Jawahir-ul-Quran - An-Nahl : 53
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْهِ تَجْئَرُوْنَۚ
وَمَا : اور جو بِكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ نِّعْمَةٍ : کوئی نعمت فَمِنَ اللّٰهِ : اللہ کی طرف سے ثُمَّ : پھر اِذَا : جب مَسَّكُمُ : تمہیں پہنچتی ہے الضُّرُّ : تکلیف فَاِلَيْهِ : تو اس کی طرف تَجْئَرُوْنَ : تم روتے (چلاتے) ہو
اور جو کچھ تمہارے پاس ہے نعمت38 سو اللہ کی طرف سے پھر جب پہنچتی ہے تم کو سختی تو اسی کی طرف چلاتے ہو (اسی سے فریاد کرتے ہو)
38:۔ یہ امتنان ہے بطور زجر۔ چاہئے تو یہ تھا کہ تمہاری امیدیں اور تمہارا خوف اللہ تعالیٰ ہی سے وابستہ ہوتا۔ کیونکہ دلائل سے ثابت ہوگیا کہ سب کچھ کرنیوالا اور سب کچھ دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تم غور کرو تمہارے پاس جس قدر بھی نعمتیں ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں اور جب تم پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو۔ ” ” ثُمَّ اِذَا كشَف الخ “ پھر جب وہ اپنی مہربانی سے تمہاری مشکلات آسان اور اور تمہاری تکالیف دور فرما دیتا ہے تو تم میں سے بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کو غیر اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ اگر اللہ نے فرزند عطا فرمادیا تو لگے کہنے فلاں بزرگ کی نذر مانی تھی اس لیے بیٹا ہوا یا فلاں بزرگ کے مزار سے مٹی لا کر مریض کو پلائی تھی تو وہ چنگا بھلا ہوگیا وغیرہ۔ والفریق ھنا ھم المشرکون المعتقدون حالۃ الرجاء ان الھتم تنفع و تضر و تشفی (بحر ج 5 ص 502) سید محمود آلوسی حنفی فرماتے ہیں کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ آجکل اپنی حاجتوں اور مصیبتوں میں غیر اللہ کی پناہ ڈھونڈتے ہیں ان کی گمراہی تو پہلے گمراہوں سے بھی بد تر ہے۔ وفی الایۃ ما یدل علی ان صنیع اکثر العوام الیوم من الجوار الی غیرہ تعالیٰ ممن لا یملک لہم بل ولا لنفسہ نفعاً ولا ضرا عند اصابۃ الضر لہم واعراضھم عن دعائہ تعالیٰ عند ذلک بالکلیۃ سفہ عظیم و ضلال جدید لکنہ اشد من الضلال القدیم (روح ج 14 ص 166) ۔
Top