Ruh-ul-Quran - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں ڈرتا ہوں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے اور میری بیوی بانجھ ہے پس بخش دے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث۔
وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآئِ یْ وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا۔ یَّرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ صلے قوَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیًّا۔ (مریم : 5، 6) (اور میں ڈرتا ہوں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے اور میری بیوی بانجھ ہے پس بخش دے مجھے اپنی طرف سے ایک وارث۔ جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوب کی روایات کا بھی اور اے رب، اس کو پسندیدہ سیرت والا بنائیو۔ ) دُعا کا ایک اور سبب اس آیت کریمہ میں تیسری بات یہ عرض کی کہ یا اللہ میں اس بڑھاپے میں یہ دعا اس لیے کر رہا ہوں کہ مجھے اپنے قریبی عزیزوں اور بھائی بندوں کے بارے میں فکرمندی ہے کہ وہ اپنی بےدینی یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کہیں اس ذمہ داری پر جو میرے اٹھ جانے سے خالی ہوگی فائز ہو کر اس کے تقاضوں کو پامال نہ کردیں۔ میں ازاول تا آخر تیرے دین کا خدمت گزار ہوں اور تیرے گھر کا چاکر ہوں۔ اگر میرے ہی خاندان اور میرے عزیزوں میں سے کچھ ایسے لوگ میری جگہ لینے میں کامیاب ہوگئے جو اس منصب کے اہل نہیں اور ان کے اس منصب پر فائز ہوجانے کا اندیشہ اس لیے بھی ہے کہ میرا کوئی وارث نہیں، تو ایسی صورت میں میرے قریبی عزیزوں میں کسی شخص کو بھی یہ جگہ مل سکتی ہے لیکن کسی میں بھی اس کی اہلیت موجود نہیں۔ تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ آل یعقوب کی روایات کا احترام نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے گھر کی تولیت کو ایک کھیل بنا کے رکھ دیں گے اور بطور کاہن اعظم کے جو خدمات میں انجام دیتا رہا ہوں انھیں خطرناک حد تک نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اپنی ناتوانی کا ذکر حضرت زکریا (علیہ السلام) پہلے ہی کرچکے تھے اب اپنی بیوی کے حوالے سے گزارش کررہے ہیں کہ میری بیوی بانجھ ہے۔ آج تک اس کے گھر میں کوئی اولاد نہیں ہوئی اور اب تو وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہے جہاں اولاد کی امید ہی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے میں نے تیرے سامنے جھولی پھیلائی ہے کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ اسباب کام کرنا چھوڑ دیں اور بظاہر کوئی سہارا نظر نہ آتا ہو تو پھر تیری ذات کے سوا کوئی ایسا نہیں جس کے سامنے دست سوال دراز کیا جائے تو الٰہی یہ بوڑھا جس کی ہڈیوں میں گودا بھی نہیں رہا جس کا سر بڑھاپے سے ہلنے لگا ہے، جس کی بیوی بانجھ ہوچکی ہے لیکن تیرے دین کے تقاضے میرے بعد ایک صحیح وارث اور جانشین کا تقاضا کررہے ہیں۔ میں اپنی اس ضرورت کو لے کر تیرے سوا کس آستانے پر جاؤں۔ میں نے پہلے بھی ہمیشہ تیرے ہی دروازے پر دستک دی ہے اب بھی تیرے آستانے پر بیٹھا ہوں اور اس وقت تک بیٹھا رہوں گا جب تک میری دعا کو قبولیت کا شرف نہیں مل جاتا۔ قسم آستاں کی نہ اٹھیں گے ہرگز یہیں دن چڑھے گا یہیں رات ہوگی فرزند کے لیے دعا صرف اس لیے نہیں کی جارہی کہ آپ ( علیہ السلام) کو ایک بیٹے کی خواہش ہے بلکہ اس لیے کی جارہی ہے کہ فکر اس بات کی ہے کہ آل یعقوب ( علیہ السلام) کی وراثت کو کوئی گزند نہ پہنچے اور اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت کسی نااہل کے سپرد نہ ہوجائے۔ اس لیے عرض کی کہ یا اللہ ! بیٹا وہ عطا فرما جو پسندیدہ سیرت والا ہو۔ ایسا بیٹا جو صحیح معنی میں میرا جانشین ہو، جو تیرے دین کی خدمت کرنے کا اہل ہو۔ آل یعقوب ( علیہ السلام) کی وراثت کو اس سے کوئی نقصان پہنچنے کی بجائے عزت و افتخار ملے۔ جو دعا صحیح وقت پر صحیح مقصد کے لیے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے صحیح جذبے کے ساتھ مانگی جائے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے رد نہیں کی جاتی۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے جس طرح دعا مانگی اور جس وقت مانگی اس کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا اور پھر جس طرح اپنی بےبسی اور ناتوانی کو دعا کی تمہید کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش فرمایا اس نے قبولیتِ دعا کو اور قریب کردیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اولاد کی خواہش فطری تقاضا ہے لیکن حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنی کسی خواہش کے تحت نہیں بلکہ اس عظیم مقصد کے حوالے سے دعا مانگی جو آپ ( علیہ السلام) کی زندگی کا سرمایہ اور آپ ( علیہ السلام) کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے اور آپ ( علیہ السلام) کے اٹھ جانے سے نااہلوں کے آجانے کے خطرے کے پیش نظر اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ ان تمام مبارک عوامل نے مل کر درقبولیت پر دستک دی تو وہاں سے قبولیت بشارت بن کر نازل ہوئی۔
Top