Ahsan-ut-Tafaseer - Maryam : 5
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاۙ
وَاِنِّىْ : اور البتہ میں خِفْتُ : ڈرتا ہوں الْمَوَالِيَ : اپنے رشتے دار مِنْ وَّرَآءِيْ : اپنے بعد وَكَانَتِ : اور ہے امْرَاَتِيْ : میری بیوی عَاقِرًا : بانجھ فَهَبْ لِيْ : تو مجھے عطا کر مِنْ لَّدُنْكَ : اپنے پاس سے وَلِيًّا : ایک وارث
اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما
5۔ 6 حضرت زکریا ( علیہ السلام) حضرت مریم کے خالو تھے چناچہ معراج کی صحیح بخاری کی مالک بن صعصعہ کی 1 ؎ حدیث میں یہ بات آچکی ہے کہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) خالہ زاد بھائی ہیں اگرچہ حضرت زکریا بیت المقدس کے متولیوں میں تھے لیکن صحیح مسلم کی ابوہریرہ ؓ کی روایت میں ہے کہ بڑھئی کا کام کرکے اپنے ہاتھ کی کمائی سے اپنی گزر کیا کرتے تھے 2 ؎۔ اس لیے ان کے پاس کچھ ایسا مال متاع تو نہیں تھا صرف نبوت کے اپنے خاندان میں چلنے کے لیے لڑکے کی دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور حضرت یحییٰ پیدا ہوئے یہ نام صرف حضرت یحییٰ دنیا میں زیادہ نہیں جلے لیکن بنی اسرائیل کے ہاتھ شہید ہوئے اس واسطے گویا ہمیشہ اپنے نام کے موافق زندہ ہیں بنی اسرائیل کا اس وقت کا بادشاہ ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا اور توریت کے حکم سے وہ نکاح جائز نہ تھا اس لیے حضرت یحییٰ نے اس بادشاہ کو اس نکاح سے منع کیا اس بادشاہ نے ضد کر کے حضرت یحییٰ کو شہید کر ڈالا۔ مستدرک حاکم میں عبداللہ بن زبیر ؓ کی معتبر روایت سے حضرت یحییٰ کے شہید ہونے کا پورا قصہ ہے اس قصہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کی روایت سے یہ بھی ہے کہ حضرت یحییٰ جس جگہ شہید ہوئے تھے اس جگہ زمین میں سے خود بخود خون ابلتا تھا اسی عرصہ میں بخت نصر بنی اسرائیل پر چڑھائی کرکے آیا اور ستر ہزار آدمی بنی اسرائیل میں کے قتل کیے جاچکے تب وہ خون کا ابلنا بند ہوا۔ یہ قصہ مستدرک حاکم میں عبداللہ ابن عباس ؓ کی رویت سے بھی ہے 3 ؎ اور اس کی سند ناقابل اعتراض ہے حاصل یہ کہ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کے عوض میں اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار آدمی کا قصاص لیا 4 ؎۔ حضرت زکریا ( علیہ السلام) سے بھی بنی اسرائیل منحرف ہوگئے حضرت زکریا ( علیہ السلام) بنی اسرائیل بھی ان کی تلاش میں اس پیڑ کے پاس پہنچ گئے شیطان ملعون بھی وہاں آن موجود ہوا اور آرے کی صورت بنی اسرائیل کو سمجھائی بنی اسرائیل نے لوہے کا آرا بنایا اور مع پیڑ کے حضرت زکریا کو بیچ میں سے چیر کر دو ٹکڑے کر ڈالا۔ معتبر سند سے بروایت عبداللہ بن زبیر ؓ سیرت ابن اسحاق وغیرہ میں یہ قصہ تفصیل سے لکھا ہے 5 ؎۔ حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدائش ایک ہی سال کی ہے حضرت یحییٰ پر خالص توریت کی شریعت کا زمانہ ختم ہوگیا اب اس سے آگے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) (علیہ السلام) کو نبوت اور توریت اور انجیل کی ملی ہوئی نبوت کا زمانہ ہے حاصل کلام یہ ہے کہ زکریا ( علیہ السلام) کو جو اندیشہ تھا کہ ان کے پیچھے ان کے بھائی بند دین کو بگاڑ دیں گے اس کا ظہور زکریا (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی ہوگیا کہ بےدینی کے سبب سے اپنے اور غیر سب نے مل کر دو نبیوں کو شہید کر ڈالا۔ سورة والذاریات میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی بی بی حضرت سارا کے بانجھ ہونے اور حضرت اسحاق علیہ السلا کے پیدا ہونے کی خوش خبری کا ذکر آئے گا اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی اس روایت میں کسی راوی کا سہو پایا جاتا ہے جس روایت میں یہ ہے کہ سوائے زکریا (علیہ السلام) کی بانجھ بی بی کے اور کسی بانجھ عورت کے پیٹ سے اولاد نہیں ہوئی (واجعلہ رب رضیا) اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ وہ لڑکا ایسا ہو جو عمر بھر تیری مرضی کے موافق کام کرے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جس شخص سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو جبرئیل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کی خبر پکار کر فرشتوں کو سنا دیتے ہیں جس سے آسمان و زمین میں اس نیک شخص کی محبت ہر کسی کو ہوجاتی ہے 6 ؎۔ اس حدیث سے واجعلہ رب رضیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یا اللہ وہ لڑکا ایسا ہو جو عمر بھر تیری مرضی کے موافق کام کرے جس سے تو اس سے خوش ہو اور تیری خوش نودی کے سبب سے آسمان و زمین میں اس کی محبت پھیل جائے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 549 ج اباب المعراج 2 ؎ صحیح مسلم ص 268 باب ہن فضائل زکریا ﷺ 12 3 ؎ مستدرک حاکم ص 592 ج 2 قصۃ قتل یحییٰ (علیہ السلام) 4 ؎ تفسیر الدر المنثورص 264 ج 4 5 ؎ تفسیر الدر المنثورص 264 ج 4 6 ؎ صحیح بخاری شریف ص 892 ج 3 بات المقت عن اللہ
Top