ہے اسی طرح ستر کا ڈھانپنا نماز کے لیے شرط ہے۔ ستر پوشی تو ہر حالت میں لاز ہے مگر نماز کے دوران تو اور زیادہ مؤکدہ ہے۔ انسان برہنگی کی حالت میں نماز ادا نہیں کرسکتا۔ عبادت کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ مال بھی صرف کرنا پڑتا ہے۔ تو گویا نماز میں انفاق جیسی عبادت بھی شامل ہے۔ پھر نماز کے لیے قبلہ شریف کی طرف رخ کرنا بھی ضروری ہے۔ نماز کی حالت میں انسان معتکف ہوتا ہے۔ اور اعتکاف ایک مستقل عبادت ہے لہٰذا نماز میں عکوف بھی شامل ہے نماز کے دوران انسان کے اعضا اور جو ارع خشوع کا اظہار کرتے ہیں۔ دل سے نیت اور اخلاص بھی ضروری ہے۔ اگر نیت اور خلوص نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی اسی طرح نماز میں شیطان کے ساتھ مجاہدہ بھی شامل ہے۔ نماز میں انسان رب العزت کے سامنے مناجات کرتا ہے۔ اور قرآن کریم کی تلاوت جیسی بہترین عبادت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ نماز میں انسان شہادتیں کا تکلم کرتا ہے اور کہتا ہے “ اشھد ان لا لہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ” یہ بہت بڑی حقیقت ہے۔ جس کی انسان گواہی دیتا ہے۔ نماز میں انسان کھانے پینے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ الغرض امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں ، کہ نماز ایک ایسی اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ کہ اس میں بہت سی دوسری عبادات بھی شامل ہیں۔ نماز باجماعت : نماز و زکوٰۃ کا حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ ورکعوا مع الراکعین “ اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ ۔ مطلب یہ ہے کہ جماعت کے ساتھ مل کر نماز ادا کرو۔ اسی لیے تو نماز باجماعت ہمارے مذہب میں تقریباً وجوب کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ حضور ﷺ کی ایسی سنت مؤکدہ ہے۔ کہ اگر بلاعذر ترک کر دے تو انسان منافقوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ص 232) کہ اگر تم بلاعذر نماز سے تخلف کروگے تو پیغمبر (علیہ السلام) کی سنت کو چھوڑنے والے بن جاؤ گے۔ اور اگر ایسا کروگے تو “ نضللتم ” گمراہ ہوجاؤ گے۔ صرف معذور افراد کو گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے۔ وگرنہ تندرست آدمی کو بغیر جماعت کے نماز پڑھنے کی قطعا اجازت نہیں۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں (2 ۔ مسلم ج 1 ص 232) کہ ہم لوگ جماعت میں شریک ہوتے تھے اور جماعت سے پیچھے وہی رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا ہے۔ یا وہ معذور ہوتا تھا۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 213 ، معالم التنزیل ج 1 ص 24) کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں تھا۔ صرف سجدہ ہی ہوتا تھا۔ اس لیے حکم ہوا کہ رکوع بھی کرو۔ اگرچہ یہ سجدہ سے کم درجے کا رکن ہے۔ مگر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جس نماز میں رکوع نہ ہو۔ وہ نماز باطل ہوجاتی ہے بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں (4 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 213 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 85) کہ بیشک رکوع نماز کا ایک اہم رکن ہے۔ مگر “ مع الراکعین ” سے صاف واضح ہے کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے ۔ کیونکہ اس میں انسان کے لیے بیشمار فوائد ہیں۔ اسی سے اجتماعیت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اور یہ بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ قول و فعل میں تضاد : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو انعامات یاد دلائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے آخری پیغام پر ایمان لانے کی تلقین کی پھر ان کی خامیاں ظاہر کرکے انہیں تلبیس اور کتمان حق سے منع فرمایا۔ ان بیماریوں کا علاج نماز اور زکوٰۃ بتلایا۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل کی بہت بڑی کمزوری کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا “ اتامرون الناس بالبر ” کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو۔ “ وتنسون انفسکم ” اور اپنی جانوں کو فراموش کردیتے ہو۔ “ اتنسون انفسکم ” اور اپنی جانوں کو فراموش کردیتے ہو۔ “ وانتم تتلون الکتب ” حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو۔ مقصد یہ کہ جس نیکی کی طرف تم دوسرے لوگوں کو دعوت دیتے ہو۔ خود جانتے بوجھتے بھی اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ ظاہر ہے۔ کہ یہودی توارۃ کے عالم تھے اور وہ لوگوں کو توراۃ کے حقائق سے روشناس کراتے تھے۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے آخری کلام قرآن پاک اور آخری نبی محمد رسول اللہ کے متعلق پیشن گوئیاں بھی موجود تھیں۔ جو انہوں نے لوگوں کو بتا رکھی تھیں۔ مگر جب یہ حقائق سامنے آگئے تو دوسروں کو وعظ کرنے والے یہودی علماء خود ان حقائق سے منحرف ہوگئے۔ گویا انہوں نے اپنے آپ کو فراموش کردیا۔ بعض علماء فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر معالم تنزیل ج 1 ص 24 ، مظہری ج 1 ص 62) کہ یہودی عالم اپنے مسلمان رشتہ داروں کو کہا کرتے تھے۔ کہ تم جس شخص پر ایمان لائے ہو ۔ وہ بلاشبہ سچا اور آخری نبی ہے۔ اس کا دامن نہ چھوڑنا ۔ مگر خود اس پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ایمان لانے سے ان کے مالی فوائد ضائع ہوتے تھے ان کے اسی رویہ کے متعلق فرمایا کہ دوسروں کو تلقین کرتے ہیں اور خود کو فراموش کرتے ہیں ۔ محض دنیوی لالچ کے بدلے جہنم کے کندہ ناتراش بنتے ہیں۔ آگے سورة آل عمران میں ذکر آئے گا۔ کہ نصاریٰ کا ایک وفد حضور ﷺ کی خدمت میں آیا تھا۔ مگر دنیا کے مال کی خاطر ایمان سے محروم رہا سیرت کی۔ اور دوسری کتابوں میں موجود ہے (2 ۔ تفسیر عثمانی مع ترجمہ شیخ الہند ص 64) کہ اس وفد کے لوگوں نے کہا۔ کہ اگر ہم ایمان قبول کرلیں۔ تو ہمارے وظیفے اور تنخواہیں بند ہوجائیں گی۔ لہٰذا ہم ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اسی لیے فرمایا کہ تم دوسروں کو تو نیکی کی طرف دعوت دیتے ہو۔ مگر خود اس سے بچتے رہو یہ کہا کا انصاف اور عقلمندی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ تفسیر کبیر ج 1 ص 86) کہ معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں پر ہوا ۔ جن کے ہونٹ جہنم کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ حضور ! یہ آپ کی امت کے خطیب ہیں۔ جو لوگوں کو امر بالمعروف یعنی نیکی کا حکم کرتے تھے۔ مگر اپنے آپ کو فراموش کردیتے تھے۔ امام رازی (رح) نے بھی ایک روایت بیان کی ہے (2 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 47) کہ جہنم میں ایک ایسا شخص بھی ہوگا۔ جس کی بدبو سے جہنم والے بھی بیزار ہوں گے لوگوں نے عرض کیا ۔ حضور ! ایسا بدبخت شخص کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا وہ صاحب علم شخص جو اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ ایک دوسری حدیث میں اس طرح آتا ہے (3 ۔ تفسیر کبیر ج 3 ص 47 ، ابن کثیر ج 1 ص 85) کہ جو شخص دوسروں کو نیکی سکھلاتا ہے۔ اور خود اس پر عمل نہیں کرتا۔ اس کی مثال ایسی ہے۔ جیسے چراغ جو دوسروں کو روشنی مہیا کرتا ہے۔ مگر خود جلتا رہتا ہے۔ بخاری اور مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (4 ۔ مسلم ج 1 ص 412 ، بخاری ، تفسیر خازن ج 1 ص 55 ، درمنثور ج 1 ص 65) کہ قیامت کے روز ایک شخص کو لایا جائے گا۔ اور اسے اس حالت میں جہنم رسید کیا جائے گا۔ کہ اس کی آنتیں پیٹ سے نکل کر نیچے کی طرف لٹک رہی ہوں گی۔ وہ شخص آنتوں کو اس طرح کھینچے گا۔ جیسا گدھا خراس کو کھینچتا ہے لوگ اس کے اردگرد جمع ہوجائیں گے۔ اور پوچھیں گے کہ اے فلاں ! تجھے یہ مصیبت کس طرح پہنچی۔ حالانکہ تو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا تھا۔ اور برائیوں سے منع کرتا تھا۔ وہ کہے گا۔ ہاں میں تم کو نیکی کا حکم کرتا تھا۔ مگر خود نیکی نہیں کرتا تھا۔ تمہیں برائیوں سے منع کرتا تھا مگر خود باز نہیں آتا تھا۔ اس لیے آج مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ تو فرمایا اے بنی اسرائیل ! تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو۔ بڑے مسائل بیان کرتے ہو قرآن کی حقانیت کا اقرار کرتے ہو۔ نبی آخر الزمان کے اوصاف حمیدہ بھی بتلاتے ہو۔ مگر خود ایمان نہیں لاتے۔ اپنے آپ کو فراموش کیے بیٹھے ہو “ افلا تعقلون ” کیا تم میں عقل و شعور کا مادہ نہیں ہے کیا تم سمجھتے نہیں۔ صبر و صلوٰۃ کی برکات : فرمایا “ واستعینوا بالصلوٰۃ والصلوۃ ” یعنی مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ساتھ ۔ صبر و صلوٰۃ کو اختیار کرو گے۔ تو برائیاں دور ہوجائیں گی ۔ حب مال و جاہ کا علاج بھی تم صبر کے ذریعے کرسکتے ہو۔ نماز پڑھو گے تو عجزو انکساری پیدا ہوگی اور اس میں مختلف بیماریوں کی شفا ہے۔ پھر فرمایا “ وانھا لکبیرۃ ” اور یہ نماز بیشک بڑی بوجھل اور بھاری ہے۔ “ الا علی الخشعین ” مگر عاجزی کرنے والوں کے لیے یہی نماز راحت کا سامان بنتی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ ابن کثیر ج 1 ص 87 ، طبری ج 1 ص 260) کہ حضور ﷺ کو “ اذا حزبہ امر فزع الی الصلوۃ ” جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی۔ تو نماز کی طرف رجوع فرماتے ۔ کیونکہ نماز سے تعلق باللہ کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اور انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس قدر مضبوط ہوگا۔ اسی قدر مشکلات کم ہوجائیں گی۔ انسان کو مصائب کا احساس اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا تعلق باللہ کمزور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نماز کئی ظاہری بیماریوں کی شفا کا سبب بھی بنتی ہے۔ امام ابن کثیر (رح) اور ابن جریر (رح) نے روایت بیان کی ہے (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 87 ، تفسیر طبری ج 1 ص 260) کہ حضرت ابوہریرہ ؓ ایک دفعہ پیٹ کے درد میں مبتلا ہوگئے ۔ شدت درد کی وجہ سے آپ لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ حضور ﷺ کا آپ پر گزر ہوا۔ تو فارسی لہجہ میں فرمایا “ اشکم درد ” کیا تمہارے پیٹ میں درد ہو رہا ہے شکم فارسی میں پیٹ کو کہتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے عرض کیا “ نعم ” کہ حضور ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا۔ “ قم فصل فان الصلاۃ شفآء ” اٹھو اور نماز پڑھو کہ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے۔ چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے نماز پڑھی۔ تو پیٹ کا درد دور ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے شفا عطا کردی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے۔ رجوع الی اللہ : تو فرمایا یہ نماز بوجھل ہے۔ مگر عاجزی کرنے والوں پر نہیں اور وہ کون لوگ ہیں “ الذین یظنون ” جو یقین کرتے ہیں “ انھم ملقوا ربھم ” کہ وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کرنے والے ہیں لفظ ظن اضداد معانی میں استعمال ہونے والا لفظ ہے ، اس کا معنی گمان بھی ہوتا ہے۔ اور یقین بھی۔ مگر یہاں پر ظن کا معنی یقین ہے۔ عربی زبان میں بعض دوسرے کئی الفاظ بھی متضاد معانی رکھتے ہیں۔ جیسے جون کا معنی سیاہ بھی اور سفید بھی۔ اسی طرح حمیم کا معنی گرم اور سرد دونوں طرح ہوتا ہے۔ فرمایا یہ نماز ان لوگوں پر بوجھل نہیں ہے جنہیں یقین ہے کہ انہیں ایک دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔ وہاں اعمال کی باز پرس ہوگی۔ اور نماز جیسی نعمت کی قدر وہاں جا کر معلوم ہوگی۔ اور انہیں یہ بھی یقین ہے “ وانھم الیہ رجعون ” کہ انہیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا “ والی اللہ ترجع الامور ” تمام چیزوں کا رجوع اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہے۔ “ وان الی ربک المنتھی ” اور ہر چیز کی انتہا بھی وہیں ہوگی۔ چونکہ عاجزی کرنے والوں کا ان باتوں پر یقین ہے۔ اس لیے وہ نہایت خوشی اور ذوق و شوق کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ ان پر یہ بھاری نہیں ہوتی۔
Top