Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
وَ اَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔ (البقرۃ : 43) (اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) اس آیت کریمہ میں تین حکم دیئے گئے ہیں۔ (1) اقامتِ صلوٰۃ (2) اِیتاء زکوٰۃ (3) رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع۔ جہاں تک پہلے دونوں حکموں کا تعلق ہے اس کا ذکر ہم سورة فاتحہ کے درس میں تفصیل سے کرچکے ہیں۔ جہاں تک تیسرے حکم کا تعلق ہے، اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ رکوع کے معنی تو ہوتے ہیں،” آگے کی طرف جھک جانے، تواضع ظاہر کرنے اور فقر وغربت سے پست ہوجانے کے “۔ قرآن مجید میں تو عام طور پر اس سے مراد نماز ہوتی ہے۔ لیکن یہاں چونکہ مع الراکعین کا لفظ بھی ساتھ آیا ہے، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد صرف نماز ہی نہیں بلکہ مزید بھی چند باتوں کی طرف اشارہ مفہوم ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ذہن میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے واسطے سے تمہارے آباواجداد سے جو عہد لیا تھا اور جس عہد کے تم بھی پابند ہو اس کے اہم ارکان نماز اور زکوٰۃ ہی تھے۔ سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے اس عہد کا ذکر فرمایا ہے : وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِی اِسْرَآئِیْلَج وَبَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْباً ط وَقَالَ اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْط لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ الخ۔ (اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان پر بارہ نقیب مقرر کیے اور اللہ نے فرمایا : میں یقینا تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ اد ا کی) اس عہد میں ملاحظہ کیجئے کہ اس عہد کے دو بنیادی ستون نماز اور زکوٰۃ ہیں۔ انہی دونوں کا دوبارہ حکم دے کر بنی اسرائیل سے یہ کہا جارہا ہے کہ تمہارے پاس محمد رسول اللہ ﷺ جو دعوت لے کر آئے ہیں اس میں کوئی نئی بات نہیں بنیادی اعتقادات بھی وہی ہیں اور بنیادی احکامات بھی وہی ہیں۔ تم آخر کس بنیاد پر اس دعوت کا انکار کررہے ہو۔ اس وقت بھی تمہیں نماز اور زکوٰۃ ہی کا حکم دیا گیا تھا اور اب بھی تمہیں یہی حکم دیا جارہا ہے۔ مزیدیہ فرمایا گیا کہ اس وقت بھی تمہاری قومی شیرازہ بندی اسی نماز کے ذریعے کی گئی تھی اور اب بھی تمہاری شیرازہ بندی کے لیے تمہاری گم گشتہ متاع کو دوبارہ تمہارے حوالے کیا جارہا ہے۔ آج تم نے اپنی سیرت و کردار کی بنیاد اور جماعتی شیرازہ بندی کا تانابانا مفادات اور ہوس کے عوامل سے تیار کیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تم سیرت وکردا رکی ہر خوبی اور اجتماعی زندگی کی ہر آورش سے محروم ہوگئے ہو۔ اگر تمہیں اپنے آپ سے کچھ بھی ہمدردی ہے تو دوبارہ اسی نسخہ شفا کی طرف پلٹو جس نے تمہیں پہلے شفابخشی تھی کیونکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا تمام تر دارومدار اللہ سے تعلق درست ہونے اور بندوں سے تعلق کے صحیح ہونے پر ہے اور یہ دونوں تعلق نماز اور زکوٰۃ سے درست ہوتے ہیں اور پھر جماعتی شیرازہ بندی نماز باجماعت سے پید ہوتی ہے اسی سے حاکم اور محکوم کا فرق مٹتا ہے اور امیر اور غریب اور مختلف طبقات کا تفاوت ختم ہوتا ہے اور جب یہ اساسی رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں تو جماعت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اور جماعت اور قوم کے افراد اخلاقی صفات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اقامت الصلوۃ اور ایتاء الزکوٰۃ کا حکم یہود کے لیے دوسری بات ہمیں یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ تین باتیں جو ارشاد فرمائی گئی ہیں یہ بنی اسرائیل کے لیے تعریض کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ انھیں شرم دلائی جارہی ہے کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نبوت دی تو سب سے پہلا حکم نماز ہی کے بارے میں تھا۔ سورة طٰہٰ آیت نمبر 14 میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اللہ نے کوہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ٓ اَنَا فَاعْبُدْنِیْلا وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ۔ (میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں اور نماز کو قائم کرو میری یاد کے لیے) (طٰہٰ : 14) یہ پہلا حکم ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیا گیا پھر اسی نماز باجماعت کو جماعتی شیرازہ بندی کا ذریعہ بنانے کا حکم دیا گیا تھا۔ سورة یونس آیت نمبر 87 میں ارشاد فرمایا : وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوتًاوَّاجْعَلُوْا بُیُوتَکُمْ قِبْلَۃً وَّاَقِیْمُوا لصَّلٰوۃَ ط (اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم اپنی قوم کے لیے مصر میں گھر مقرر کرلو اور اپنے گھروں کو قبلہ بنائو اور نماز قائم کرو) (یونس) لیکن بنی اسرائیل نے ان احکامات کا جو حشر کیا اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مذہبی صحیفوں سے نماز کا ذکر تک ختم کرڈالا۔ ایک اہل علم کی تحقیق کے مطابق یہود زیادہ سے زیادہ سال میں صرف ایک مرتبہ سجدہ کرنا واجب سمجھتے تھے اور اس کے لیے بھی ان کے علماء نے اجازت دے رکھی تھی کہ اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی دیوار یا کھمبے پر اپنی پیشانی رکھ دے تو ادائے فرض کے لیے یہ بھی کافی ہے اور رکوع کا تصور تو انھوں نے اپنی عبادات سے بالکل ختم کرڈالا۔ یہاں شائداسی لیے خاص طور پر رکوع کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ عجیب حادثہ یہ ہے کہ یہود کے ایک فرقے کا خیال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نماز کا سرے سے حکم ہی نہیں دیا تھا یہ محض بعد والوں کی بدعت ہے۔ قرآن کریم نے شاید اسی لیے بنی اسرائیل کے زوال کے سلسلے میں ان کی بداعمالیوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے جس کا ذکر سب سے پہلے فرمایا وہ نماز کا ضائع کردینا ہے۔ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِ ھِم خَلْفٌ اَضَاعُوْاالصَّلٰوۃُ ” پھر ان کے بعد ان کے نالائق جانشین آئے جنھوں نے نماز ضائع کردی “۔ جہاں تک زکوٰۃ کے حکم کا تعلق ہے اس کا یہود نے اگرچہ انکار تو نہیں کیا، لیکن ان کے علماء اور کاہنوں نے اس کا مصرف فقرا اور مساکین کے بجائے اپنے آپ کو قرار دے دیا۔ چناچہ کتاب احبارجس میں کاہنوں کے حقوق و فرائض اور نذر اور قربانیوں وغیرہ کا ذکر ہے فقرا اور مساکین کے ذکر سے بالکل خالی ہے۔ پیداوار کے عشر، پہلوٹی کے فدیے اور ہر قسم کی نذریں اس میں کاہنوں کے لیے مخصوص کردی گئی ہیں اور اس طرح زکوٰۃ کے اصلی حقدار فقرا اور غربا کی بجائے علماء اور کاہن بن کے رہ گئے۔ یعنی ان کے علماء کو دنیا کی حرص و آز نے اس حد تک اندھا کردیا کہ شرعی احکام کو بھی انھوں نے اپنی حرص کا ذریعہ بنالیا۔ زکوٰۃ اور نذرونیاز جو سراسر غریبوں کی غربت دور کرنے کے لیے مشروع کیے گئے تھے۔ وہ بھی انھوں نے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے اپنے لیے خاص کرلیے۔ علماء سوء کتنے بھی حق سے دور چلے جائیں اور کیسے ہی دنیا کے حریص ہوجائیں وہ اپنا لبادہ کبھی نہیں اترنے دیتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تمام تر دولت کا سرچشمہ جاہل عوام ہیں۔ وہ انھیں مذہب کا حقیقی خادم اور خدا رسیدہ جان کر ان کی خدمت میں نذرانے پیش کرتے ہیں اور پھر اپنے لیے دعائوں کے طالب ہوتے ہیں۔ اس لیے جب بھی یہ لوگ عوام کے سامنے آتے ہیں، تو ہمیشہ مذہب نیکی اور بھلائی کی باتیں کرتے ہیں۔ تاکہ ان کے شکار ان کے ہاتھوں سے نکلنے نہ پائیں اور ان کی فتوحات میں کمی نہ آنے پائے۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کے اسی فریب کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔
Top