Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 133
وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ١ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ
وَسَارِعُوْٓا : اور دوڑو اِلٰى : طرف مَغْفِرَةٍ : بخشش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب وَجَنَّةٍ : اور جنت عَرْضُھَا : اس کا عرض السَّمٰوٰتُ :ٓآسمان (جمع وَالْاَرْضُ : اور زمین اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور دوڑو بخشش کی طرف اپنے رب کی اور جنت کی طرف جس کا عرض ہے آسمان اور زمین 200 تیار ہوئی ہے واسطے پرہیزگاروں کے
200 وَجَنَّةٌ مَّغْفِرَ ةٌ پر معطوف ہے اور اس سے پہلے مضاف محذوف ہے ای الی اسبابھا من الاعمال الصالحة (روح ص 56 ج 4) یعنی بخشش اور جنت کی طرف دوڑنے سے ایسے اعمال صالحہ کی طرف دوڑنا اور مسابقت کرنا مراد ہے جو استحقاق مغفرت اور دخول جنت کا موجب ہوں۔ مثلا اخلاص توحید، جہاد، انفاق وغیرہ۔ حضرت عثمان ؓ سے منقول ہے کہ یہاں موجب مغفرت سے اخلاص عبادت اور توحید مراد ہے۔ والثالث انہ الاخلاص وھو قول عثمان بن عفان ؓ ووجہہ ان المقصود من جمیع العبادات الاخلاص کما قال وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ (کبیر ص 74 ج 3) اور جنت کا آسمانوں اور زمین کے برابر چوڑا ہونا اپنے ظاہر پر محمول ہے یعنی اس جنت کی چوڑائی ساتوں آسمانوں اور زمین کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر بجھانے سے جس قدر پھیلاؤ پیدا ہوگا۔ اس کے برابر ہوگی اور ظاہر ہے عرض ہمیشہ طول سے کم ہوتا ہے جب اس جنت کا عرض اس قدر ہے تو اس کا طول اس سے کہیں زیادہ ہوگا جس کا اندازہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قال ابن عباس تقرن السموات والارض بعضہا الی بعض کما تبسط الثیاب ویوصل بعضہا ببعض فذلک عرض الجنۃ ولا لیعلم طولہا الا اللہ وبذا قول الجمہور (قرطبی ص 204 ج 4) اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے خصوصیت کے ساتھ چوڑائی کا بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ جنت کی غایت وسعت اور کشادگی سے کنایہ ہے فلیس المقصود تحدید عرضہا بل الکلام کنایۃ عن غایۃ السعۃ بما ھو فی تصور السامعین (روح ص 56 ج 4) اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ حضرت شیخ علام (رح) نے فرمایا کہ ایسا وسیع اور کشادہ جنت جن متقی لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے وہ دو فریق ہیں۔ اَلَّذِینَ یُنفِقُوْنَ سے وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِنْنَ تک پہلے فریق کا ذکر ہے۔ اور یہ فریق اعلیٰ ہے۔ اور وَالَّذِیْ اِذَافَعَلُوْا سے وَھُمْ یَعْلَمُونَ تک دوسرے فریق کا ذکر ہے اور یہ پہلے کی نسبت ادنی ہے۔
Top