Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ
: اور البتہ میں
خِفْتُ
: ڈرتا ہوں
الْمَوَالِيَ
: اپنے رشتے دار
مِنْ وَّرَآءِيْ
: اپنے بعد
وَكَانَتِ
: اور ہے
امْرَاَتِيْ
: میری بیوی
عَاقِرًا
: بانجھ
فَهَبْ لِيْ
: تو مجھے عطا کر
مِنْ لَّدُنْكَ
: اپنے پاس سے
وَلِيًّا
: ایک وارث
اور تحقیق میں خوف کھاتا ہوں اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور میری عورت بانجھ ہے پس مجھے عطا کر اپنی طرف سے جانشین ۔
(حضرت زکریا کی دعا) گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں ہاتھ پھیلائے تھے کہ مولا کریم ! میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں اور سر سفید ہوگیا ہے ، میں قبولیت دعا سے کبھی محروم نہیں رہا ، لہذا میں امید رکھتا ہوں کہ تو میری دعا کو ضرور شرف قبولیت بخشے گا آپ کی یہ دعا اولاد کے لیے تھی عرض کیا پروردگار (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآء ی “۔ بیشک میں اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں سے خوف کھاتا ہوں ۔ موالی جمع ہے مولی کی ، یہ لفظ عربی زبان میں بہت سے معافی میں استعمال ہوتا ہے ، صاحب قاموس نے اس لفظ کے پچیس معنی لکھے ہیں جن میں غلام ، آزاد شدہ غلام ، غلام آزاد کرنے والا ، رفیق ، ساتھی آقا اور چچا زاد بھائی وغیرہ شامل ہیں ، یہ مشترک لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ، استاد کے لیے اور پیغمبر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، تاہم اس موالی سے مراد چچا زاد بھائی ہیں ۔ زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا ، کہ میں اپنے بھائی بندوں یعنی قرابت داروں سے خوف کھاتا ہوں کہ میری بعد وہ میرے دینی مشن کو صحیح طریقے سے آگے نہیں بڑھا سکیں گے ، وہ نالائق ہیں اور میری نیابت کا کما حقہ حق ادا نہیں کرسکیں گے اور دوسری بات یہ ہے (آیت) ” وکانت امراتی عاقرا “۔ اور میری عورت بانجھ ہے ، وہ بچہ پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں جس کی وجہ سے میں ساری عمر اولاد سے محروم رہا ہوں میری التجا ہے (آیت) ” فھب لی من لدنک ولیا “ کہ مجھے اپنی طرف سے جانشین عطا فرما ، ولی کا معنی کارساز بھی ہوتا ہے اور قرابت دار بھی ، تاہم یہاں پر جانشین مراد ہے جو میرے بعد میرا فرض دین ادا کرسکے ، (آیت) ” یرثنی “ جو میرا وارث ہو (آیت) ” ویرث من ال یعقوب “۔ اور تمام ال یعقوب کا وارث ہو (آیت) ” یرث “ کا معنی مورث کے مال پر قابض ہونا ہے ، اللہ نے سورة النساء میں وراثت کا تفصیلی قانون بیان فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تو اس کے ترکہ کے وارث کون کون عزیز و اقارب ہوتے ہیں ۔ (مسئلہ وراثت اور شیعہ حضرات) تمام اہل سنت کے نزدیک نبی اور امتی کی وراثت میں فرق ہے ہر امتی جو بھی کوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائداد چھوڑ کر فوت ہوجاتا ہے ، اس کے وارث بمطابق احکامات الہیہ اس کی اولاد اور دیگر عزیز و اقارب ہوتے ہیں جب کہ نبی کی فوتیدگی کے بعد اس کے مال کے وارث اس کے عزیز نہیں ہوتے بلکہ اگر کوئی مال موجود ہو تو وہ صدقہ ہوتا ہے برخلاف اس کے رافضی اور شیعہ وراثت کے معاملہ میں نبی اور امتی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ امتیوں کے قانون وارثت کو نبی کی وراثت پر بھی نافذ العمل سمجھتے ہیں وہ اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر قرآن پاک کی تین آیات پیش کرتے ہیں ایک ، آیت تو یہی ہے جو زیر درس ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی مولا کریم ! مجھے ایک جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ، دوسری آیت (آیت) ” وررث سلیمن داود “۔ (النمل 27) ہے جس کا معنی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) ، داؤد (علیہ السلام) کے وارث ہوئے شیعہ حضرات تیسری آیت سورة النساء کی پیش کرتے ہیں (آیت) ” یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین “۔ (آیت 11) اولاد کے بارے میں اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حاکم دیتا ہے کہ وراثت اسی طرح تقسیم کرو کہ ہر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو ، کہتے ہیں کہ ان آیات سے انبیاء کی وراثت ثابت ہوتی ہے اور اسی بناء پر حضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے حضور ﷺ کی وراثت کا مطالبہ کیا تھا ، مگر آپ نے انکار کردیا ، شیعہ حضرات کی طرف سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو برا بھلا کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ (صحیح صورت حال) اس مسئلہ کی صحیح صورت حال یہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مال و دولت میں وراثت نہیں ہوتی جس کا ثبوت خود حضور ﷺ کا یہ فرمان ہے ” نحن معشر الانبیاء لا نورث ما ترکنا صدقۃ “۔ ہم گروہ انبیاء کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے بلکہ جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں ، وہ صدقہ ہوتا ہے ، اس حدیث کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی کثیر جماعت نے نقل کیا ہے جس میں خلفائے راشدین کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور عشرہ مبشرہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین شامل ہیں ، اس راویت کے راویوں میں حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ بھی شامل ہیں جو کہ اہل بیت میں سے ہیں حضرت عمر ؓ نے ان دو بزرگوں سے خدا تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم اس حدیث مبارک کو جانتے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم نے یہ حدیث حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سنی ہے : اس سے معلوم ہوا شیعہ حضرات کا استدلال سورة نساء کی مذکورہ آیت سے درست نہیں ہے کیونکہ اس سورة میں بیان کردہ وراثت کا پورا قانون امت کے لیے ہے اور نبی کی ذات اس سے مستثنی ہے ، پیغمبر (علیہ السلام) کے بعض احکام سے استثناء کی بعض دوسری مثالیں بھی موجودہ ہیں مثلا سورة نساء کی آیت 30 میں (آیت) ” فانکحوا ماطاب لکم من النسآء مثنی او ثلث وربع “۔ مسلمانوں مردوں کی دو دو ، تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے بظاہر یہ حکم عام ہے اور اس میں نبی اور امتی سب شامل ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نبی کی ذات اس حکم سے مستثنی ہے جیسا کہ سورة احزاب سے متبادر ہے حضور ﷺ نے زندی میں کل گیارہ عورتوں سے نکاح کیا ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے ایک موقع پر حضرت ابوبکر ؓ سے اپنے باپ کی وراثت کا ضرور مطالبہ کیا تھا انہوں نے حضرت صدیق اکبر ؓ سے پوچھا کہ آپ کے بعد آپ کا وارث کون ہوگا ؟ آپ نے فرمایا میری اولاد ، اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے کہا کہ پھر میرے باپ کی وراثت مجھے ملنی چاہئے اس کے جواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے وہی حدیث پیش کی جس میں آپ کا فرمان ہے کہ ہم نبیوں کا گروہ کسی کو وارث نہیں بناتے بلکہ ہمارا جو مال بچ جائے وہ صدقہ ہوتا ہے ، اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے کہا ” فانت اعلم ما سمعت من رسول اللہ ﷺ “۔ یعنی جو بات آپ نے حضور ﷺ کی زبان اقدس سے سنی ہے اس کو آپ بہتر جانتے ہیں یہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئیں ، اور اس کے بعد وراثت کا مطالبہ نہیں کیا ۔ مسئلہ یہی ہے کہ نبی خود تو وارث ہوتا ہے مگر کسی دوسرے کو اپنا وارث نہیں بناتا ، خود حضور ﷺ کو اپنے باپ کی وراثت سے ایک خچر ، ایک لونڈی ، ام ایمن اور کچھ دوسرا سامان ملا تھا جس کا ذکر صاحب طبقات ابن سعد اور دیگر سیرت نگار حضرات نے کیا ہے حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں (1) (ترمذی ص 98 ج 2) (فیاض) ہیں کہ گروہ انبیاء ” یورث درھما ولا دینارا “۔ روپے پیسے کو وارث نہیں بنایا کرتے ۔ ” انما ورثوا العلم “۔ بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں (آیت) ” فمن اخذہ اخذ بحظ وافر “۔ جس نے یہ چیز لے لی اس نے وراثت کا بڑا حصہ کرلی گویا نبی کا مال واسباب تو صدقہ ہوتا ہے البتہ علم کی وراثت میں جو کوئی جتنا چاہے حصہ حاصل کرلے ۔ جہاں تک آیت زیر درس میں زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا تعلق ہے کہ آپ نے درخواست کی کہ مولا کریم ! مجھے جانشین عطا فرما جو میرا اور آل یعقوب کا وارث ہو ، تو اس سے بھی جائداد کی وراثت مراد نہیں بلکہ علمی نیابت مراد ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) مزدور پیشہ آدمی تھے بڑھئی کا کام کرکے بمشکل زندگی میں گزر اوقات کرتے تھے وہ کوئی لمبی چوڑی جائداد کے مالک نہیں تھجے جس کی انہیں فکر تھی کہ ان کے بعد اس کو کون سنبھالے گا ، ان کا مطلب یہ تھا کہ کوئی ایسا جانشین عطا فرما جو ان کے بعد تبلیغ دین کا کام کرسکے ، دوسری بات یہ ہے کہ پوری آل یعقوب کا وارث ایک شخص تو نہیں ہو سکتا مال و دولت کا وارث تو قریبی عزیز ہی ہو سکتا ہے نہ کہ کوئی ایک شخص جس کے لیے زکریا (علیہ السلام) دعا کر رہے ہیں یہ بھی قرینہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) کی مراد جائداد کی وراثت نہیں تھی بلکہ پوری آل یعقوب کی علمی وراثت مراد تھی ۔ سورة نمل کی جس آیت میں ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث بنے تو اس سے بھی علمی وارثت مراد ہے نہ کہ مال و دولت اگر اس سے مادی وراثت مراد ہو تو حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ اٹھارہ بیٹے اور بھی تھے ، اس معاملہ میں صرف ایک بیٹے کو وارث بنانا اور باقی اٹھارہ کو محروم کر دینتا تو کسی طرح قرین قیاس معلوم نہیں ہوتا ، اصل بات یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے علاوہ حضرت دؤاد (علیہ السلام) کے باقی بیٹے اس قابل نہیں تھے کہ وہ آپ کی علمی وراثت کے وارث بنتے ، اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور وہ بار خلافت اٹھانے کے قابل تھے چناچہ باپ کی وفات کے بعد صرف تیرہ سال کی عمر میں آپ اپنے باپ کے جانشین بنے آپ نبی اور صاحب صحیفہ رسول تھے ، اللہ نے آپ کو بےمثال سلطنت عطا فرمائی یہ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کی وراثت علمی تھی نہ کہ مالی ۔ قرآن پاک میں وراثت کا لفظ کتاب کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسے (آیت) ” وان الذین اور ثوا الکتب “۔ (الشورہ ۔ 14) یعنی ہو لوگ جو کتاب کے وارث بنے ، دوسری جگہ ہے (آیت) ” ثم اور ثنا الکتب “۔ (فاطر ۔ 22) پھر ہم نے لوگوں کو کتاب کا وارث بنایا جن کے آگے تین گروہ بن گئے ایک گروہ صادقین کا ، دوسرا میانہ روی والا اور تیسرا ظلم کرنے والوں کا ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! ” قوموا علی شعآئرکم لانکم علی ارث من ابیکم ابرھیم “۔ حج کے شعائر پر کھڑے ہوجاؤ کیونکہ تم اپنے جدا امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت پر ہو ، ابراہیم (علیہ السلام) حج کے لیے منی ، مزدلفہ اور عرفات میں گئے ، انہوں نے قربانی کی اور طواف کیا چونکہ تم ان کی وراثت پر ہو ، لہذا تم بھی یہی کام کرو ، یہاں پر وراثت سے مراد مال و دولت کی وراثت نہیں بلکہ دینی اور ملی وراثت ہے ، عربوں کے محاورے میں وراثت کا لفظ بزرگی پر بھی استعمال ہوتا ہے ، جیسے عرب کہتے ہیں ” ورثنا المجد “ یعنی ہم اپنے آباء وجداد کی بزرگی کے وارث بنے ہیں ، مقصد یہ کہ وراثت کا اطلاق مال کے علاوہ دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے اور آیت زیر درس میں زکریا (علیہ السلام) کی وراثت سے مراد ان کی دینی خلافت ہے نہ کہ مال و دولت مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ زکریا (علیہ السلام) حبر اور عالم تھے تو اس مقام پر اس کی حبورت اور علمیت کی جانشینی مراد ہے ان تمام قرائن کی موجودگی میں شیعہ کا وراثت سے متعلق استدلال درست نہیں ہے ۔ زکریا (علیہ السلام) نے دعا میں یہ بھی عرض کیا (آیت) ” واجعلہ رب رضیا “۔ اے پروردگار ! میرے جانشین کو پسندیدہ بھی بنا دے کیونکہ اچھے اخلاق کے حامل لوگ ہی دنیا میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور اپنے مشن کو آگے چلا سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ کو بلند ترین اخلاق کا حامل قرار دیا (آیت) ” وانک لعلی خلق عظیم “۔ (القلم : 4) بیشک آپ خلق عظیم پر ہیں نبیوں کا اخلاق ہمیشہ معیاری ہوتا ہے ان کا قول ، فعل اور عمل ہر لحاظ سے پسندیدہ ہوتا ہے تو زکریا (علیہ السلام) نے اپنے جانشین کے لیے بھی اعلی اخلاق کی دعا کی ۔
Top