Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 6
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِيْ : جو کہ يُصَوِّرُكُمْ : صورت بناتا ہے تمہاری فِي : میں الْاَرْحَامِ : رحم (جمع) كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہے لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ میں) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
ھُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاۗءُ : وہی ہے جو ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے بنا دیتا ہے۔ یعنی تمہارے رنگ، مختلف شکلیں اور نرو مادہ جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پس کسی کو اس کے سوا نہ علم ہے نہ قدرت ہاں جتنا اس نے عطا کردیا ہے اتنا حاصل ہے۔ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : وہی غالب اور حکمت والا ہے اس میں اللہ کے کمال قدرت اور ہمہ گیر علم کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ ہم سے اللہ کے سچے رسول ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک کا تخلیقی قوام ماں کے پیٹ کے اندر چالیس روز تک بصورت نطفہ پھر اتنی ہی مدت بصورت علقہ پھر اسی قدر بصورت مضغہ ہوتا ہے پھرا اللہ فرشتہ کو چار باتیں لکھنے کے لیے بھیجتا ہے حسب الحکم فرشتہ اس کا رزق (اچھے برے) اعمال ‘ مدت زندگی اور نیک بخت یا بد بخت ہونا لکھ دیتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بعض لوگ اہل جنت کے سے عمل (اتنے) کرتے ہیں کہ ان کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے آخر تقدیر کا لکھا آگے آتا ہے اور وہ شخص دوزخیوں کے کام کرتا ہے اور دوزخ میں چلا جاتا ہے کچھ لوگ دوزخیوں کے اعمال (اتنے) کرتے ہیں کہ ان کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ آخر تحریر خلقی غالب آتی ہے اور وہ شخص اہل جنت کے سے کام کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (متفق علیہ) حضرت حذیفہ بن اسید کی مرفوع روایت ہے کہ رحم کے اندر نطفہ کے چالیس یا پینتالیس روز ٹھہرنے کے بعد ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور عرض کرتا ہے الٰہی یہ بد بخت ہے یا نیک بخت (حسب الحکم) دونوں باتوں میں سے کوئی بات لکھ دی جاتی ہے پھر عرض کرتا ہے مالک یہ نر ہے یا مادہ (حسب الحکم) یہ چیز بھی لکھ دی جاتی ہے۔ اسی طرح اس کے اعمال، احوال، مدت، زندگی اور رزق بھی تحریر کردیا جاتا ہے پھر تحریر کو لپیٹ دیا جاتا ہے پھر اس میں زیادتی کمی نہیں کی جاتی۔ (رواہ البغوی)
Top