Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 6
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِيْ : جو کہ يُصَوِّرُكُمْ : صورت بناتا ہے تمہاری فِي : میں الْاَرْحَامِ : رحم (جمع) كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہے لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہ جس طرح چاہتا ہے ماں کے شکم میں تمہاری صورت بنا دیتا ہے یقینا کوئی معبود نہیں مگر وہی غالب آنے والا حکمت والا ہے
اللہ ہی وہ مصور ہے جس نے سب کی تصویریں بنائیں : 14: ” یصور “ تصویر صورت بنانے کا نام ہے اور صورة وہ ہے جس سے کسی چیز کے ” عین “ کا نقش ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ دوسری اشیاء سے الگ ہوجاتی ہے اور یہ دو طرح پر ہے ایک محسوس جسے خاص و عام بلکہ حیوان بھی پہنچانتے ہیں اور دوسرے معقول جسے صرف خواص ہی پہچان سکتے ہیں جیسے وہ صورت جس سے انسان مخصوص ہے یعنی عقل و رویہ اور وہ معانی جن سے ایک شے دوسری سے مخصوص ہوتی ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ کے انسان کی صورت بنانے کا ذکر ہے وہاں یہ دونوں صورتیں مراد ہوتی ہیں (امام راغب) جیسے : خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ (الاعراف 7 : 11) ” ہم نے تمہیں پیدا کیا تمہاری صورتیں بنائیں اور بہتر سے بہتر صورتیں بنائیں۔ “ فِىْ اَىِّ صُوْرَةٍ مَّا شَآءَ رَكَّبَكَ (الانفطار 82 : 8) ” پھر جیسی صورت بنانا چاہی اس کے مطابق ترکیب دے دی۔ “ اور ایک حدیث میں فرمایا : ععع ان اللّٰه خلق ادم علی صور تہ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو ایک خاص صورت پر پیدا کیا۔ یعنی انسان کی ایک مخصوص صورت بنائی یعنی وہ ہیئت جس کا ادراک آنکھ سے اور عقل سے ہوتا ہے جس سے انسان کو دوسری مخلوق پر فضیلت ہے۔ (راغب) یاد رہے کہ اس جگہ صورة میں ” ہ “ کی ضمیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تشبیہ کے لیے نہیں یا اس لیے نہیں کہ نعوذ باللہ اللہ کی بھی کوئی صورت ہے۔ نہیں اور ہرگز نہیں۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اللہ صورت سے بھی پاک ہے اور تشبیہ سے بھی پاک ہے بلکہ علی سبیل الملک ہے یعنی اس کی مل ہونے کے لحاظ سے اور علی سبیل التشریف یعنی اس کی عزت کے لحاظ سے جیسے بیت اللہ ، نافتہ اللہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کی اس صفت کا ذکر کہ وہ انسان کی صورت رحم میں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس میں دو اہم حقیقتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ایک یہ کہ تمہاری فطرت کو جیسا وہ جانتا ہے نہ کوئی دوسرا جان سکتا ہے نہ تم خود جان سکتے ہو لہٰذا اس کی راہنمائی پر اعتماد کئے بغیر تمہارے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جس نے تمہارے استقرار حمل سے لے کر بعد کے تمام مراحل تک ہر موقع پر تمہاری چھوٹی سے چھوٹی ضرورتوں تک کو پورا کرنے کا اہتمام کیا ہے کس طرح ممکن تھا کہ وہ دنیا کی زندگی میں تمہاری ہدایت و رہنمائی کا انتظام نہ کرتا حالانکہ تم سب سے بڑھ کر اگر کسی چیز کے محتاج ہو تو وہ یہی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ ذات کیسی ذات ہے جس نے کئی قسم کی تاریکیوں میں انسان کی نہ صرف جسمانی بلکہ اس کی اخلاقی اور روحانی تصویر بھی بنا دی ہے جیسے دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے : یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ 1ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ (الزمر 39 : 6) ” وہی تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تاریکیوں یعنی پردوں میں ایک شکل کے بعد دسوری شکل دیتا چلا جاتا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے اس کی سلطنت ہے۔ “ ایک طرح سے یہ بھی الوہیت مسیح کے بطلان کی دلیل ہے جیسا کہ گزشتہ حاشیہ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ جو حالات دوسرے انسانوں پر گزرتے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی گزرے ہیں ان پر بھی رحم مادر میں وہ سب حالتیں یکے بعد دیگرے آئیں جیسا کہ دوسرے انسانوں پر آتی ہیں۔ مصور حقیقی اللہ ہی ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں : 15: ” الٰہ “ کے معنی اس جگہ یہی ہو سکتے ہیں کہ وہی ” مصور حقیقی “ ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو صورت بنانے والا ہو۔ وہی سب کی تصویریں بنانے والا ہے اور وہی خالق ہے اس کے سوا کوئی خالق نہیں۔ ہر ایک جملہ گویا کہ الوہیت عیسیٰ کے انکار میں بیان ہوا ہے اور اس طرح بیان ہوا ہے کہ اس کو تسلیم کرنے پر فطرت مجبور کرتی ہے اور جو اس کو تسلیم نہ کرے وہ گویا فطرت کے تسلیم کرنے سے منکر ہے۔ ابن جریر میں حضرت ابن مسعود ؓ اور ابن عباس ؓ اور دیگر صحابہ سے اس روایت کا بیھ اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ انساین پیدائش اس طریقہ پر ہوتی ہے کہ پہلے وہ نطفہ ہوتا ہے پھر چالیس دن کے بعد علقہ کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نطفہ سے لے کر وہ تمام حالات انسانی پیدائش کے آئے ہیں جو دوسرے انسانوں پر آتے ہیں کوئی خصوصیت پر بنائے پیدائش ان کے حالات میں نہیں۔ ان کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ فرمایا ہے جہاں ارشاد ہوا : ” فَحَمَلَتْهُ “ پس مریم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو حمل میں لے لیا (مریم 19 : 22) اور اس کی تشریح میں خود نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : ععع ” ان عیسیٰ حملتہ امراة کما تحمل المراة ثم وضعتہ کما تضع المراة “ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو ایک عورت نے حمل میں لیا جس طرح عورتوں کو حمل ہوتا ہے اور اس کو جنا جس طرح عورتیں جنتی ہیں۔ پھر انسانی پیدائش کی تفصیل خود قرآن کریم کی آیات نے بیان فرمائی ہیں۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ0012 ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪0013 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا 1ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ 1ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَؕ0014 ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَیِّتُوْنَؕ0015 ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ 0016 (المؤمنون) ” اور دیکھو یہ واقعہ ہے کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ” نطفہ “ کو ہم نے ” علقہ “ بنایا ایک ٹھہر جانے اور جماؤ پانے کی جگہ میں پھر……” علقہ “ کو ایک گوشت کا ٹکڑا سا کردیا۔ پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ پیدا کیا۔ پھر ڈھانچے پر گوشت کی تہه چڑھا دی۔ پھر دیکھو کس طرح اسے بالکل ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا کر نمودار کردیا ؟ تو کیا ہی برکتوں والی ہستی ہے اللہ کی۔ پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا۔ پھر دیکھو اس پیدائش کے بعد تم سب کو ضرور مرنا ہے اور مرنے کے بعد ایسا ہونا ہے کہ قیامت کے دن اٹھائے جاؤ ۔ “ ایک جگہ ارشاد ہوا : ” کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا ؟ اور اسے ایک مقررہ اندازے تک محفوظ مقام پر نہیں رکھا ؟ پھر ہم نے اس کا اندازہ کیا سو ہم کیا ہی اچھا اندازہ کرنے والے ہیں ؟ “ (المرسلات 77 : 20 ، 22 ) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” وہ پروردگار ! جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا پھر ” نطفہ “ سے۔ پھر ” علقہ “ سے۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم طفویت کی حالت میں مادر شکم سے نکلتے ہو۔ پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے کہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو۔ پھر تم میں سے کوئی تو ان منزلوں سے پہلے یہ مرجاتا ہے اور کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرتا رہے اور تم عقل و فکر سے کام لو۔ “ (مؤمن 40 : 67) ایک جگہ فرمایا : ” لوگو ! اگر تمہیں اس بات میں شک ہے کہ آدمی دوبارہ کیسے جی اٹھے گا ؟ تو اس بات پر غور کرو کہ ہم نے تم کو کس چیز سے پیدا کیا ؟ مٹی سے پھر اس طرح کہ پہلے ” نطفہ “ ہوتا ہے پھر ” علقہ “ بنتا ہے پھر متشکل اور غیر متشکل گوشت کا ایک ٹکڑا اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ تم پر اپنی قدرت کی کار فرمائیاں واضح کردیں پھر دیکھو جس نطفہ کو ہم چاہتے ہیں تکمیل تک پہنچائیں اسے عورت کے رحم میں ایک مقررہ وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر جب نطفہ تکمیل کے تمام مراحل طے کرلیتا ہے تو طفولیت کی حالت میں تمہیں باہر نکالتے ہیں تم پر یکے بعد دیگرے ایسی حالتیں طاری کرتے ہو کہ بالآخر اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جاتے ہو۔ پھر تم میں کوئی تو ایسا ہوتا ہے جو بڑھاپے سے پہلے ہی مر جاتا ہے اور کوئی ایسا ہوتا ہے جو بڑھاپے تک پہنچتا ہے ، اور پھر عمر کی نکمی حالت کی طرف لوٹا دیاجاتا ہے کہ سمجھ بوجھ کا دجہ پاکر پھرنا سمجھی کی حالت میں پڑجائے۔ “ (الحج 22 : 5) تعجب ہے کہ ایسی صراحت کے ہوتے ہوئے مفسرین نے بعض عجیب عجیب قصے بنالیے ہیں اور بعض مفسرین نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ایک ہی گھڑی کے لیے حضرت مریم صدیقہ کو حمل ہوا تھا اور فوراً حضرت مسیح پیدا بھی ہوگئے۔ اب عیسائیوں کے لیے غور کا مقام ہے کہ جس شخصیت کو ماں نے حمل میں لیا اور پھر وہ رحم مادر میں خلقاً بعد خلقٍ بڑھتا رہا اور اپنے وقت مقرر پر ماں نے اس کو جنم دیا پھر اس کی پرورش کی جس طرح مائیں اپنی اولاد کی پرورش کرتی ہیں۔ پھر وہ اللہ۔ اللہ کا بیٹا یا تین میں سے ایک اقنوم ہونے کے بعد تین ایک ایسے ہوگیا ؟ آخر اس گورکھ دھندہ کا مطلب کیا ؟ کیا عیسیٰ (علیہ السلام) مخلوق نہیں ؟ پھر جو مخلوق ہے وہ خالق کیسے ہوگیا ؟ مختصر یہ کہ اس آیت نے بھی سیدنا مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت کا مکمل طور پر رد کردیا اور واضح کردیا کہ وہ خالق نہیں بلکہ مخلوق تھا۔ معبود نہیں بلکہ عبد تھا اور یہی اس سورة کا اصل مضمون ہے۔
Top