Jawahir-ul-Quran - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں ڈرتا ہوں6 بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور عورت میری بانجھ ہے سو بخش تو مجھ کو اپنے پاس سے ایک کام اٹھانے والا
6:۔ موالی سے ان کی عصبات اور بنو العم مراد ہیں۔ یہ لوگ بےدین تھے اس لیے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے نیک فرزند کے لیے دعا کی تاکہ وہ ان کے بعد دعوت دین کے کام کو جاری رکھے۔ انما کان موالیہ مھملین للدین فخاف بموتہ ان یضیع الدین فطلب ولیا یقوم بالدین بعدہ (قرطبی ج 11 ص 78) ۔ ” یرثنی و یرث من ال یعقوب الخ “ یہاں وراثت سے وراثت علم نبوت مراد ہے نہ کہ وراثت مال کیونکہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے ترکہ میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ ان کا ترکہ قومی ملکیت ہوتا ہے۔ ای یرثنی من حیث العلم والدین والنبوۃ فان الانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام لا یورثون المال قال ﷺ نحن معاشر الانبیاء لا نورث ماتکرناہ صدقۃ (ابو السعود ج 5 ص 767) ۔ اگر یہاں وراثت مال مراد ہوتی۔ جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں۔ تو پھر من آل یعقوب کہنے کی کیا ضرورت تھی کیونکہ آل یعقوب کے مال کے وارث اور بہت سے موجود تھے۔ اس لیے مطلب یہ ہے کہ ایسا بیٹا عطا کر جو میرے اور آل یعقوب کے علوم نبوت کا وارث ہو۔ ” سمیا “ یعنی ہم نام یا ہم صفت اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کو خوشخبری دی میں تمہیں ایک فرزند عطا کروں گا جس کا نام یحییٰ ہوگا اس سے پہلے اس نام کا کوئی آدمی نہیں ہوا یا ایسی خوبیوں والا کوئی نہیں گذرا۔
Top