Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 6
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِيْ : جو کہ يُصَوِّرُكُمْ : صورت بناتا ہے تمہاری فِي : میں الْاَرْحَامِ : رحم (جمع) كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہے لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی تو ہے جو رحم مادر میں تمہاری صورت جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ بڑا زبردست بڑی حکمت والا ہے3
3۔ بلا شبہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہ زمین میں پوشیدہ ہے اور نہ آسمان میں وہی تو ہے جو تمہاری مائوں کے پیٹ میں تمہاری صورت جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے اس کے سوا اور کوئی حقیقی معبود اور مستحق عبادت نہیں وہ کمال قوت اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ (تیسیر) توحید باری پر ایک اور دلیل بیان فرمائی جس سے اس کا کمال علم اور کمال قدرت معلوم ہوا علم کی یہ حالت ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی حقیر سے حقیر چیز بھی اس سے مخفی اور چھپی ہوئی نہیں ۔ تصرفات کا یہ عالم کو ماں کے رحم میں بھی اس یک صفت خالقیت کی کار فرمائیاں جاری ہیں ۔ بچہ کو جیسی چاہتا ہے شکل و صورت عطا کرتا ہے ۔ پانی پر تصور کھینچتا ہے اور جیسی چاہتا ہے ویسی کھینچتا ہے چھ انچ لمبے اور چار انچ چکلے سانچے میں کروڑوں صورتیں بناتا ہے اور ایک کو دوسرے سے ممتاز رکھتا ہے اور ایک صورت دوسری صورت سے علیحدہ پہچانی جاتی ہے۔ جب وہ ایسا ہے تو فطرت انسانی اور ضروریات انسانی کا اس سے بڑھ کر کون واقف ہوسکتا ہے اور جب کوئی اور دوسرا ان صفات مذکورہ یعنی دائمی حیات ، کامل قیومیت ، کامل علم ، کامل قدرت اور بےپناہ طاقت سے متصف نہیں ہے تو اس پاک ذات کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کا مستحق اور معبود بننے کا اہل کیونکر ہوسکتا ہے ، نیز اس تصویر سازی سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کی تصویر بھی ان کی ماں کے پیٹ میں اسی نے بنائی ہے ، پھر جو اپنی شکل و صورت کی ترتیب او وضع میں خدا تعالیٰ کا محتاج ہو وہ خدا کا ہمسر اور شریک کس طرح ہوسکتا ہے اور صرف شکل وص ورت ہی کیا بلکہ ہر قسم کی روحانی اور جسمانی تربیت اور ترقی میں جو مخلوق خدا کی محتاج ہو وہ کب اس لائق ہوسکتی ہے کہ اس مالک حقیقی کی عبادت میں شریک کیا یا اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جائے ۔ یہاں تک تو عقیدہ ٔ تثلیث اور عقیدۂ شرک کا ابطلال اور توحیدالٰہی کا اثبات تھا ۔ اب آگے نجرانی وفد کے بعض اور شبہات کا جواب ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ بعض اہل وفد نے دوران گفتگو میں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ کہتے ہیں اور ممکن ہے کہ یہ بھی کہا ہو کہ ہمارا یہ عقیدہ کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ہماری آسمانی کتاب یعنی انجیل سے مآخوذ ہے اور تم لوگ بھی ہماری کتاب کو منزل من اللہ کہتے ہو کیونکہ انجیل میں بعض آیتیں ایسی ہیں جس میں مخلوق کو خدا تعالیٰ نے اولاد کے الفاظ سے تعبیر کیا یا خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی اپنی تقریر میں اللہ تعالیٰ کو اس کی ربوبیت کے اعتبار سے باپ فرمایا ہو ، حالانکہ یہ محض محبت و شفقت اور پیار کی وجہ سے کہا گیا تھا ، مگر عیسائیوں نے غلط تاویلات کر کے سچ مچ مسیح کو خدا کا بیٹا بنا لیا اور مسیح کو اور اس کی ماں کو خدا کی الوہیت کا حصہ دار بنا لیا ۔ چنانچہ اس کا جواب دیتے ہیں جو اب کا ماحصل یہ ہے کہ کتب سماویہ میں بعض محکمات ہوتے ہیں اور بعض مشتابہات جہاں تک عقائدو احکام کا تعلق ہے اس میں محکمات سے استدلال کیا جاتا ہے اور متشابہات پر تو اجمالا ً ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے اور ان آیات متشابہات کی توجیہہ اور تاویل اور اس میں غور و خوض اور انہماک ممنوع ہوتا ہے کیونکہ آیات متشابہات عام طور سے مجمل اور مخفی المراد ہوتی ہیں ۔ اس لئے اگر کوئی ان پر ایمان لانے کی بجائے ان کی حقیقی معنی کی کھوج لگانے کے درپے ہوتا ہے تو وہ ایک فتنہ کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس لئے کہ ان آیات متشابہات کے حقیقی معنی تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ اس کھوج لگانے والے کو ان معنی کا صحیح پتہ تو ملے گا نہیں اور خود گمراہ ہوجائے گا ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ ( تسہیل)
Top