Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور قائم رکھو نماز کو اور یاد کرو زکوٰة اور مجھکو نماز میں جھکنے والوں کے ساتھ
خلاصہ تفسیر
اور نماز قائم کرو تم لوگ نماز کو (یعنی مسلمان ہو کر) اور زکوٰۃ دو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ (علماء بنی اسرائیل کے بعض اقارب مسلمان ہوگئے تھے جب ان سے گفتگو ہوتی تو خفیہ طور پر یہ علماء ان سے کہتے تھے کہ بیشک محمد ﷺ رسول برحق ہیں ہم لوگ تو کسی مصلحت سے مسلمان نہیں ہوتے مگر تم اس مذہب اسلام کو نہ چھوڑنا اسی بنا پر حق تعالیٰ نے فرمایا) کیا غضب ہے کہ کہتے ہو اور لوگوں کو نیک کام کرنے کو (یعنی رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کو) اور اپنی خبر نہیں لیتے حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی (یعنی تورات کی جس میں جابجا ایسے عالم بےعمل کی مذمتیں مذکور ہیں) تو پھر کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے اور مدد لو (یعنی اگر تم کو حب مال وحب جاہ کی وجہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہوتا ہو تو مدد لو) صبر اور نماز سے (یعنی ایمان لاکر صبر کا التزام بہت دشوار ہے تو سن لے کہ) بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے قلوب میں خشوع ہو ان پر کچھ بھی دشوار نہیں وہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں (تو اس وقت اس کا حساب کتاب بھی دینا ہوگا ان دونوں خیالوں سے رغبت بھی پیدا ہوگی اور یہی دو چیزیں ہر عمل کی روح ہیں)
معارف و مسائل
ربط آیات
بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں اور احسانات یاد دلا کر ایمان اور عمل صالح کی طرف دعوت دی ہے پچھلی تین آیتوں میں ایمان و عقائد سے متعلق ہدایات تھیں اور ان چار آیتوں میں اعمال صالحہ کی تلقین ہے اور ان میں جو اعمال سب سے زیادہ اہم ہیں ان کا ذکر ہے اور حاصل مطلب آیات کا یہ ہے کہ اور اگر تم کو حب مال وجاہ کے غلبہ سے ایمان لانا دشوار معلوم ہوتا ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو صبر سے حب مال گھٹ جائے گی کیونکہ مال اسی وجہ سے مطلوب و محبوب ہے کہ وہ ذریعہ ہے لذات وشہوات کے پورا کرنے کا جب ان لذات وشہوات کی مطلق العنانی چھوڑنے پر ہمت باندھ لو گے تو پھر مال کی فراوانی کی نہ ضرورت رہے گی نہ اس کی محبت ایسی غالب آئے گی کہ اپنے نفع نقصان سے اندھا کردے اور نماز سے حب جاہ کم ہوجائے گی کیونکہ نماز میں ظاہری اور بابنی ہر طرح کی پستی اور عاجزی ہی ہے جب نماز کو صحیح صحیح ادا کرنے کی عادت ہوجائے گی توحب جاہ ومنصب اور تکبر و غرور گھٹے گا اصل مادہ فساد جس کے سبب ایمان لانا دشوار تھا یہی مال وجاہ کی محبت تھی جب یہ مادہ فساد گھٹ گیا تو ایمان لانا آسان ہوجائے گا،
اب سمجئے کہ صبر میں تو صرف غیر ضروری خواہشات اور شہوات کا ترک کرنا ہے اور نماز میں بہت سے افعال کا واقع کرنا بھی ہے اور بہت سی جائز خواہشات کو بھی وقتی طور پر ترک کرنا ہے مثلا کھانا، پینا، کلام کرنا، چلنا پھرنا، اور دوسری انسانی ضرورت جو شرعا جائز ومباح ہیں ان کو بھی نماز کے وقت ترک کرنا ہے اور بھی اوقات کی پابندی کے ساتھ دن رات میں پانچ مرتبہ اس لئے نماز نام ہے کچھ افعال معینہ کا اور معین اوقات میں تمام ناجائز و جائز چیزوں سے صبر کرنے کا،
غیر ضروری خواہشات کے ترک کرنے پر انسان ہمت باندھ لے تو چند روز کے بعد طبعی تقاضا بھی ختم ہوجاتا ہے کوئی دشواری نہیں رہتی لیکن نماز کے اوقات کی پابندی اور اس کی تمام شرائط کی پابندی اور ضروری خواہشات سے بھی ان اوقات میں پرہیز کرنا یہ انسانی طبیعت پر بہت بھاری اور دشوار ہے اس لئے یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ ایمان کو آسان بنانے کا جو نسخہ تجویز کیا گیا کہ صبر اور نماز سے کام لو اس نسخہ کا استعمال خود ایک دشوار چیز ہے خصوصا نماز کی پابندیوں کا تو اس دشواری کا کیا علاج ہوگا ؟ اس کے لئے ارشاد فرمایا بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے قلوب میں خشوع ہو ان پر کچھ دشوار نہیں اس میں نماز کے آسان کرنے کی ترکیب بتلادی گئی،
حاصل یہ ہے کہ نماز میں دشواری کی وجہ اور سبب پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان کا قلب خوگر ہے میدان خیال میں آزاد پھرنے کا اور سب اعضائے انسانی قلب کے تابع ہیں اس لئے قلب کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اس کے سب اعضاء بھی آزاد ہیں اور نماز سراسر اس آزادی کے خلاف ہے کہ نہ ہنسو نہ بولو نہ کھاؤ نہ پیو نہ چلو وغیرہ وغیرہ اس لئے قلب ان تقیدات سے تنگ ہوتا ہے اور اس کے تابع اعضائے انسانی بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں،
خلاصہ یہ ہے کہ سبب اس دشواری اور گرانی کا قلب کی حرکت فکریہ ہے تو اس کا علاج سکون سے ہونا چاہئے اس لئے خشوع کو نماز کے آسان ہونے کا ذریعہ بتایا گیا کیونکہ خشوع کے معنی ہی سکون قلب کے ہیں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سکون قلب یعنی خشوع کس طرح حاصل ہو تو یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے قلب افکار و خیالات کو براہ راست نکالنا چاہے تو اس میں کامیابی قریب بمحال ہے بلکہ اس کی تدبیر یہ ہے کہ نفس انسانی چونکہ ایک وقت میں دو طرف متوجہ نہیں ہوسکتا اس لئے اگر اس کو کسی ایک خیال میں محو ومستغرق کردیا جائے تو دوسرے خیالات اور افکار خود بخود دل سے نکل جائیں اس لئے تلقین خشوع کے بعد وہ خیال بتلاتے ہیں جس میں مستغرق ہوجانے سے دوسرے خیالات دفع ہوں اور ان کے دفع ہونے سے حرکت فکریہ قلب کی منقطع ہو کر سکون حاصل ہو اور سکون سے نماز میں آسانی ہو کر اس پر مداومت اور پابندی نصیب ہو اور اس پابندی سے کبر و غرور اور حب جاہ کم ہو تاکہ ایمان کے راستہ میں جو حائل ہے وہ دور ہو کر ایمان کامل ہوجائے سبحان اللہ کیا مرتب علاج اور مطب ہے،
اب اس خیال مذکور کی تلقین و تعیین اس طرح فرمائی وہ خاشعین وہ لوگ ہیں جو خیال رکھتے ہیں اس کا کہ وہ بیشک ملنے والے ہیں اپنے رب سے تو اس وقت اس خدمت کا خوب انعام ملے گا اور اس بات کا بھی خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف واپس جانے والے ہیں تو اس وقت اس کا حساب و کتاب بھی دینا ہوگا ان دونوں خیالوں سے رغبت و رہبت یعنی امید اور خوف پیدا ہوں گے اول تو ہر خیال محمود میں مستغرق ہوجانا قلب کو نیک کام پر جما دیتا ہے خصوصاً امید وبیم کا خیال اس کو تو خاص طور پر دخل ہے نیک کام میں مستعد کردینے کے لئے،
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ صلوٰۃ کے لفظی معنیٰ دعا کے ہیں اصطلاح شرع میں وہ خاص عبادت ہے جس کو نماز کہا جاتا ہے قرآن کریم میں عموماً نماز کی جتنی مرتبہ تاکید کی گئی لفظ اقامت کے ساتھ آئی ہے مطلق نماز پڑھنے کا ذکر صرف ایک دو جگہ آیا ہے اس لئے اقامت صلوٰۃ کی حقیقت کو سمجھنا چاہئے اقامت کے لفظی معنی سیدھا کرنے اور ثابت رکھنے کے ہیں اور عادۃ جو عمود یا دیوار یا درخت وغیرہ سیدھا کھڑا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے گرجانے کا خطرہ کم ہوتا ہے اس لئے اقامت کے معنی دائم اور قائم کرنے کے بھی آتے ہیں،
قرآن وسنت کی اصطلاح میں اقامت صلوۃ کے معنی نماز کو اس کے وقت میں پابندی کے ساتھ اس کے پورے آداب و شرائط کی رعایت کرکے ادا کرنا ہیں مطلق نماز پڑھ لینے کا نام اقامت صلوۃ نہیں ہے نماز کے جتنے فضائل اور آثار و برکات قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ سب اقامت صلوٰۃ کے ساتھ مقید ہیں مثلا قرآن کریم میں ہے
اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ (45: 29) یعنی نماز انسان کو ہر بےحیائی اور ہر برے کام سے روک دیتی ہے،
نماز کا یہ اثر اسی وقت ظاہر ہوگا جب کہ نماز کی اقامت اس معنی سے کرے جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں اس لئے بہت سے نمازیوں کو برائیوں اور بےحیائیوں میں مبتلا دیکھ کر اس آیت پر کوئی شبہ نہ کرنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں نے نماز پڑھی تو ہے مگر اس کو قائم نہیں کیا،
اٰتُوا الزَّكٰوةَ لفظ زکوٰۃ کے معنی لغت میں دو آتے ہیں پاک کرنا اور بڑہنا اصطلاح شریعت میں مال کے اس حصہ کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے جو شریعت کے احکام کے مطابق کسی مال میں سے نکالا جائے اور اس کے مطابق صرف کیا جائے،
اگرچہ یہاں خطاب موجودہ بنی اسرائیل کو ہے جس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نماز اور زکوٰۃ اسلام سے پہلے بنی اسرائیل پر فرض تھی مگر سورة ٔمائدہ میں وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا وَقَال اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوة (12: 5) سے ثابت ہے کہ نماز اور زکوٰۃ بنی اسرائیل پر فرض تھی اگرچہ اس کی کیفیت اور ہیئت وغیرہ میں فرق ہو،
وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں اور اس معنی کے اعتبار سے یہ لفظ سجدہ پر بھی بولا جاسکتا ہے کیونکہ وہ بھی جھکنے کا انتہائی درجہ ہے مگر اصطلاح شرع میں اس خاص جھکنے کو رکوع کہتے ہیں جو نماز میں معروف و مشہور ہے،
آیت کے معنیٰ یہ ہیں کہ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ یہاں ایک بات یہ قابل غور ہے کہ نماز کے تمام ارکان میں سے اس جگہ رکوع کی تخصیص کیوں کی گئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں نماز کا ایک جز بول کر کل نماز مراد لی گئی ہے جیسے قرآن مجید میں ایک جگہ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ فرما کر پوری نماز فجر مراد ہے اور بعض روایات حدیث میں سجدہ کا لفظ بول کر پوری رکعت یا نماز مراد لی گئی ہے اس لئے مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہ جاتا ہے کہ نماز کے بہت سے ارکان میں سے رکوع کی تخصیص میں کیا حکمت ہے ؟
جواب یہ ہے کہ یہود کی نماز میں سجدہ وغیرہ تو تھا مگر رکوع نہیں تھا رکوع اسلامی نماز کی خصوصیات میں سے ہے اس لئے راکعین کے لفظ سے امت محمدیہ کے نمازی مراد ہوں گے جن کی نماز میں رکوع بھی ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم بھی امت محمدیہ کے نمازیوں کے ساتھ نماز ادا کرو یعنی اول ایمان قبول کرو پھر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرو،
باجماعت نماز کے احکام
نماز کا حکم اور اس کا فرض ہونا تو لفظ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ سے معلوم ہوچکا تھا اس جگہ مَعَ الرّٰكِعِيْن کے لفظ سے نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے،
یہ حکم کس درجہ کا ہے ؟ اس میں علماء فقہا کا اختلاف ہے ایک جماعت صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین اور فقہائے امت کی جماعت کو واجب قرار دیتی ہے اور اس کے چھوڑنے کو سخت گناہ اور بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین تو اس نماز ہی کو جائز قرار نہیں دیتے جو بلا عذر شرعی کے بدون جماعت پڑھی جائے یہ آیت ظاہری الفاظ کے اعتبار سے ان حضرات کی حجت ہے جو وجوب جماعت کے قائل ہیں اس کے علاوہ چند روایات حدیث سے بھی جماعت کا واجب ہونا سمجھا جاتا ہے ایک حدیث میں ہے کہلاصلوٰۃ لجار المسجد الا فی المسجد (رواہ ابوداؤد) یعنی مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز صرف مسجد ہی میں جائز ہے،
اور مسجد کی نماز سے ظاہر ہے کہ جماعت کی نماز مراد ہے تو الفاظ حدیث سے یہ مطلب نکلا کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے جائز نہیں،
مسجد کے سوا کسی اور جگہ جماعت
اور صحیح مسلم میں بروایت حضرت ابوہریرہ منقول ہے کہ ایک نابینا صحابی نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے مسجد تک پہنچا دے اور لیجایا کرے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو میں نماز گھر میں پڑھ لیا کروں آنحضرت ﷺ نے اول تو ان کو اجازت دے دی مگر جب وہ جانے لگے تو سوال کیا کہ کیا اذان کی آواز تمہارے گھر تک پہونچتی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا کہ اذان کی آواز تو میں سنتا ہوں آپ نے فرمایا پھر تو آپ کو مسجد میں آنا چاہئے اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پھر میں آپ کے لئے کوئی گنجائش اور رخصت نہیں پاتا (اخرجہ ابوداؤد)
اور حضرت عبداللہ بن عباس نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ؛
من سمع النداء فلم یجب فلا صلوٰۃ لہ الا من عذر (صححہ القرطبی) یعنی جو شخص اذان کی آواز سنتا ہے اور جماعت مسجد میں نہیں آتا تو اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ اس کو کوئی عذر شرعی ہو،
ان احادیث کی بنا پر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعری وغیرہ حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص مسجد سے اتنا قریب رہتا ہے کہ اذان کی آواز وہاں تک پہونچتی ہے تو اگر وہ بلاعذر کے جماعت میں حاضر نہ ہوا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی (آواز سننے سے مراد یہ ہے کہ متوسط آواز والے آدمی کی آواز وہاں پہنچ سکے، آلہ مکبر الصوت یا غیر معمولی بلند آواز کا اس میں اعتبار نہیں)
یہ سب روایات ان حضرات کی دلیل ہیں جو جماعت کو واجب قرار دیتے ہیں مگر جمہور امت علماء وفقہاء صحابہ وتابعین کے نزدیک جماعت سنت مؤ کدہ ہے مگر سنن مؤ کدہ میں سنت فجر کی طرح سب سے زیادہ مؤ کد اور قریب بوجوب ہے ان سب حضرات نے قرآن کریم کے امر وارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْن کو دوسری آیات اور روایات کی بنا پر تاکید کے لئے قرار دیا ہے،
اور جن احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے ہوتی ہی نہیں اس کا یہ مطلب قرار دیتے ہیں کہ یہ نماز کامل اور مقبول نہیں اس معاملے میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان بہت واضح اور کافی ہے جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے،
فقیہہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کل (محشر میں) اللہ تعالیٰ سے مسلمان ہونے کی حالت میں ملے تو اس کو چاہئے کی ان (پانچ) نمازوں کے ادا کرنے کی پابندی اس جگہ کرے جہاں اذان دی جاتی ہے (یعنی مسجد) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کریم ﷺ کے لئے کچھ ہدایت کے طریقے بتلائے ہیں اور ان پانچ نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا انہی سنن ھدٰی میں سے ہے اور اگر تم نے یہ نمازیں اپنے گھر میں پڑھ لیں جیسے یہ جماعت سے الگ رہنے والا اپنے گھر میں پڑھ لیتا ہے (کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کرکے فرمایا) تو تم اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت کو چھوڑ بیٹھو گے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دیا تو گمراہ ہوجاؤ گے (اور جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح پاکی حاصل کرے) پھر کسی مسجد کا رخ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم پر نیکی اس کے نامہ اعمال میں درج فرماتے ہیں اور اس کا ایک درجہ بڑھا دیتے ہیں اور ایک گناہ معاف کردیتے ہیں اور ہم نے اپنے مجمع کو ایسا پایا ہے کہ منافق بین النفاق کے سوا کوئی آدمی جماعت سے الگ نماز نہ پڑہتا تھا یہاں تک کہ بعض حضرات کو عذر اور بیماری میں بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں لایا جاتا اور صف میں کھڑا کردیا جاتا تھا
اس بیان میں جس طرح باجماعت نماز کی پوری تاکید اور اہمیت و ضرورت کا ذکر ہے اسی کے ساتھ اس کا یہ درجہ بھی بیان فرما دیا کہ وہ سنن ہدی میں سے ہے جس کو فقہاء سنت مؤ کدہ کہتے ہیں چناچہ اگر کوئی شخص عذر شرعی مثلاً مرض وغیرہ کے بغیر تنہا نماز پڑھ لے اور جماعت میں شریک نہ ہو تو اس کی نماز تو ہوجائے گی مگر سنت مؤ کدہ کے ترک کی وجہ سے مستحق عتاب ہوگا اور اگر ترک جماعت کی عادت بنالے تو سخت گنہگار ہے خصوصاً اگر ایسی صورت ہوجائے کہ مسجد ویران رہے اور لوگ گھروں میں نماز پڑھیں تو یہ سب شرعاً مستحق سزا ہیں اور قاضی عیاض نے فرمایا کہ ایسے لوگ اگر سمجھانے سے باز نہ آئیں تو ان سے قتال کیا جائے (قرطبی 298 ج 1)
Top