Mualim-ul-Irfan - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور تحقیق میں خوف کھاتا ہوں اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور میری عورت بانجھ ہے پس مجھے عطا کر اپنی طرف سے جانشین ۔
(حضرت زکریا کی دعا) گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں ہاتھ پھیلائے تھے کہ مولا کریم ! میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں اور سر سفید ہوگیا ہے ، میں قبولیت دعا سے کبھی محروم نہیں رہا ، لہذا میں امید رکھتا ہوں کہ تو میری دعا کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا آپ کی یہ دعا اولاد کے لیے تھی عرض کیا پروردگار (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآء ی “۔ بیشک میں اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں سے خوف کھاتا ہوں ۔ موالی جمع ہے مولی کی ، یہ لفظ عربی زبان میں بہت سے معافی میں استعمال ہوتا ہے ، صاحب قاموس نے اس لفظ کے پچیس معنی لکھے ہیں جن میں غلام ، آزاد شدہ غلام ، غلام آزاد کرنے والا ، رفیق ، ساتھی آقا اور چچا زاد بھائی وغیرہ شامل ہیں ، یہ مشترک لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ، استاد کے لیے اور پیغمبر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، تاہم اس موالی سے مراد چچا زاد بھائی ہیں ۔ زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا ، کہ میں اپنے بھائی بندوں یعنی قرابت داروں سے خوف کھاتا ہوں کہ میری بعد وہ میرے دینی مشن کو صحیح طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکیں گے ، وہ نالائق ہیں اور میری نیابت کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکیں گے اور دوسری بات یہ ہے (آیت) ” وکانت امراتی عاقرا “۔ اور میری عورت بانجھ ہے ، وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں جس کی وجہ سے میں ساری عمر اولاد سے محروم رہا ہوں میری التجا ہے (آیت) ” فھب لی من لدنک ولیا “ کہ مجھے اپنی طرف سے جانشین عطا فرما ، ولی کا معنی کارساز بھی ہوتا ہے اور قرابت دار بھی ، تاہم یہاں پر جانشین مراد ہے جو میرے بعد میرا فرض دین ادا کرسکے ، (آیت) ” یرثنی “ جو میرا وارث ہو (آیت) ” ویرث من ال یعقوب “۔ اور تمام ال یعقوب کا وارث ہو (آیت) ” یرث “ کا معنی مورث کے مال پر قابض ہونا ہے ، اللہ نے سورة النساء میں وراثت کا تفصیلی قانون بیان فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تو اس کے ترکہ کے وارث کون کون عزیز و اقارب ہوتے ہیں ۔ (مسئلہ وراثت اور شیعہ حضرات) تمام اہل سنت کے نزدیک نبی اور امتی کی وراثت میں فرق ہے ہر امتی جو بھی کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے ، اس کے وارث بمطابق احکامات الہیہ اس کی اولاد اور دیگر عزیز و اقارب ہوتے ہیں جب کہ نبی کی فوتیدگی کے بعد اس کے مال کے وارث اس کے عزیز نہیں ہوتے بلکہ اگر کوئی مال موجود ہو تو وہ صدقہ ہوتا ہے برخلاف اس کے رافضی اور شیعہ وراثت کے معاملہ میں نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ امتیوں کے قانون وارثت کو نبی کی وراثت پر بھی نافذ العمل سمجھتے ہیں وہ اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر قرآن پاک کی تین آیات پیش کرتے ہیں ایک ، آیت تو یہی ہے جو زیر درس ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی مولا کریم ! مجھے ایک جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ، دوسری آیت (آیت) ” وررث سلیمن داود “۔ (النمل 27) ہے جس کا معنی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) ، داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے شیعہ حضرات تیسری آیت سورة النساء کی پیش کرتے ہیں (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “۔ (آیت 11) اولاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حاکم دیتا ہے کہ وراثت اسی طرح تقسیم کرو کہ ہر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو ، کہتے ہیں کہ ان آیات سے انبیاء کی وراثت ثابت ہوتی ہے اور اسی بناء پر حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے حضور ﷺ کی وراثت کا مطالبہ کیا تھا ، مگر آپ نے انکار کردیا ، شیعہ حضرات کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو برا بھلا کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ (صحیح صورت حال) اس مسئلہ کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مال و دولت میں وراثت نہیں ہوتی جس کا ثبوت خود حضور ﷺ کا یہ فرمان ہے ” نحن معشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ “۔ ہم گروہ انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے بلکہ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں ، وہ صدقہ ہوتا ہے ، اس حدیث کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی کثیر جماعت نے نقل کیا ہے جس میں خلفائے راشدین کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور عشرہ مبشرہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین شامل ہیں ، اس راویت کے راویوں میں حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ بھی شامل ہیں جو کہ اہل بیت میں سے ہیں حضرت عمر ؓ نے ان دو بزرگوں سے خدا تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم اس حدیث مبارک کو جانتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم نے یہ حدیث حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سنی ہے : اس سے معلوم ہوا شیعہ حضرات کا استدلال سورة نساء کی مذکورہ آیت سے درست نہیں ہے کیونکہ اس سورة میں بیان کردہ وراثت کا پورا قانون امت کے لیے ہے اور نبی کی ذات اس سے مستثنی ہے ، پیغمبر (علیہ السلام) کے بعض احکام سے استثناء کی بعض دوسری مثالیں بھی موجودہ ہیں مثلا سورة نساء کی آیت 30 میں (آیت) ” فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی او ثلث وربع “۔ مسلمانوں مردوں کی دو دو ، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے بظاہر یہ حکم عام ہے اور اس میں نبی اور امتی سب شامل ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نبی کی ذات اس حکم سے مستثنی ہے جیسا کہ سورة احزاب سے متبادر ہے حضور ﷺ نے زندی میں کل گیارہ عورتوں سے نکاح کیا ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے ایک موقع پر حضرت ابوبکر ؓ سے اپنے باپ کی وراثت کا ضرور مطالبہ کیا تھا انہوں نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے پوچھا کہ آپ کے بعد آپ کا وارث کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا میری اولاد ، اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ پھر میرے باپ کی وراثت مجھے ملنی چاہئے اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وہی حدیث پیش کی جس میں آپ کا فرمان ہے کہ ہم نبیوں کا گروہ کسی کو وارث نہیں بناتے بلکہ ہمارا جو مال بچ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے ، اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے کہا ” فانت اعلم ما سمعت من رسول اللہ ﷺ “۔ یعنی جو بات آپ نے حضور ﷺ کی زبان اقدس سے سنی ہے اس کو آپ بہتر جانتے ہیں یہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئیں ، اور اس کے بعد وراثت کا مطالبہ نہیں کیا ۔ مسئلہ یہی ہے کہ نبی خود تو وارث ہوتا ہے مگر کسی دوسرے کو اپنا وارث نہیں بناتا ، خود حضور ﷺ کو اپنے باپ کی وراثت سے ایک خچر ، ایک لونڈی ، ام ایمن اور کچھ دوسرا سامان ملا تھا جس کا ذکر صاحب طبقات ابن سعد اور دیگر سیرت نگار حضرات نے کیا ہے حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں (1) (ترمذی ص 98 ج 2) (فیاض) ہیں کہ گروہ انبیاء ” یورث درھما ولا دینارا “۔ روپے پیسے کو وارث نہیں بنایا کرتے ۔ ” انما ورثوا العلم “۔ بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں (آیت) ” فمن اخذہ اخذ بحظ وافر “۔ جس نے یہ چیز لے لی اس نے وراثت کا بڑا حصہ کرلی گویا نبی کا مال واسباب تو صدقہ ہوتا ہے البتہ علم کی وراثت میں جو کوئی جتنا چاہے حصہ حاصل کرلے ۔ جہاں تک آیت زیر درس میں زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا تعلق ہے کہ آپ نے درخواست کی کہ مولا کریم ! مجھے جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ، تو اس سے بھی جائداد کی وراثت مراد نہیں بلکہ علمی نیابت مراد ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) مزدور پیشہ آدمی تھے بڑھئی کا کام کرکے بمشکل زندگی میں گزر اوقات کرتے تھے وہ کوئی لمبی چوڑی جائداد کے مالک نہیں تھجے جس کی انہیں فکر تھی کہ ان کے بعد اس کو کون سنبھالے گا ، ان کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ایسا جانشین عطا فرما جو ان کے بعد تبلیغ دین کا کام کرسکے ، دوسری بات یہ ہے کہ پوری آل یعقوب کا وارث ایک شخص تو نہیں ہو سکتا مال و دولت کا وارث تو قریبی عزیز ہی ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ایک شخص جس کے لیے زکریا (علیہ السلام) دعا کر رہے ہیں یہ بھی قرینہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کی مراد جائداد کی وراثت نہیں تھی بلکہ پوری آل یعقوب کی علمی وراثت مراد تھی ۔ سورة نمل کی جس آیت میں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث بنے تو اس سے بھی علمی وارثت مراد ہے نہ کہ مال و دولت اگر اس سے مادی وراثت مراد ہو تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ اٹھارہ بیٹے اور بھی تھے ، اس معاملہ میں صرف ایک بیٹے کو وارث بنانا اور باقی اٹھارہ کو محروم کر دینتا تو کسی طرح قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا ، اصل بات یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ حضرت دؤاد (علیہ السلام) کے باقی بیٹے اس قابل نہیں تھے کہ وہ آپ کی علمی وراثت کے وارث بنتے ، اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بار خلافت اٹھانے کے قابل تھے چناچہ باپ کی وفات کے بعد صرف تیرہ سال کی عمر میں آپ اپنے باپ کے جانشین بنے آپ نبی اور صاحب صحیفہ رسول تھے ، اللہ نے آپ کو بےمثال سلطنت عطا فرمائی یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وراثت علمی تھی نہ کہ مالی ۔ قرآن پاک میں وراثت کا لفظ کتاب کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسے (آیت) ” وان الذین اور ثوا الکتب “۔ (الشورہ ۔ 14) یعنی ہو لوگ جو کتاب کے وارث بنے ، دوسری جگہ ہے (آیت) ” ثم اور ثنا الکتب “۔ (فاطر ۔ 22) پھر ہم نے لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کے آگے تین گروہ بن گئے ایک گروہ صادقین کا ، دوسرا میانہ روی والا اور تیسرا ظلم کرنے والوں کا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! ” قوموا علی شعآئرکم لانکم علی ارث من ابیکم ابرھیم “۔ حج کے شعائر پر کھڑے ہوجاؤ کیونکہ تم اپنے جدا امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت پر ہو ، ابراہیم (علیہ السلام) حج کے لیے منی ، مزدلفہ اور عرفات میں گئے ، انہوں نے قربانی کی اور طواف کیا چونکہ تم ان کی وراثت پر ہو ، لہذا تم بھی یہی کام کرو ، یہاں پر وراثت سے مراد مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ دینی اور ملی وراثت ہے ، عربوں کے محاورے میں وراثت کا لفظ بزرگی پر بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسے عرب کہتے ہیں ” ورثنا المجد “ یعنی ہم اپنے آباء وجداد کی بزرگی کے وارث بنے ہیں ، مقصد یہ کہ وراثت کا اطلاق مال کے علاوہ دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے اور آیت زیر درس میں زکریا (علیہ السلام) کی وراثت سے مراد ان کی دینی خلافت ہے نہ کہ مال و دولت مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ زکریا (علیہ السلام) حبر اور عالم تھے تو اس مقام پر اس کی حبورت اور علمیت کی جانشینی مراد ہے ان تمام قرائن کی موجودگی میں شیعہ کا وراثت سے متعلق استدلال درست نہیں ہے ۔ زکریا (علیہ السلام) نے دعا میں یہ بھی عرض کیا (آیت) ” واجعلہ رب رضیا “۔ اے پروردگار ! میرے جانشین کو پسندیدہ بھی بنا دے کیونکہ اچھے اخلاق کے حامل لوگ ہی دنیا میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور اپنے مشن کو آگے چلا سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ کو بلند ترین اخلاق کا حامل قرار دیا (آیت) ” وانک لعلی خلق عظیم “۔ (القلم : 4) بیشک آپ خلق عظیم پر ہیں نبیوں کا اخلاق ہمیشہ معیاری ہوتا ہے ان کا قول ، فعل اور عمل ہر لحاظ سے پسندیدہ ہوتا ہے تو زکریا (علیہ السلام) نے اپنے جانشین کے لیے بھی اعلی اخلاق کی دعا کی ۔
Top