Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
جو خرچ کئے جاتے ہیں خوشی میں اور تکلیف میں201 اور دبا لیتے ہیں غصہ اور معاف کرتے ہیں لوگوں کو اور اللہ چاہتا ہے نیکی کرنے والوں کو
201 یہ اَلْمُتَّقِیْنَ کی نعت ہے اور فریق اعلیٰ کی پہلی صفت ہے اس میں ترغیب الی الانفاق کا پہلی بار اعادہ کیا گیا ہے۔ ظرف یُنْفِقُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے اور سَرَّاء سے فراخی اور ضَرَّاء سے تنگدستی مراد ہے۔ عن ابن عباس فی العسر والیسر (ابن جریر ص 57 ج 4) یعنی وہ ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خواہ دولت مند ہوں یا مفلوک الحال ہوں۔ وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ یہ فریق اعلیٰ کی دوسری صفت ہے۔ کظم الغیظ کے معنی غصہ پی جانے اور ضطب کرنے کے ہیں یعنی وہ لوگ غصے کی حالت میں مغلوب الغضب نہیں ہوجاتے بلکہ غصے کو پی جاتے ہیں اور اس پر قابو پالیتے ہیں اور اس کو عملی جامہ نہیں پہناتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اَلْکَظِمِیْنَ الْغَیظَ فرمایا ہے الفاقدین الغیظ نہیں فرمایا کیونکہ غصہ غیرت وحمیت اور حرارت طبیعیہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا پیدا ہونا ایک طبعی امر ہے اس لیے غصہ کا بالکل پیدا ہی نہ ہونا یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ عیب ہے خوبی تو یہ ہے کہ غصہ آئے لیکن اسے ضبط کرلیا جائے وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ یہ فریق اعلیٰ کی تیسری صفت ہے یعنی وہ قصور وار لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں اور دل میں کسی قسم کی ناراضگی نہیں رکھتے یہ درجہ اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ سے بلند تر ہے یعنی وہ نہ صرف یہ کہ غصہ پی جاتے ہیں اور انتقام نہیں لیتے بلکہ سرے سے قصور اور خطا ہی کو معاف کردیتے ہیں اور خطا کار کے متعلق دل میں کوئی کدورت نہیں رکھتے۔ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ ماقبل کا تکملہ اور احسان سے یہاں انعام مراد ہے اور یہ درجہ پہلے دونوں درجوں سے بلند تر ہے یعنی وہ عفو و درگذر سے آگے بڑھ کر انعام واکرام اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔
Top