Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا
: اور تم قائم کرو
الصَّلَاةَ
: نماز
وَآتُوْا
: اور ادا کرو
الزَّکَاةَ
: زکوۃ
وَارْکَعُوْا
: اور رکوع کرو
مَعَ الرَّاكِعِیْنَ
: رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور (خدا کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو
آیت نمبر
43
اس میں چونتیس مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واقیموا الصلوٰۃ امر ہے اور وجوب کے لئے ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اقامۃ الصلوٰۃ اور اس کے اشتقاق اور اس کے تفصیلی احکام پہلے گزر چکے ہیں۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واتوا الزکوٰۃ یہ امر بھی وجوب کے لئے ہے۔ الایتاء کا مطلب عطا کرنا ہے آیتتہ کا معنی آعطیتہ میں نے اسے عطا کیا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لئن اتنا من فضلہ لنصدقن (توبہ :
75
) (اگر اس نے دیا ہمیں اپنے فضل سے تو ہم دل کھول کر خیرات دیں گے) ۔ آتیتہ۔ قصر کے ساتھ بغیر مد کے ہے اس کا معنی ہے میں اس کے پاس آیا۔ جب اتی استقبال کے معنی میں ہو تو مد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی سے حدیث پاک ہے : لاتین رسول اللہ ﷺ فلا خبرنہ میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا اور آپ کو یہ بتاؤں گا (
1
) ۔ تفصیل سے یہ حدیث آگے آئے گی۔ مسئلہ نمبر
3
: زکاۃ یہ زکا الشیء سے مشتق ہے جس کا معنی ہے چیز میں اضافہ ہوا۔ کہا جاتا ہے۔ زکا الزرع، والمال یزکو جب کھیتی زیاد ہو اور مال بڑھ جائے۔ رجل زکی زیادہ خیر والے شخص کا مال نکالنے کو زکوٰۃ کہا جاتا ہے ظاہراً مال میں کمی ہوتی ہے لیکن برکت کے ساتھ یا اجر کے ساتھ مال بڑھاتا ہے جس اجر کے ذریعے زکوٰۃ دینے والے کو ثواب دیا جاتا ہے (
2
) ۔ کہا جاتا ہے : زرع زاک بین الزکاء۔ زکأت الناقۃ بولدھا تزکابہ۔ جب اونٹنی اپنا بچہ اپنی ٹانگوں کے درمیان پھینک دے۔ زکا الفرد جب طاق، جفت بن جائے۔ شاعر نے کہا : کانوا خسًا او زکاً من دون اربعۃ لم یخلقوا وجدود الناس تعتلج وہ طاق تھے یا جفت تھے چار سے کم تھے، انہوں نے پیدا نہیں کیا اور لوگوں کے بخت بلند تھے۔ جدؤ جمع ہے جدّ کی اس کا معنی حصہ اور بخت ہے تعتلج کا معنی بلند ہونا ہے۔ اعتلجت الارض جب زمین کی کھیتی بڑی ہوجائے۔ فخساً سے مراد طاق اور زکاً سے مراد جفت ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : زکاۃ کا معنی اچھی تعریف ہے۔ اسی سے ہے : زکی القاضی الشاھد قاضی نے گواہ کی تعریف کی۔ پس جو زکاۃ نکالتا ہے اسے اچھی تعریف حاصل ہوتی ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : زکاۃ تطہیر کے معنی میں ہے۔ کہا جاتا ہے زکا فلان یعنی فلاں غافل کرنے اور تنقید کی میل سے پاک ہوا۔ پس گویا مال کی زکوٰۃ نکالنے والا اپنے آپ کو اس حق کے بوجھ سے پاک کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس مال میں مساکین کے لئے رکھا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے زکاۃ کے مال کو لوگوں کا میل کہا ہے (
3
) ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : خذ من اموالھم صدقۃ تطھرھم وتزکیھم بھا (توبہ :
103
) (اے حبیب وصول کیجئے ان کے مالوں سے صدقہ تاکہ آپ پاک کریں انہیں اور بابرکت فرمائیں انہیں اس ذریعے سے ) ۔ مسئلہ نمبر
4
: یہاں زکاۃ کی مراد میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد فرض زکاۃ ہے کیونکہ یہ نماز سے متصل ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد صدقہ فطر ہے، یہ امام مالک کا قول ہے۔ میں کہتا ہوں : پہلا قول اکثر علماء کا ہے۔ الزکوٰۃ قرآن میں مجمل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ ائمہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دانوں اور کھجوروں میں صدقہ نہیں ہے حتیٰ کہ وہ پانچ وسق تک پہنچ جائے پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ بخاری نے کہا : خمس اواق من الورق۔ (
1
) یعنی چاندی میں سے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جس زمین کو آسمان کا پانی یا چشموں کا پانی سیراب کرے یا وہ کھجور کے درخت جو اس بارش کے پانی سے سیراب ہوتے ہوں جو ان کے گڑھے میں جمع ہوجاتا ہو، اور وہ کھیتی جو کنوؤں سے سینچی گئی ہو اس میں بیسواں حصہ ہے (
2
) ۔ اس کی وضاحت انشاء اللہ سورة الانعام میں آئے گی اور سورة برأت میں سونے اور جانوروں کی زکوٰۃ کا ذکر آئے گا، اور اس مال کا بیان جس سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جاتی خذ من اموالھم صدقۃً (توبہ :
103
) کے تحت آئے گا۔ رہی زکاۃ الفطر کتاب اللہ میں اس کے متعلق کوئی نص نہیں ہے مگر جو امام مالک نے تاویل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قد افلح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی۔ (اعلیٰ ) (بےشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کیا اور اپنے رب کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا) ۔ مفسرین نے اس پر کلام سورة الاعلی میں فرمائی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر کلام اسی سورة بقرہ میں روزوں کی آیات کے تحت ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں زکاۃ الفطر فرض فرمائی اور اس حدیث کا ذکر آئندہ آئے گا اور اس زکوٰۃ کی نسبت رمضان کی طرف کی۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وارکعوا لغت میں رکوع کا معنی کسی شخص کا جھکنا ہے، ہر جھکنے والا رکوع کرنے والا ہے۔ لبید نے کہا : اخبر اخبار القرون التی ادب کانی کلما قمت راکع (
3
) مجھے گزشتہ قوموں کی خبر دی گئی تو میں رینگ کر چلنے لگا گویا میں جھکنے والا ہوں جب میں کھڑا ہوا۔ ابن درید نے کہا : الرکعۃ زمین میں گڑھے کو کہتے ہیں یہ یمنی لغت ہے۔ بعض نے فرمایا : جھکنا، رکوع اور سجود کو شامل ہے، کسی منزل میں جھکنے کے لئے عاریۃً استعمال کیا جاتا ہے۔ ولا تعاد الضعیف علک ان ترکع یوماً والدھر قدرفعہ (
4
) تو کسی کمزور پر زیادتی نہ کر۔ شاید کبھی تو جھک جائے اور زمانہ اسے بلند کر دے۔ مسئلہ نمبر
6
: خصوصی طور پر رکوع کے ذکر کرنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک قوم نے فرمایا : رکوع کا ذکر فرمایا کیونکہ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے، اس سے مراد پوری نماز ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صرف رکوع کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ شرع نے قراءت سے نماز کو تعبیر فرمایا ہے۔ اسی طرح سجدہ سے ایک رکعت مراد لی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے : وقران الفجر (اسراء :
78
) یعنی فجر کی نماز۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من ادرک سجدۃ من الصلاۃ فقد ادرک الصلاۃ۔ (
1
) یعنی جس نے نماز کی ایک رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا، اہل حجاز رکعت پر سجدہ کا اطلاق کرتے ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : رکوع کو ذکر کے ساتھ خاص فرمایا کیونکہ بنی اسرائیل کی نماز میں رکوع نہیں تھا۔ بعض علماء نے فرمایا کیونکہ لوگوں پر زمانہ جاہلیت میں رکوع زیا دہ بھاری تھا حتیٰ کہ بعض لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا۔۔۔۔ میرا خیال ہے وہ عمران بن حصین تھا۔۔۔۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی : میں جھکوں گا نہیں مگر کھڑا ہو کر، یعنی میں رکوع نہیں کروں گا جب اسلام ان کے دل میں راسخ ہوگیا اور اس کا نفس اس سے مطمئن ہوگیا تو انہوں نے رکوع کے حکم کی پیروی کی۔ مسئلہ نمبر
7
: رکوع شرعی یہ ہے کہ آدمی اپنی پیٹھ کو ٹیڑھا کرے اور اپنی پیٹھ اور گردن کو لمبا کرے اور اپنی ہاتھ کی انگلیوں کو کھولے اور ان سے اپنے گھٹنوں کو پکڑے پھر اطمینان سے رکوع کرے اور سبحان رب العظیم تین مرتبہ کہے اور یہ کم از کم مقدار ہے۔ امام مسلم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ تکبیر کے ساتھ نماز شروع فرماتے تھے۔ قراءت الحمد سے شروع کرتے تھے اور جب رکوع کرتے تھے تو سر کو نہ زیاد اونچا رکھتے تھے اور نہ زیادہ جھکاتے تھے بلکہ درمیان میں رکھتے تھے (
2
) ۔ بخاری نے حضرت ابو حمید ساعدی سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی پیٹھ کر ٹیڑھا کرتے (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
8
: رکوع فرض ہے۔ یہ قرآن وسنت سے ثابت ہے اسی طرح سجدہ بھی فرض ہے کیونکہ سورة حج کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ارکعوا واسجدوا (الحج :
77
) سنت نے اس میں طمانیت اور ان کے درمیان فاصلہ کا اضافہ کیا اس کے متعلق کلام پہلے گزر چکی ہے اور رکوع کا طریقہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے اور رہا سجدہ تو وہ بھی حضرت ابو حمید ساعدی کی حدیث میں وضاحت کے ساتھ آچکا ہے، نبی کریم ﷺ جب سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر ٹکاتے تھے اپنے ہاتھوں کو اپنے پہلوؤں سے جدا رکھتے تھے اور اپنی ہتھیلیوں کو کندھوں کے برابر رکھتے تھے (
4
) ۔ اسی حدیث کو امام ترمذی نے نقل فرمایا ہے اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ مسلم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سجدہ میں اعتدال کر اور تم میں سے کوئی اپنے بازو کتے کی طرح نہ پھیلائے (
1
) ۔ حضرت براء سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تو سجدہ کرے تو اپنی ہتھیلیوں کو رکھ اور اپنی کہنیوں کو بلند کر (
2
) ۔ حضرت میمونہ ؓ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب سجدہ کرتے تھے تو ہاتھوں کو پھیلاتے تھے حتیٰ کہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی اور جب بیٹھتے تھے تو اپنی بائیں ران پر بیٹھتے تھے (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
9
: اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ جس نے سجدہ میں اپنی پیشانی کو رکھا اور ناک کو نہ رکھا یا ناک کو رکھا اور پیشانی کو نہ رکھا، امام مالک نے فرمایا : وہ اپنی پیشانی اور ناک پر سجدہ کرے۔ ثوری اور احمد کا یہی قول ہے۔ نخعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد نے فرمایا : صرف پیشانی یا صرف ناک پر سجدہ جائز نہیں۔ یہی قول ابو خیثمہ اور ابن ابی شیبہ کا ہے۔ اسحاق نے کہا : اگر ایک چیز پر سجدہ کیا تو ایسا کرنے والے کی نماز فاسد ہے۔ امام اوزاعی، سعید بن عبد العزیز نے یہی فرمایا۔ حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، عکرمہ، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ تمام نے ناک پر سجدہ کا حکم دیا ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : پیشانی پر سجدہ کافی ہے جبکہ ناک نہ بھی لگے۔ یہ قول حضرات عطا، طاؤس، عکرمہ، ابن سیرین اور حسن بصری کا ہے۔ یہی قول شافعی، ابو ثور، یعقوب اور محمد کا ہے۔ ابن منذر نے کہا : ایک کہنے والے نے کہا : ایک کہنے والے نے کہا : اگر پیشانی کو رکھا اور ناک کو نہ رکھا یا ناک کو رکھا اور پیشانی کو نہ رکھا تو اس نے برا کیا لیکن اس کی نماز مکمل ہے۔ یہ نعمان کا قول ہے ابن منذر نے کہا : میں نہیں جانتا جس نے پہلے اس قسم کا قول کیا اور نہ بعد والے کسی کو جانتا ہوں جس نے ایسا قول کیا ہو۔ میں کہتا ہوں : سجدہ میں صحیح پیشانی اور ناک کا رکھنا ہے۔ اس کی دلیل ابو حمید کی حدیث ہے جو گزر چکی ہے۔ امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء پر سجدہ کروں۔ پیشانی پر۔۔۔۔ اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔ دونوں ہاتھوں پر، دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پیروں کی اطراف پر۔ ہم کپڑے اور بال جمع نہیں کرتے (
4
) ۔ یہ تمام نماز کے اجمال کی تفصیل ہے۔ پس یہ قول متعین ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ امام مالک سے روایت کیا گیا ہے کہ وہ ناک لگائے بغیر صرف پیشانی پر سجدہ کو جائز قرار دیتے تھے جیسا کہ عطا اور شافعی کا قول ہے۔ ہمارے نزدیک مختار پہلا قول ہے۔ امام مالک کے نزدیک سجدہ جائز نہ ہوگا جب تک پیشانی پر سجدہ نہیں کرے گا۔ مسئلہ نمبر
10
: پگڑی کے پلو پر سجدہ کرنا مکروہ ہے۔ اگر وہ ایسا کپڑا ہو جیسے وہ کپڑے ہوتے ہیں جو گھٹنوں اور قدموں کو ڈھانپ دیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں افضل یہ ہے کہ زمین پر سجدہ کرے یا ایسی چیز پر سجدہ کرے جس پر سجدہ کیا جاتا ہے اگر وہاں کوئی ایسی چیز ہو جو اذیت دیتی ہو تو نماز میں داخل ہونے سے پہلے اسے زائل کر دے اگر پہلے ایسا نہ کیا ہو تو ایک مرتبہ اسے برابر کر دے۔ مسلم نے حضرت معیقیب سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو سجدہ کرتے وقت مٹی برابر کرتا ہے۔ فرمایا : اگر تو نے ایسا کرنا ہے تو ایک مرتبہ کرلو (
1
) ۔۔۔۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے، فرمایا : ہم سخت گرمی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ جب ہم سے کوئی زمین پر اپنی پیشانی نہیں رکھ سکتا تھا تو وہ اپنا کپڑا بچھاتا تھا اور اس پر سجدہ کرتا تھا (
2
) ۔ مسئلہ نمبر
11
: جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ارکعوا واسجدوا (الحج :
77
) تو ہمارے علماء نے فرمایا : رکوع و سجود میں سے وہ کافی ہے جسے رکوع و سجود کہا جائے۔ اسی طرح قیام کا حکم ہے انہوں نے اس میں طمانیت کو شرط قرار نہیں دیا، اور انہوں نے اس کم از کم کو لیا ہے جس پر رکوع و سجود کا اطلاق ہو سکے۔ گویا انہوں نے نماز کے لغو ہونے کے متعلق ثابت شدہ احادیث سنی ہی نہیں۔ ابن عبد البر نے کہا : رکوع، سجود، رکوع کے بعد وقوف، دو سجدوں کے درمیان جلوس جائز ہی نہیں حتیٰ کہ آرام سے رکوع کرے، آرام سے وقوف کرے، آرام سے سجدہ کرے اور آرام سے بیٹھے۔ حدیث میں یہی صحیح ہے۔ یہ جمہور علماء اور اہل نظر کا نظریہ ہے۔ ابن وہب اور ابو مصعب نے امام مالک سے یہی روایت کیا ہے۔ قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا : ابن قاسم سے فصل کے وجوب اور طمانیت کے سقوط کی روایات کثرت سے ہیں اور یہ وہم عظیم ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے طمانیت سے ہر رکن کو ادا کیا اس کا حکم بھی دیا اور اس کی تعلیم بھی دی۔ اگر ابن قاسم کے لئے عذر ہو کہ وہ اس پر مطلع نہیں تھا تو تمہارے لئے کوئی عذر نہیں جبکہ علم تم تک پہنچ چکا ہے اور اس کے ساتھ تم پر حجت قائم ہوئی۔ نسائی، دار قطنی، علی بن عبد العزیز نے حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت کیا ہے، فرمایا : میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شخص آیا۔ مسجد میں داخل ہوا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ لی تو وہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور لوگوں کو سلام کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : واپس جاؤ، نماز پڑھو تم نے (پہلے صحیح) نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص دوبارہ نماز پڑھنے لگا ہم اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی حتیٰ کہ وہ وضو کو مکمل کرے جس طرح اسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اپنے چہرے کو دھوئے اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے، اپنے سر کا مسح کرے اور ٹخنوں تک اپنے پاؤں دھوئے پھر تکبیر کہے۔ اللہ تعالیٰ کی ثنا پڑھے پھر سورة الحمد پڑھے اور قرآن حکیم میں سے جو میسر ہو وہ پڑھے پھر تکبیر کہے اور رکوع کرے، رکوع میں اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھے حتیٰ کہ اس کے جوڑ مطمئن ہوجائیں اور وہ ڈھیلا ہوجائے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور سیدھا کھڑا ہوجائے حتیٰ کہ اس کی پیٹھ سیدھی ہوجائے اور ہر جوڑ اپنی جگہ پر آجائے، پھر تکبیر کہے اور سجدہ کرے اور اپنے چہرے کو زمین پر رکھے۔ ہمام نے کہا : اور اپنی مقعد پر بیٹھ جائے اور اس کی پیٹھ سیدھی ہو۔ چاروں رکعتوں کا اس طرح وصف بیان فرمایا یہاں تک کہ فارغ ہوگئے۔ پھر فرمایا : تم میں سے کسی کی نماز مکمل نہیں حتیٰ کہ وہ اس طرح نماز پڑھے۔ اس کی مثل حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے جس کو مسلم نے نقل کیا ہے۔ یہ پہلے گزر چکی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ کتاب اللہ میں مجمل نماز کا بیان ہے جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم دیا ہے اور ساری امت کو پہنچایا ہے۔ پس جو اس بیان واقف نہیں اور اس نے کمی کی جو رحمن نے اس پر فرض کیا اور اس نے پیروی نہ کی، اس امر کی جو اسے نبی کریم ﷺ کی طرف سے پہنچا وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کا ذکر اس آیت میں ہے فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوٰۃ واتبعوا الشھوت (مریم :
59
) اس کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ بخاری نے حضرت زید بن وہب سے روایت کیا ہے، فرمایا : حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع و سجود مکمل نہیں کر رہا تھا۔ حضرت حذیفہ نے اسے فرمایا : تو نے نماز (صحیح) نہیں پڑھی اگر تو (اسی حالت میں) مرے گا تو اس فطرت پر نہیں مرے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیدا فرمایا (
1
) ۔ مسئلہ نمبر
12
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے مع الرکعین، مع کا لفظ معیت اور جمعیت پر دلالت کرتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن کے مفسرین کی ایک جماعت نے کہا : ابتدا میں نماز کا امر جماعت کے ساتھ حاضری کا تقاضا نہیں کرتا تھا تو مع کے قول کے ساتھ جماعت کی حاضری کا حکم دیا۔ جماعت کے ساتھ حاضر ہونے کے متعلق علماء کے دو مختلف اقوال ہیں : جمہور کا نظریہ یہ ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنن موکدہ سے ہے اور جو بغیر کسی عذر کے جماعت سے پیچھے رہتا ہے اس پر سزا واجب ہے اور بعض اہل علم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا : یہ قول صحیح ہے کیونکہ اس پر علماء کا اجماع ہے کہ تمام مساجد کا جماعت سے خالی ہونا جائز نہیں۔ جب مسجد میں جماعت کھڑی ہوجائے تو گھر میں منفرد کی نماز جائز ہوگی کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس درجے افضل ہے (
2
) ۔ اس حدیث کو مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجے افضل ہے (
3
) ۔ داؤد نے کہا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ہر شخص پر فرض ہے جیسے جمعہ فرض ہے اور داؤد نے نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے دلیل پکڑی ہے : لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد میں ہی جائز ہے۔ ابو داؤد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابو محمد عبد الحق نے اسے صحیح کہا ہے۔ حضرات عطا بن ابی رباح، احمد بن حنبل، ابو ثور وغیرہم کا بھی یہی قول ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : میں کسی شخص کو جماعت ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتا جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر قادر ہو مگر عذر کی وجہ سے جماعت چھوڑ سکتا ہے یہ ابن منذر نے ان کا قول حکایت کیا ہے۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے۔ فرمایا : نبی کریم ﷺ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور کہا : یا رسول اللہ ! میرا کوئی قائد نہیں جو مجھے مسجد میں لے آئے، اس نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا تاکہ آپ اسے رخصت دے دیں اور وہ اپنے گھر میں نماز پڑھ لیا کرے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے رخصت دے دی۔ جب وہ واپس چلا گیا تو اسے پھر بلایا اور فرمایا : کیا تو نماز کی اذان سنتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : پھر جواب دے (
1
) کہ (یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کر) ابو داؤد کے الفاظ اس حدیث میں یہ ہیں “ میں تیرے لئے رخصت نہیں پاتا ” اس حدیث کو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا : سائل عبد اللہ بن ام مکتوم تھے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے اذان سنی اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے اسے کوئی عذر مانع نہ ہو۔۔۔۔ صحابہ نے پوچھا : عذر کیا ہے ؟ فرمایا خوف یا مرض۔۔۔۔ اس کی نماز قبول نہ ہوئی جو اس نے پڑھی (
2
) ابو محمد عبد الحق نے کہا : اس حدیث کو مغراء العبدی نے روایت کیا ہے۔ صحیح حضرت ابن عباس پر موقوف ہے جس نے اذان سنی اور (جماعت کے ساتھ) نہ آیا تو اس کی نماز نہیں۔ قاسم بن اصبغ نے اپنی کتاب میں اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس نے اذان سنی اور جواب نہ دیا ( یعنی جماعت کے ساتھ حاضر نہ ہوا) تو اس کی نماز نہیں مگر یہ کہ اسے عذر ہو (
3
) ۔ اس کے ساتھ تیرے لئے اس کی صحت کافی ہے۔ مغراء العبدی سے ابو اسحاق نے روایت کی ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : ہم نے دیکھا کہ جماعت سے پیچھے نہیں رہتا مگر ایسا منافق جس کا نفاق معلوم ہوتا ہے (
4
) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہمارے اور منافقین کے درمیان فرق عشاء اور صبح کی جماعت کی حاضری ہے۔ منافقین ان نمازوں میں حاضر ہونے کی طاقت نہیں رکھتے (
5
) ۔ ابن منذر نے کہا : ہم نے کئی اصحاب نبی ﷺ سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا : جس نے اذان سنی اور بغیر عذر کے جواب نہ دیا اس کی نماز نہیں (
6
) ۔ ان صحابہ میں حضرت ابن سعود، حضرت ابو موسیٰ اشعری ہیں۔ ابو داؤد نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے نوجوانوں کو حکم دوں کہ وہ لکڑیوں کے گٹھے اکٹھے کریں پھر میں ان لوگوں کے پاس آؤں جنہوں نے اپنے گھروں میں نماز پڑھی جبکہ انہیں کوئی بیماری بھی نہیں ہے تو میں ان پر ان کے گھر جلادوں (
7
) ۔ یہ ان کی دلیل ہے جنہوں نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض قرار دیا یہ وجوب میں ظاہر ہے۔ جمہور علماء نے جماعت کے ساتھ نماز کی حاضری کی تاکید پر محمول کیا ہے اور صحابہ کے اقوال اور حدیث لا صلوۃ لہ (اس کی نماز نہیں) کو کمال اور فضیلت پر محمول کیا ہے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ابن ام مکتوم کو فاجب کا امر کرنا استحباب پر محمول کیا ہے اور حضور ﷺ کا لقد ھممت (میں نے ارادہ کیا) یہ حتمی وجوب پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ آپ نے ارادہ فرمایا لیکن ایسا کیا نہیں۔ آپ نے یہ ارشاد غافلوں کو وعید اور تہدید کے طور پر ذکر فرمایا جو جماعت اور جمعہ سے رہ جاتے ہیں۔ اس معنی کو مسلم کی روایت بھی بیان کرتی ہے جو حضرت عبد اللہ نے روایت کی ہے، فرمایا : جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ کل اللہ تعالیٰ سے مسلمان ہو کر ملے تو اسے ان نمازوں کی حفاظت کرنی چاہئے جہاں بھی ان کی ندا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لئے سنن ہدیٰ کو مشروع کیا ہے اور یہ نمازیں (جماعت کے ساتھ پڑھنا) سنن ہدیٰ میں سے ہیں۔ اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو گے جس طرح یہ شخص اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ جو شخص اچھی طرح طہارت کرے پھر کسی مسجد کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے اور اس کے بدلے اس کا ایک درجہ بلند فرماتا ہے اور اس کے بدلے ایک گناہ معاف فرماتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہم میں سے جماعت سے ایسا منافق پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا تھا۔ ایک شخص کو لایا جاتا تھا جبکہ وہ دو شخصوں کے سہارے پر ہوتا تھا حتیٰ کہ اسے صف میں کھڑا کیا جاتا تھا (
1
) ۔ حضرت عبد اللہ نے اپنی حدیث میں بیان فرمایا کہ جماعت کے ساتھ شریک ہونا سنن ہدیٰ کے ترک پر ایک دوسرے کی مدد کرنا انہیں ختم کرنے کے مترادف ہے۔ میں کہتا ہوں : اس بنا پر حجت قائم اور ظاہر ہوجائے تو منفرد کی نماز جائز اور صحیح ہوگی۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : آدمی کی نماز جماعت کے ساتھ گھر میں اور بازار میں اس کی نماز سے بیس سے زائد درجے بلند ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر وہ مسجد میں آتا ہے اور اس کا ارادہ فقط جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہوتا ہے تو جو وہ قدم اٹھاتا ہے اس کے بدلے اس کے لئے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور اس کے بدلے اس کا ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے۔ جب وہ مسجد میں داخل ہوتا ہے جب تک اسے نماز روکے ہوئے ہوتی ہے وہ نماز میں ہی شمار ہوتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ اس جگہ میں ہوتا ہے جہاں سے اس نے نماز پڑھی جاتی ہے۔ فرشتے یہ کہتے رہتے ہیں : اے اللہ ! اس پر رحم فرما، اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اے اللہ ! اس پر نظر رحمت فرما، یہ دعا کا سلسلہ جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ اس مجلس میں تکلیف نہیں دیتا (یعنی) جب تک اسے حدث لاحق نہیں ہوتا (
2
) ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا گیا : حدث سے کیا مراد ہے ؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : اس کی ہوا آہستہ خارج ہو یا بلند آواز سے خارج ہو۔ مسئلہ نمبر
13
: جماعت کی طرف جو فضیلت منسوب کی گئی ہے اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ فقط جماعت کے لئے ہے جہاں بھی ہو یا یہ فضیلت اس جماعت کی ہے جو مسجد میں ہوتی ہے، کیونکہ یہ فضیلت ایسے افعال کے ساتھ لازم ہے جو مساجد کے ساتھ خاص ہے جیسا کہ حدیث پاک میں بیان ہوا ہے۔ علماء کے اس کے متعلق دو قول ہیں : پہلا زیادہ ظاہر ہے، کیونکہ جماعت وہ وصف ہے جس پر حکم معلق کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم مسجد کی طرف زیادہ قدم چل کر جانا، مسجد کی طرف آنا، مسجد میں بیٹھنا یہ جماعت کی فضیلت کے علاوہ زیادہ ثواب ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
14
: علماء کا اختلاف ہے کہ کیا ایک جماعت دوسری جماعت سے کثرت تعداد اور امام کی فضیلت کی وجہ سے فضیلت رکھتی ہے یا نہیں ؟ امام مالک نے فرمایا : نہیں۔ ابن حبیب نے فرمایا : فضیلت رکھتی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک آدمی کا دوسرے آدمی سے مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور ایک شخص کا دو آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور جو تعداد زیادہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے (
1
) ۔ اس حدیث کو حضرت ابی بن کعب نے روایت کیا ہے، اور ابو داؤد نے نقل کی ہے، اس کی سند میں کمزوری ہے۔ مسئلہ نمبر
15
: جس نے ایک جماعت سے نماز پڑھ لی ہو وہ وہی نماز دوسری جماعت سے دوبارہ پڑھ سکتا ہے ؟ اس کے متعلق بھی علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور ان کے اصحاب نے فرمایا : وہ شخص جو تنہا اپنے گھر میں یا کسی اور جگہ نماز پڑھ چکا ہو وہ امام کے ساتھ نماز دوبارہ پڑھے اور جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہو اگرچہ وہ جماعت تھوڑی بھی ہو وہ زیادہ تعداد والی جماعت یا کم والی جماعت کے ساتھ نماز دوبارہ نہ پڑھے۔ امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور داؤد بن علی نے فرمایا : جو ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ نماز اگر چاہے تو دوسری جماعت کے ساتھ پڑھ لے کیونکہ یہ نفل اور سنت ہوجائے گی۔ یہی بات حضرات حذیفہ بن یمان، ابو موسیٰ اشعری، انس بن مالک، صلہ بن زفر، شعبی اور نخعی سے مروی ہے۔ حضرت حماد بن زید اور حضرت سلیمان بن حرب کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک نے اس قول سے حجت پکڑی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک نماز ایک دن میں دو مرتبہ نہیں پڑھی جائے گی (
2
) ۔ بعض علماء نے فرمایا : دوبارہ نماز نہ پڑھو۔ یہ قول حضرت سلیمان بن یسار نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے۔ احمد اور اسحاق نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی ایک فرض پڑھے پھر وہ کھڑا ہو اور دوبارہ اسی فرض کی نیت سے دوبارہ پڑھے، لیکن جب وہ امام کے ساتھ سنت یا نفل کی نیت سے پڑھے گا تو وہ نماز کا اعادہ نہیں ہوگا۔ جن کو رسول اللہ ﷺ نے نماز کے اعادہ کا جماعت کے ساتھ حکم دیا تھا انہیں فرمایا تھا یہ تمہارے لئے نفل ہے (
1
) جیسا کہ حضرت ابو ذر وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ مسئلہ نمبر
16
: مسلم نے حضرت ابو مسعود سے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : قوم کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا اچھا قاری ہو، اگر قراءت میں برابر ہوں تو جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو، اگر سنت میں برابر ہوں تو جو ہجرت میں مقدم ہو، ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جو اسلام لانے میں مقدم ہو۔ کوئی شخص دوسرے کی سلطنت میں امامت نہ کرائے اور اس کے بیٹھنے کی جگہ پر نہ بیٹھے مگر یہ کہ وہ اسے اجازت دے (
2
) ۔ ایک روایت میں اسلام میں مقدم ہونے کی جگہ، عمر میں بڑا ہونے کا ذکر ہے، یہ حدیث ابو داؤد نے روایت کی ہے، فرمایا : شعبہ نے فرمایا : میں نے اسماعیل سے پوچھا : حدیث میں جو تکرمتہ کے الفاظ آئے ہیں اس کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا : اس کا بچھونا (اس کے بیٹھنے کی جگہ) اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا : حضرت ابو مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے اس پر اہل علم کا عمل ہے۔ علماء نے فرمایا : امامت کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو کتاب اللہ (قرآن) کا زیادہ قاری ہو اور سنت کو زیادہ جاننے والا ہو اور علماء نے فرمایا : گھر ما مالک امت کا زیادہ حقدار ہے۔ بعض نے فرمایا : جب گھر کا مالک دوسرے کو اجازت دے دے تو دوسرے کے امامت کرانے میں کوئی حرج نہیں، بعض نے اس کو ناپسند کیا، فرمایا : سنت یہ ہے کہ گھر کا مالک امامت کرائے۔ ابن منذر نے کہا ہے کہ ہم نے اشعث بن قیس سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ایک نوجوان کو امامت کے لئے مقدم کیا اور فرمایا : میں قرآن کو مقدم کرتا ہوں۔ جنہوں نے فرمایا کہ قوم کی امامت وہ کرائے جو قرآن کا بڑا قاری ہو، ان میں حضرات ابن سیرین، ثوری، اسحاق اور اصحاب الرائے ہیں۔ ابن منذر نے کہا : ہم بھی یہی کہتے ہیں کیونکہ یہ قول سنت کے موافق ہے۔ امام مالک نے فرمایا : وہ شخص مقدم ہو جو زیادہ علم والا ہو جبکہ اس کی حالت اچھی ہو اور عمر کا بھی حق ہے۔ امام اوزاعی نے فرمایا : وہ امامت کرائے جو زیادہ فقیہ ہو، اسی طرح امام شافعی اور ابو ثور نے فرمایا جبکہ وہ قرآن پڑھ سکتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقیہ نماز میں لاحق ہونے والے حوادث کو زیادہ جانتا ہے اور انہوں نے حدیث کی اس طرح تاویل کی ہے کہ صحابہ میں سے بڑا قاری بڑا فقیہ بھی ہوتا تھا کیونکہ وہ قرآن میں سمجھ حاصل کرتے تھے اور صحابہ کے عرف میں فقہاء کو قراء کہا جاتا تھا اور انہوں نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے اپنی بیماری کی حالت میں حضرت ابوبکر کو ان کے فضل وعلم کی وجہ سے مقدم فرمایا۔ اسحاق نے کہا : نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکر کو اس لئے مقدم فرمایا تاکہ وہ دلیل بن جائے کہ آپ ﷺ کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے، یہ ابو عمر نے “ التمہید ” میں ذکر کیا ہے۔ ابو البزار نے اپنی حسن سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم سفر کرو تو تم میں سے جو بڑا قاری ہو وہ تمہاری امات کرائے اگرچہ وہ عمر میں چھوٹا بھی ہو، جب وہ تمہاری امامت کرائے گا تو وہ تمہارے امیر ہوگا (
3
) ؟ فرمایا : ہم نہیں جانتے کہ یہ نبی کریم ﷺ سے روایت کی گئی ہے مگر حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اس سند کے ساتھ۔ میں نے کہا : چھوٹے کی امامت جائز ہے جب وہ قاری ہو۔ صحیح بخاری میں عمرو بن سلمہ سے مروی ہے، فرمایا : ہم ایک چشمہ پر رہتے تھے جو لوگوں کی گزر گاہ پر تھا۔ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کا کیا بنا، وہ شخص (جس نے نبوت کا اعلان کیا ہے) وہ کون ہے ؟ لوگ کہتے ہیں : وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مبعوث فرمایا ہے اور اس کی طرف ایسی ایسی وحی کی ہے ایسی ایسی وحی کی ہے میں وہ کلام یاد کرلیتا تھا گویا وہ میرے سینے میں کلام جم جاتا تھا۔ عرب لوگوں کے اسلام لانے کے منتظر تھے۔ وہ کہتے تھے : اس کو اور اس کی قوم کو چھوڑ دو اگر وہ اپنی قوم پر غالب آجائے گا تو وہ سچا نبی ہوگا۔ جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے اسلام قبول کرنے میں جلدی کی۔ میرے باپ نے اپنی قوم کے اسلام کے لئے جلدی کی، جب وہ آئے تو کہا : یقیناً میں تمہارے پاس اللہ کے نبی کی طرف سے آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا : تم اس وقت میں اس طرح نماز پڑھو۔ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان دے اور جو تم میں سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہو وہ امامت کرائے۔ پس لوگوں نے دیکھا کہ مجھ سے زیادہ کوئی بھی قرآن پڑھنے والا نہیں کیونکہ میں قافلوں میں ملتا تھا (اور ان سے قرآن سن کر یاد کرلیتا تھا) ۔ پس لوگوں نے مجھے امامت کے لئے آگے کیا۔ جب کہ میری عمر چھ یا سات سال تھی میرے اوپر ایک چادر ہوتی تھی جب میں سجدہ کرتا تھا تو وہ اکٹھی ہوجاتی تھی۔ قبیلہ کی ایک عورت نے آواز دی : کیا تم اپنے قاری کی شرمگاہ نہیں ڈھانپو گے ؟ پس لوگوں نے میرے لئے ایک قمیص خرید دی مجھے کبھی اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی کہ مجھے اس قمیص کی وجہ سے ہوئی تھی (
1
) ۔ جن علماء کے نابالغ بچے کی امامت جائز قرار دی ہے ان میں حسن بصری اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ ابن منذر نے اس کو پسند کیا ہے جب کہ بچہ نماز کو سمجھتا ہو اور نماز پڑھا سکتا ہو، کیونکہ وہ بچہ بھی اس ارشاد میں داخل ہے “ قوم کی امامت بڑا قاری کرائے (
2
) ”۔ آپ ﷺ نے نابالغ کی استثناء نہیں فرمائی۔ ان علماء نے حجت عمرو بن سلمہ کی حدیث کو بنایا ہے۔ امام شافعی کا ایک قول ہے : وہ باقی تمام نمازوں کی امامت کرائے لیکن جمعہ کی امامت نہ کرائے، وہ اس سے پہلے فرماتے تھے : جس کی امامت فرض نماز میں جائز ہے اس کی امامت عید میں بھی جائز ہے مگر میں اس میں غیر ولی کی امامت کو ناپسند کرتا ہوں۔ امام اوزاعی نے فرمایا : فرض نماز میں بچہ امامت نہیں کرا سکتا حتیٰ کہ اسے احتلام ہوجائے مگر یہ کہ ایسی قوم ہو جن کے پاس قرآن نہ ہو (یعنی کسی کو قرآن یاد نہ ہو) تو پھر قریب البلوغ بچہ امامت کرا سکتا ہے۔ زہری نے کہا : اگر بچے کی امامت میں اضطرار ہو تو وہ ان کی امامت کرائے۔ مالک، ثوری اور اصحاب رائے نے بچے کی امامت سے ہر صورت میں منع فرمایا ہے۔ مسئلہ نمبر
17
: ہر بالغ مسلمان آزاد کا مستقل امامت کرانا جائز ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جب وہ امام نماز کی حدود کو جانتا ہو اور الحمد شریف پڑھنے میں کوئی ایسی غلطی نہ کرتا ہو جو معنی میں غلطی کا باعث ہو مثلاً وہ ایاک نعبد میں کاف پر کسرہ پڑھ دے انعمت میں تا پر ضمہ پڑھ دے اور وہ طا اور ضاد میں فرق کرسکتا ہو، جو ان میں تفریق نہ کرسکتا ہو اس کی امامت صحیح نہیں کیونکہ ان دونوں کا معنی مختلف ہے۔ ان میں سے بعض نے ان تمام صورتوں میں رخصت دی ہے جبکہ وہ قراءت سے جاہل ہو اور جاہلوں کی ہی امامت کراتا ہو۔ عورت اور خنثیٰ مشکل، کافر اور مجنون اور ان پڑھ آدمی کی امامت جائز نہیں۔ اکثر علماء کے نزدیک ان لوگوں کا کسی صورت میں امامت کرانا جائز نہیں مگر ان پڑھ اپنے جیسوں کی امامت کرا سکتا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس ان پڑھ کی امامت صحیح نہیں جو قراءت اچھی طرح نہ کرسکتا ہو جبکہ کوئی قاری موجود ہو۔ امام شافعی کا یہی قول ہے۔ اگر ان پڑھ نے ان پڑھ کی امامت کرائی تو ہمارے نزدیک اور امام شافعی کے نزدیک صحیح ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : جب ان پڑھ شخص کسی ایسی قوم کی امامت کرائے جن میں پڑھے ہوئے بھی ہوں اور ان پڑھ بھی ہوں تو تمام کی نماز فاسد ہے۔ امام ابو یوسف نے اس کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : امام کی نماز اور جو قرآن نہیں پڑھ سکتے ان کی نماز ہوجائے گی۔ ایک گروہ نے فرمایا : ان سب کی نماز جائز ہے کیونکہ ہر ایک اپنا فرض ادا کرنے والا ہے اور و ذلک مثل المتیم یصلی بالمتطھرین بالماء، والمصلی قاعداً یصلی بقوم قیام صلاتھم مجزئۃ فی قول من خالفنا، لأن مؤد فرض نفسہ۔ میں کہتا ہوں : اس قول کی تائید میں نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے بھی حجت پکڑی جاتی ہے “ کیا نمازی نہیں دیکھتا جب وہ نماز پڑھتا ہے، کیسے وہ نماز پڑھتا ہے وہ اپنے لئے نماز پڑھتا ہے (
1
) ” مسلم نے اس حدیث کو نقل کیا ہے۔ مقتدی کی نماز امام کی نماز کے ساتھ مربوط نہیں۔ واللہ اعلم۔۔۔۔ عطا بن ابی رباح فرماتے تھے : جب عورت پڑھی ہوئی ہو تو امام تکبیر کہے اور عورت قراءت کرے جب وہ قراءت سے فارغ ہو تو تکبیر کہے اور رکوع اور سجدہ کرے دراں حالیکہ عورت مرد کے پیچھے ہو اسی قسم کا مفہوم حضرت قتادہ سے بھی مروی ہے۔ مسئلہ نمبر
18
: اندھے، لنگڑے، اشل، ہاتھ یا پاؤں کٹے ہوئے، خصی اور غلام کی امامت میں کوئی حرج نہیں جبکہ ان میں سے ہر شخص نماز کا عالم ہو۔ ابن وہب نے فرمایا : میں نہیں دیکھتا کہ ہاتھ یا پاؤں کٹا ہوا شخص اور اشل امامت کرائے کیونکہ وہ درجہ کمال سے ناقص ہے۔ میں اس کی امامت اس کی کمی اور نقص کی وجہ سے ناپسند کرتا ہوں۔ جمہور علماء نے ان کی مخالفت کی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ کسی عضو کا فقدان نماز کے فروض میں سے کسی فرض سے مانع نہیں ہے۔ پس اس عضو کے نہ ہوتے ہوئے بھی ہمیشہ کی امامت جائز ہے جیسے آنکھ نہ ہو تو امامت جائز ہوتی ہے۔ حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ابن ام مکتوم کو خلیفہ بنایا جو لوگوں کی امامت کراتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے (
2
) ۔ اسی طرح لنگڑے، ہاتھ کٹے ہوئے، اشل اور خصی کا قیاساً اور نظراً یہی حکم ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نابینے شخص کے بارے میں فرمایا انہیں اس سے کیا حاجت ہے ؟ (یعنی لوگ ان کے بارے میں یہ مسئلہ کیوں پوچھتے ہیں) حضرت ابن عباس اور حضرت عتبان بن مالک دونوں امامت کراتے تھے اور دونوں نابینے تھے، اسی پر عام علماء کا فتویٰ ہے۔ مسئلہ نمبر
19
: ولد الزنا (حرامی) کی امامت میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک نے فرمایا : میں اس کا ہمیشہ امام ہونا ناپسند کرتا ہوں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے بھی اس کو ناپسند کیا ہے۔ حضرت عطا ابی رباح فرماتے تھے اسے امامت کرانی چاہئے جبکہ وہ پسندیدہ (نیک) شخص ہو۔ یہ حضرات حسن بصری زہری، نخعی، سفیان ثورمی، اوزاعی، احمد اور اسحاق کا قول ہے۔ اصحاب رائے (احناف) کے نزدیک ولد الزنا کے پیچھے نماز جائز ہے لیکن دوسرا شخص ان کے نزدیک بھی بہتر ہے۔ امام شافعی نے فرمایا : میں ایسے شخص کو مستقل امام بنانا ناپسند کرتا ہوں جس کا باپ معروف نہ ہو لیکن جس نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی جائز ہوگی۔ عیسیٰ بن دینار نے کہا : ولد الزنا کی امامت کے بارے امام مالک کے قول کو نہیں اپنا تا اس بچے پر والدین کے گناہ میں سے کچھ نہیں ہے، ابن عبد الحکم نے اسی طرح فرمایا جب کہ اس میں امامت کی اہلیت نہ ہو۔ ابن منذر نے کہا : ولد الزنا بھی رسول اللہ ﷺ کے عام ارشاد میں داخل ہے : یؤم القوم اقرءھم، (
1
) لوگوں میں امامت ان میں سے اچھا قاری کرائے۔ ابو عمر نے کہا : امامت کی شرط میں وارد آثار میں کوئی ایسا اثر نہیں ہے جو نسب کی رعایت پر دلالت کرے، ان سب آثار میں فقہ، قراءت اور دین کی صلاح کا ذکر ہے۔ مسئلہ نمبر
20
: رہا غلام تو امام بخاری نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا ہے، فرمایا : پہلے مہاجرین کا گروہ نبی کریم ﷺ کی آمد سے پہلے قبا کے مقام پر پہنچا تو اس کی امامت سالم کراتے تھے جو ابو حذیفہ کے غلام تھے اور انہیں قرآن زیادہ یاد تھا (
2
) ۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے، فرمایا : سالم جو ابو حذیفہ کے غلام تھے مہاجرین اولین اور نبی کریم ﷺ کے اصحاب کی قبا کی مسجد میں امامت کراتے تھے، ان لوگوں میں حضرت ابو بکر، عمر، زید، عامر بن ربیعہ وغیرہ موجود تھے (
3
) ۔ حضرت عائشہ کا غلام ذکوان قرآن سے دیکھ کر آپ کی امامت کراتا تھا (
4
) ۔ ابن منذر نے کہا : ابو سعید جو ابو اسید کے غلام تھے وہ رسول ﷺ کے اصحاب کی ایک جماعت کی امامت کراتے تھے ان صحابہ میں حضرات حذیفہ اور ابو مسعود بھی تھے۔ غلام کی امامت کی رخصت نخعی، شعبی، حسن بصری، حکم، ثوری، شافعی، احمد، اسحاق اور اصحاب رائے نے دی ہے۔ ابو مجلز نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ امام مالک نے فرمایا : غلام امامت نہ کرائے مگر یہ کہ وہ قاری ہو اور اس کے ساتھ جو آزاد لوگ ہوں وہ قراءت نہ کرسکتے ہوں لیکن عید اور جمعہ کی امامت غلام نہ کرائے۔ اوزاعی کے نزدیک جائز ہے اگر وہ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں۔ ابن منذر نے کہا : غلام بھی آپ ﷺ کے اس ارشاد میں داخل ہے : یؤم القوم اقرءھم امامت وہ کرائے جو ان میں سے زیادہ قراءت جانتا ہو۔ مسئکہ نمبر
21
: رہی عورت تو امام بخاری نے حضرت ابو بکرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : جب رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ اہل فارس نے بنت کسریٰ کو اپنی ملکہ بنایا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ قوم ہرگز کامیاب نہ ہوگی جنہوں نے اپنا والی عورت کو بنایا (
1
) ۔۔۔ ابو داؤد نے عبد الرحمٰن بن خلاد سے انہوں ام ورقہ بنت عبد اللہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ اس کی ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔ فرمایا : آپ ﷺ نے اس کے لئے ایک مؤذن مقرر فرمایا تھا جو اس کے لئے اذان دیتا تھا اور آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے۔ عبد الرحمن نے کہا : میں نے اس مؤذن ایک بوڑھا شخص دیکھا (
2
) ۔ ابن منذر اور شافعی نے کہا : مردوں میں سے جنہوں نے عورت کے پیچھے نماز پڑھی ان پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔ ابو ثور نے کہا : ان پر اعادہ واجب نہیں۔ یہ مزنی کے قول کا قیاس ہے۔ میں کہتا ہوں : ہمارے علماء نے فرمایا : عورت کی امامت، مردوں اور عورتوں کے لئے صحیح نہیں ہے۔ ابن ایمن نے عورتوں کے لئے عورت کی امامت کا جواز روایت کیا ہے۔ رہا خنثی مشکل، تو امام شافعی نے فرمایا : وہ مردوں کی امامت نہ کرائے عورتوں کی امامت کرائے۔ امام مالک نے فرمایا : وہ کسی حال میں امام نہیں بن سکتا۔ یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
22
: کافر جو شرع محمدیہ کا مخالف ہے جیسے یہودی اور نصرانی مسلمانوں کی امامت کرادے جبکہ مسلمانوں کو اس کے کفر کا علم نہ ہو تو امام شافعی اور احمد کہتے ہیں ان کی نماز جائز نہ ہوگی اور وہ نماز کا اعادہ کریں۔ یہ امام مالک اور ان کے اصحاب کا قول ہے کیونکہ وہ قربت کے اہل میں سے نہیں ہے۔ امام اوزاعی نے فرمایا : اسے سزا دی جائے گی۔ ابو ثور اور مزنی نے فرمایا : جس نے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھ لی اس پر اعادہ نہیں ہے اور وہ اپنی نماز کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوگا۔ یہ امام شافعی اور ابو ثور کے نزدیک ہے۔ امام احمد نے فرمایا : سے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر
23
: اہل بدعت جو خواہشات نفس کے پرستار ہیں جیسے معتزلہ، جہمیہ وغیرہ۔ تو امام بخاری نے حضرت حسن بصری سے روایت کیا ہے کہ تو نماز پڑھ لے، اس کی بدعت کا وبال اس پر ہے۔ امام احمد نے فرمایا : اہل ہواء میں سے کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھے جبکہ وہ اپنی خواہش (بدعت) کی طرف دعوت دینے والا ہو۔ امام مالک نے فرمایا : ظالم ائمہ کے پیچھے نماز پڑھ لے۔ اہل بدعت قدریہ وغیرہم کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔ ابن منذر نے کہا : ہر وہ شخص جس کی بدعت کفر کا موجب ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جس کی بدعت ایسی نہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز ہے اور ایسی صفت والے کو آگے کرنا جائز نہیں۔ مسئلہ نمبر
24
: اپنے اعضاء کے ساتھ فسق (گناہ) کرنے والا مثلاً زانی، شرابی اور اس جیسے شخص کی امامت میں اختلاف ہے۔ ابن حبیب نے فرمایا : جس نے شرابی کے پیچھے نماز پڑھی وہ نماز کو لوٹائے مگر یہ کہ وہ والی ہو جس کی اطاعت کی جاتی ہو۔ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر اعادہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ نشہ کی حالت میں ہو۔ یہ امام مالک کے ساتھیوں کا قول ہے جن سے میں ملا ہوں۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی حدیث سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ کوئی عورت مرد کی امامت نہ کرائے اور کوئی بدو مہاجر کی امامت نہ کرائے کوئی فاجر نیکوکار کی امامت نہ کرائے مگر یہ کہ وہ صاحب سلطنت ہو ”۔ ابو محمد عبد الحق نے فرمایا : یہ علی بن زید بن جدعان نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے۔ اکثر علماء علی بن زید کو ضعیف کہتے ہیں۔ دار قطنی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم کو اپنی نمازوں کو اچھا کرنا پسند ہے تو اپنے اچھے لوگوں کو (امامت کے لئے) آگے کرو۔ اس کی سند میں ابو الولید خالد بن اسماعیل مخزومی ہے جو ضعیف ہے۔ یہ دارقطنی کا قول ہے۔ ابو احمد بن عدی نے خالد کے بارے کہا : یہ مسلمانوں میں سے ثقہ لوگوں پر احادیث وضع کرتا تھا۔ اس کی یہ حدیث اس نے یہ ابن جریج سے انہوں نے عطا سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ دار قطنی نے سلام بن سلیمان عن عمر بن محمد بن واسع عن سعید بن جبیر عن ابن عمر کے سلسلہ سے روایت کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے امام اپنے عمدہ لوگوں کو بناؤ کیونکہ وہ تمہارے اور اللہ کے درمیان وفد ہیں (
1
) ۔ دارقطنی نے کہا : یہ عمر میرے نزدیک عمر بن یزید مدائن کا قاضی ہے اور سلام بن سلیمان بھی مدائن کا رہنے والا ہے۔ یہ قوی نہیں ہے۔ یہ عبد الحق نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر
25
: ائمہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے۔ پس اس سے اختلاف نہ کرو جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم کہو اللھم ربنا ولک الحمد اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو (
2
) ۔ علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے، جو رکوع کرے یا جھک جائے امام کے رکوع کرنے سے پہلے اور وہ یہ عمل جان بوجھ کر کرے۔ دو قول ہیں : ایک یہ ہے کہ ایسے شخص کی نماز فاسد ہے اگر اس نے یہ تمام نماز میں کیا یا اکثر نماز میں کیا۔ یہ اہل ظاہر کا قول ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے، سنید نے ذکر کیا ہے، فرمایا : میں نے حضرت ابن عمر کے پہلو میں نماز پڑھی۔ میں امام سے پہلے اٹھتا اور جھکتا تھا۔ جب حضرت ابن عمر نے سلام پھیرا تو حضرت ابن عمر نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مروڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ میں نے پوچھا : حضرت آپ کو کیا ہوا ؟ حضرت عبد اللہ بن عمر نے پوچھا : تو کون ہے ؟ میں نے کہا : فلاں ابن فلاں۔ پوچھا : تو سچے اہل بیت سے ہے تجھے صحیح نماز پڑھنے کون سی چیز مانع ہے ؟ میں نے کہا : تو نے مجھے اپنے پہلو میں نماز پڑھتے دیکھا نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں نے تجھے دیکھا تو امام سے پہلے اٹھتا اور جھکتا ہے اور اس کی نماز نہیں ہوتی جو امام کی مخالفت کرے۔ حسن بن حیی نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کرے پھر امام کے رکوع یا سجدہ کرنے سے پہلے سر اٹھا لے، تو اس کا رکوع و سجود شمار نہیں ہوگا اور اس کی نماز جائز نہ ہوگی۔ اکثر فقہاء نے فرمایا : جس نے ایسا کیا اس نے غلط کیا اور اس کی نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے اور نماز میں ائمہ کی اقتدا کرنا سنت حسنۃ ہے۔ پس جس نے اس کی مخالفت کی، اس کے بعد کہ اس نے اپنی نماز کا فرض، اس کی طہارت، رکوع، سجود اور دوسرے فرائض کے ساتھ ادا کردیا ہے تو اس پر اعادہ نہیں ہے اگرچہ اس نے اس کی بعض سنن کو ترک بھی کردیا ہو کیونکہ اگر وہ چاہتا تو منفرد بھی ادا کرسکتا تھا۔ پس اس نے یہ نماز اپنے امام سے پہلے پڑھ لی ہے تو جائز ہوگئی اور اس نے جو جماعت کو ترک کیا ہے وہ اس نے برا کیا ہے۔ علماء نے فرمایا : جو امام کی نماز میں داخل ہوا پھر اس نے امام کے ساتھ رکوع و سجود کیا جبکہ وہ ایک رکعت میں امام دوسری رکعت میں نہ تھا تو اس کی اقتدا صحیح ہے اگرچہ وہ امام سے پہلے اٹھتا ہے اور امام سے پہلے جھکتا ہے کیونکہ وہ امام کے رکوع کے ساتھ رکوع کرتا ہے اور امام کے سجدہ کے ساتھ سجدہ کرتا ہے اور اوپر اٹھتا ہے جبکہ اس میں وہ اس کی تبع میں ہے مگر وہ اپنے اس فعل میں گناہگار ہے کیونکہ مقتدی کے لئے یہ متفق علیہ سنت ہے اس نے اس کے خلاف کیا۔ میں کہتا ہوں : ابن عبد البر نے جو جمہور علماء سے نقل کیا ہے اس سے یہ شعور ملتا ہے کہ ان کے نزدیک مقتدی کی نماز، امام کی نماز سے مربوط نہیں ہے کیونکہ اتباع حسی اور شرعی مفقود ہے لیکن اکثر علماء کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ اثر ونظر کے اعتبار سے پہلا قول صحیح ہے۔ امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے اور اس کے افعال کی اقتدا کی جائے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی جاعلک للناس اماماً (البقرہ :
124
) یعنی لوگ آپ کی اقتدا کریں گے، اس آیت کا بیان آگے آئے گا۔ یہ امام کی لغت اور شرع میں حقیقت ہے۔ جس نے امام کی مخالفت کی اس نے اس کی پیروی نہیں کی۔ پھر نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ “ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو (
1
) ”۔ فا کے ساتھ ذکر فرمایا جو کسی کام کو پہلے کے بعد کیا جاتا ہے، اور نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مراد کو بیان کرنے والے ہیں۔ پھر نبی کریم ﷺ نے اس شخص کے لئے سخت وعید ذکر فرمائی جو رکوع امام سے پہلے کرتا ہے یا پہلے سر اٹھاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : کیا وہ شخص جو امام سے پہلے سر اٹھاتا ہے وہ ڈرتا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کی طرح پھیر دے یا اس کی صورت گدھے کی صورت میں بنا دے (
2
) ۔ یہ حدیث مؤطا، بخاری، مسلم، ابو دؤد وغیرہ نے نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا : اس کی پیشانی شیطان کے ہاتھ میں ہے (
3
) ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ ہر عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے (
4
) ”۔ پس جس نے جان بوجھ کر امام کی مخالفت کی یہ جانتے ہوئے کہ اسے امام کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اس کی مخالفت سے روکا گیا ہے تو اس نے نماز کو حقیری جانا اور اسے حکم دیا گیا تھا اس کی اس نے مخالفت کی۔ پس واجب ہے کہ اس کی وجہ نماز جائز نہ ہو۔ مسئلہ نمبر
26
: اگر بھول کر امام سے پہلے سر اٹھا لیا تو امام مالک (رح) نے فرمایا : بھولنے والے کے لئے سنت یہ ہے کہ جس نے رکوع یا سجود میں ایسا کیا وہ رکوع یا سجدہ کی طرف لوٹ جائے اور امام کا انتظار کرے جس نے ایسا کیا اس نے غلطی کی۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتدا کی جائے۔ پس اس پر اختلاف نہ کرو (
1
) ۔ ابن عبد البر نے کہا : امام مالک کے اس قول کا ظاہریہ ہے کہ جو جان بوجھ کر ایسا کرے اس پر اعادہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے فرمایا : جس نے ایسا کیا اس کی طرف سے خطا ہے اور بھولنے والے سے گناہ اٹھا لیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر
27
: یہ اختلاف تکبیر تحریمہ اور سلام کے علاوہ میں ہے۔ رہا سلام تو اس پر کلام پہلے گزر چکی ہے، رہی رکبیر تحریمہ تو جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ مقتدی کی تکبیر امام کی تکبیر کے بعد ہو۔ مگر امام شافعی سے ایک قول مروی ہے کہ وہ اپنے امام سے پہلے اگر تکبیر تحریمہ کہے گا تو پھر جائز ہوگی کیونکہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز کی طرف آئے جب تکبیر کہی تو واپس چلے گئے اور مقتدیوں کو اشارہ فرمایا : تم جیسے ہو اسی طرح ٹھہرے رہو۔ پھر آپ گھر چلے گئے پھر آئے جبکہ سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو فرمایا : میں جنبی تھا میں غسل کرنا بھول گیا تھا (
2
) اور حضرت انس کی حدیث میں ہے پھر آپ ﷺ نے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ تکبیر کہی۔ اس کا مزید بیان سورة نساء میں انشاء اللہ والا جنباً کے تحت آئے گا۔ مسئلہ نمبر
28
: مسلم نے حضرت ابو مسعود سے روایت کیا ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نماز میں ہمارے کندھوں کو چھوتے تھے اور فرماتے تھے : سیدھے ہوجاؤ اور اختلاف نہ کرو ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں گے تم میں سے میرے قریب صاحب عقل و دانش لوگ ہوں پھر وہ جو عقل وفکر میں ان کے قریب ہوں پھر وہ جو ان کے قریب ہوں (
3
) ۔ حضرت ابو مسعود نے فرمایا : آج تم پہلے سے زیادہ اختلاف کرتے ہو (یعنی تمہاری صفیں درست نہیں ہوتی ہیں) اور تم بازاروں میں آوازیں اونچی کرنے سے بچو اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد “ سیدھے ہو جاؤ ” یہ صفیں سیدھی کرنے کا حکم ہے خصوصاً پہلی صف جو امام کے قریب ہوتی ہے۔ اس کا بیان سورة الحجر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس حدیث کے معنی پر بھی توفیق الٰہی سے گفتگو ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ مسئلہ نمبر
29
: چونکہ نماز میں بیٹھنے کے متعلق آثار مختلف ہیں اس لئے علماء کا نماز میں بیٹھنے کی کیفیت میں بھی اختلاف ہے۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا : مصلی (نمازی) اپنی سرین زمین پر رکھے اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کرے اور بائیں پاؤں کو دوہرا کرے۔ اس کی وجہ وہ روایت ہے جو امام مالک نے مؤطا میں یحییٰ بن سعید سے روایت کی ہے کہ قاسم بن محمد نے انہیں تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ دکھایا تو انہوں نے اپنے دائیں پاؤں کو کھڑا کیا اور بائیں پاؤں کو دوہرا کیا اور وہ اپنی سرین کے بائیں حصہ پر بیٹھے اور اپنے پاؤں پر نہیں بیٹھے۔ پھر فرمایا : مجھے یہ طریقہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے دکھایا اور انہوں نے مجھے بیان کیا کہ ان کے والد (حضرت عمر) ایسا کرتے تھے۔ میں کہتا ہوں : یہ معنی مسلم کی صحیح میں بھی آیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نماز کا آغاز تکبیر سے اور قراءت کا آغاز الحمد للہ رب العلمین سے کرتے تھے اور جب رکوع کرتے تھے تو سر کو زیادہ بلند نہیں رکھتے تھے اور نہ زیادہ جھکاتے تھے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تھے تو دوسرا سجدہ نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ سیدھے بیٹھ جاتے تھے اور دو رکعتوں پر التحیات پڑھتے تھے اور اپنا بایاں پاؤں بچھاتے تھے اور دایاں پاؤں کھڑا کرتے تھے اور شیطان کی طرح ایڑیوں پر بیٹھنے سے منع فرماتے تھے اور منع فرماتے تھے کہ کوئی شخص اپنے بازو (زمین پر) پھیلائے اور نماز کا اختتام سلام سے کرتے تھے (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث کی وجہ سے۔۔۔۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔۔۔۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا : نماز کی سنت یہ ہے کہ دائیں پاؤں کو کھڑا کیا جائے اور بائیں کو بچھایا جائے۔ امام ثوری، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، حسن بن صالح بن حیی نے کہا : دائیں پاؤں کو کھڑا کرے اور بائیں پاؤں پر بیٹھے ان کی دلیل حضرت وائل بن حجر کی حدیث ہے۔ اسی طرح امام شافعی، احمد اور اسحاق نے درمیانے قعدہ میں بیٹھنے کو کہا ہے اور آخری قعدہ میں ظہر، عصر، مغرب یا عشاء میں ان کا قول امام مالک کے قول کے مطابق ہے۔ اس کی وجہ حضرت ابو حمید ساعدی کی حدیث ہے جسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ فرمایا : میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں کے برابر کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنے گھٹنوں کو پکڑتے پھر اپنی پیٹھ کو جھکاتے جب کھڑے تو سیدھے کھڑے ہوتے حتیٰ کہ ریڑھ کا ہر مہرہ اپنی جگہ پر آجاتا اور جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھ زمین پر رکھتے نہ تو بازؤوں کو زمین پر پھیلاتے اور نہ بازؤوں کو اکٹھا کرتے اور اپنے قدموں کی انگلیوں کی اطراف کو قبلہ کی طرف توجہ کرتے تھے جب (پہلی) دو رکعتوں پر بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے تو اپنے بائیں پاؤں کو آگے کرتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا کرتے اور اپنی سرین کے بل بیٹھتے (
2
) ۔ طبری نے کہا : اگر اس طرح کرے تو اچھا ہے بیٹھنے کے تمام طریقے نبی کریم ﷺ سے ثابت ہیں۔ مسئلہ نمبر
30
: مالک نے مسلم بن ابی مریم سے انہوں نے علی بن عبد الرحمٰن المعاوی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : حضرت عبد اللہ بن عمر نے مجھے دیکھا جب میں نماز میں کنکریوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو مجھے منع فرمایا اور فرمایا : اس طرح کیا کرو جس طرح رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کیسے کرتے تھے ؟ فرمایا : جب آپ نماز بیٹھتے تھے تو اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے تھے اور اپنی تمام انگلیوں کو بند کرتے تھے اور انگوٹھے سے ملی ہوئی انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے تھے اور اپنی بائیں ہتھیلی اور اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے اور فرمایا : آپ اسی طرح کرتے تھے۔ ابن عبد البر نے کہا : حضرت ابن عمر نے جو یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ اپنی دائیں ہتھیلی اپنی دائیں ران پر رکھتے تھے اور اپنے ہاتھ کی تمام انگلیوں کو بند کردیتے تھے سوائے سبابہ کے اس کے ساتھ آپ اشارہ فرماتے تھے اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے تھے ہاتھ کی انگلیاں کھلی ہوتی تھی۔ یہ نماز میں بیٹھنے کا سنت طریقہ ہے اس پر اجماع ہے۔ میری معلومات کے مطابق علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور تیرے لئے یہ کافی ہے لیکن سبابہ انگلی کو حرکت دینے میں اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : انگلی کو حرکت دینی چاہئے اور بعض نے کہا : حرکت نہیں دینی چاہئے۔ یہ تمام نبی کریم ﷺ سے صحیح آثار کے ذریعے مروی ہیں اور ہر صورت مباح ہے۔ الحمد للہ۔ سفیان بن عینیہ نے یہ حدیث مسلم بن ابی مریم سے روایت کی ہے جو اس حدیث کے ہم معنی ہے جو امام مالک نے روایت کیا ہے اس میں کچھ زائد ہے۔ سفیان نے کہا : یحییٰ بن سعید ہمیں بیان فرماتے تھے اور وہ مسلم سے روایت فرماتے تھے پھر میں ان سے ملا تو میں نے ان سے سنا اور انہوں نے مجھے یہ زائد فرمایا : یہ انگلی کا حرکت دینا شیطان کو دور کرنا ہے تم میں سے کوئی بھولے گا نہیں جب تک وہ انگلی سے اشارہ کرتا رہے گا اور وہ اس طرح کہے گا۔ میں کہتا ہوں : ابو داؤد نے حضرت ابن زبیر کی حدیث میں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب دعا کرتے تھے تو اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔ یہی بعض عراقی علماء کا نظریہ ہے اور انہوں نے انگلی کو حرکت دینے سے منع کیا۔ ہمارے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ انگلی کو اٹھانا یہ ہمیشہ کی توحید کی طرف اشارہ ہے۔ امام مالک کے اصحاب وغیرہم میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ انگلی کو حرکت دے مگر علماء کا متواتر حرکت دینے میں اختلاف ہے۔ اس کے متعلق علماء کے دو اقوال ہیں : جو متواتر حرکت دینے کے قائل ہیں انہوں نے اس طرح تاویل کی ہے کہ یہ حرکت دینا نماز میں متواتر حضور کو یاد دلاتی ہے کیونکہ یہ شیطان کو بھگاتی ہے اور اسے دور کرتی ہے جیسا کہ سفیان نے روایت کیا ہے اور جو کلمہ شہادت کے تلفظ کے وقت انگلی کو متواتر حرکت دینے کے قائل نہیں ہیں وہ حرکت میں تاویل کرتے ہیں گویا وہ اپنی اس انگلی کے ساتھ توحید کی گواہی دے رہا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
31
: نماز میں عورت کے بیٹھنے کے بارے میں اختلاف ہے، امام نے فرمایا : یہ مرد کی طرح ہے، اور یہ احرام کے بعد لباس اور بلند آواز سے تہلیل کہنے کے علاوہ کسی معاملے میں مرد سے مختلف نہیں۔ امام ثوری نے کہا : عورت ایک جانب سے اپنی چادر کا سدل کرے گی۔ انہوں نے یہ حضرت ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب نے فرمایا : عورت کے لئے جس طرح آسان ہوگا وہ اس طرح بیٹھے گی۔ یہ شعبی کا قول ہے : وہ بیٹھے گی جس طرح اس کے لئے آسان ہو۔ امام شافعی نے فرمایا : عورت اس طرح بیٹھے گی جس میں اس کے لئے پردہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر
32
: مسلم نے حضرت طاؤس سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نے حضرت ابن عباس سے قدموں پر بیٹھنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : یہ سنت ہے (
1
) ۔ ہم نے حضرت ابن عباس سے کہا : ہم تو اسے آدمی کے لئے جفا دیکھتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : نہیں بلکہ یہ تمہارے نبی کریم ﷺ کی سنت ہے پھر علماء کا اقعا کی صفت میں اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے۔ ابو عبید نے کہا : اقعایہ ہے کہ آدمی اپنی سیرین کے بل بیٹھے جبکہ رانیں کھڑی کئے ہوئے ہو جیسے کتا اور درندہ بیٹھتا ہے۔ ابن عبد البر نے کہا : یہ اقعا مجمع علیہ ہے اس میں علماء کا اختلاف نہیں یہ اہل لغت اور فقہاء کے ایک گروہ کی تفسیر ہے۔ ابو عبید نے کہا : رہے اہل حدیث وہ اقعایہ بتاتے ہیں کہ انسان اپنی سرین دو سجدوں کے درمیان اپنی ایڑیوں پر رکھے۔ قاضی عیاض نے کہا : میرے نزدیک بہتر اقعا کی تاویل جس کے بارے میں حضرت ابن عباس نے فرمایا یہ سنت وہ ہے جس کی تفسیر فقہاء نے دو سجدوں کے درمیان ایڑیوں پر بیٹھنے سے کی ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر ملتی ہے کہ سنت یہ ہے کہ تیری ایڑیاں تیری سرین کو چھوئیں۔ ابراہیم بن میسرہ نے طاؤس سے اور انہوں نے حضرت حضرت ابن عباس سے یہ روایت کیا ہے۔ ابو عمر نے اس کا ذکر کیا ہے۔ قاضی نے فرمایا : سلف اور صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ وہ ایسا کرتے تھے مگر عام فقہاء نے یہ نہیں کہا ہے وہ اسے اقعا کا نام دیتے ہیں۔ عبد الرزاق نے معمر سے انہوں نے ابن طاؤس سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرات ابن عمر، ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ دو سجدوں کے درمیان اقعا کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر
33
: جن علماء نے سلام کے وجوب اور عدم وجوب کا قول کیا ہے ان کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ دوسرا سلام فرض نہیں ہے مگر حسن بن حیی سے مروی ہے کہ انہوں نے دونوں سلاموں کو واجب قرار دیا ہے۔ ابو جعفر طحاوی نے فرمایا : ہم نے اہل علم میں سے کسی کو نہیں پایا کہ وہ دوسرے سلام کو نماز کے فرائض سے سمجھتے ہوں۔ ابن عبد البر نے کہا : حسن بن حیی کی دونوں سلاموں کے وجوب کی دلیل یہ ہے، فرماتے ہیں : اگر پہلے سلام کے بعد کسی کو حدث لاحق ہوجائے جبکہ ابھی دوسرا سلام نہ پھیرا ہو تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : نماز کی تحلیل سلام ہے پھر سلام کی کیفیت بیان فرمائی کہ وہ دائیں اور بائیں طرف سلام پھیرے اور ایک سلام کو واجب کہنے والوں کی حجت میں سے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے : تحلیلھا التسلیم۔ یعنی نماز کی تحلیل سلام ہے۔ علماء فرماتے ہیں : ایک سلام پر تسلیم کا اطلاق ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ مسئلہ اس اصل پر مبنی ہے کہ کم از کم اسم کو لیا جائے یا تمام کو لیا جائے۔ جب بالاجماع نماز میں داخل ہونا ایک تکبیر کے ساتھ ہے تو نماز سے نکلنا بھی ایک سلام کے ساتھ ہے مگر سنن ثابتہ وارد ہیں۔ مثلاً حضرت ابن مسعود کی حدیث، حضرت وائل بن حجر حضرمی کی حدیث، حضرت عمار کی حدیث، حضرات براء بن عازب کی حدیث، حضرت ابن عمر کی حدیث، حضرت سعد بن ابی وقاص کی حدیث۔۔۔ کہ نبی کریم ﷺ دو سلام پھیرتے تھے (
1
) ۔ ابن جریج، سلیمان بن بلال، عبد العزیز ابن محمد در اور دی یہ تمام عمرو بن یحییٰ امازنی سے وہ محمد بن یحییٰ حبان سے وہ اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کرتے ہیں، فرمایا : میں نے حضرت ابن عمر سے کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ بتائیں کہ وہ کیسے تھا ؟ حضرت عبد اللہ بند عمر نے تکبیر کا ذکر کیا جب آپ سر اٹھاتے تھے اور جب بھی سر کو پست کرتے تھے اور دائیں طرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور بائیں طرف بھی السلام علیکم ورحمۃ کا ذکر فرمایا۔ ابن عبد البر نے کہا : یہ اسناد مدنی صحیح ہے اور مدینہ طیبہ میں مشہور عمل ایک سلام ہے۔ اہل مدینہ یہ عمل نسل در نسل کرتے آرہے ہیں۔ اس کی مثل سے ہر شہر میں عمل کے ساتھ احتجاج صحیح ہے کیونکہ ہر روز کئی مرتبہ واقع ہونے کی وجہ سے وہ عمل مخفی نہیں رہتا۔ اسی طرح کوفہ وغیرہ میں بھی دو سلاموں پر عمل ہے اور یہ ان کے نزدیک متوارث ہے ہر عمل میں جو اس طرح جاری ہو تو وہ مباح میں اختلاف ہوتا ہے جیسے اذان۔ اسی طرح حجاز، عراق، شام اور مصر کے کسی عالم سے ایک سلام اور دو سلاموں کا انکار مروی نہیں بلکہ ان کے نزدیک سلام معروف ہے۔ ایک سلام والی حدیث کو حضرات سعد بن ابی وقاص، عائشہ، انس ؓ نے روایت کیا ہے مگر وہ معلول ہے محدثین اسے صحیح قرار نہیں دیتے۔ مسئلہ نمبر
34
: دار قطنی نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے، فرمایا : سنت یہ ہے کہ التحیات آہستہ پڑھا جائے۔ حضرت امام مالک نے حضرت عمر کے تشہد کو اختیار فرمایا۔ وہ یہ ہے کہ التحیات اللہ الزاکیات للہ الطیبات الصلوات للہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد الصالحین، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد محمداً عبدہ ورسولہ (
1
) ۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب، لیث بن سعد نے حضرت ابن عباس کا تشہد اختیار کیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ ہمیں تشہد سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے تھے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین، اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً رسول اللہ (
2
) ۔ ثوری کوفی علماء اور اکثر اہل حدیث نے حضرت ابن مسعود کا تشہد اختیار کیا ہے جو مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا : نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے یہ کہتے تھے : السلام علی اللہ السلام علی فلان، رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا : بیشک اللہ ہی السلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو اس طرح کہے : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔۔۔ جب یہ کہے گا تو ہر عبد صالح کو سلام پہنچ جائے گا جو بھی آسمان اور زمین میں ہوگا۔۔۔۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ پھر اسے اختیار ہے جو چاہے اللہ تعالیٰ سے سوال کرے (
3
) ۔ امام احمد، اسحاق اور داؤد کا یہی قول ہے۔ احمد بن خالد نے اندلس میں اسی کو اختیار فرمایا اور اسی کی طرف میلان کیا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے مرفوعاً اور موقوفاً حضرت ابن مسعود کے تشہد جیسا مروی ہے۔ یہ سب اختلاف مباح میں ہے اس میں سے کوئی چیز واجب نہیں الحمد للہ وحدہ یہ تمام احکام امام اور مقتدی کے تھے جن کو وراکعوا مع الرکعین۔ (البقرہ) کا ارشاد اپنے ضمن میں لئے ہوئے تھا اور نماز میں قیام کا ذکر قوموا للہ قنتین۔ (البقرہ) کے تحت آئے گا۔ مریض امام کا حکم اور نماز کے دوسرے احکام بھی وہاں بیان ہوں گے اور امام کے علاوہ مریض کی نماز کا حکم سورة آل عمران میں آئے گا اور نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کا حکم صلوٰۃ خوف کے ضمن میں آئے گا۔ اور سورة مریم میں اس امام کا حکم جو مقتدی سے بلند ہو کر نماز پڑھتا ہے اور اس کے علاوہ نماز کے اوقات، اذان، مساجد کے احکامات وغیرہ بیان ہوں گے۔ یہ سب واقیموا الصلوٰۃ کے ارشاد کا بیان ہے۔ سورت کی ابتدا میں نماز کے جملہ احکام بیان ہوچکے ہیں۔
Top