Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ : وہی الَّذِيْٓ : جس اَنْزَلَ : نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب مِنْهُ : اس سے (میں) اٰيٰتٌ : آیتیں مُّحْكَمٰتٌ : محکم (پختہ) ھُنَّ : وہ اُمُّ الْكِتٰبِ : کتاب کی اصل وَاُخَرُ : اور دوسری مُتَشٰبِهٰتٌ : متشابہ فَاَمَّا : پس جو الَّذِيْنَ : جو لوگ فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل زَيْغٌ : کجی فَيَتَّبِعُوْنَ : سو وہ پیروی کرتے ہیں مَا تَشَابَهَ : متشابہات مِنْهُ : اس سے ابْتِغَآءَ : چاہنا (غرض) الْفِتْنَةِ : فساد۔ گمراہی وَابْتِغَآءَ : ڈھونڈنا تَاْوِيْلِهٖ : اس کا مطلب وَمَا : اور نہیں يَعْلَمُ : جانتا تَاْوِيْلَهٗٓ : اس کا مطلب اِلَّا : سوائے اللّٰهُ : اللہ وَالرّٰسِخُوْنَ : اور مضبوط فِي الْعِلْمِ : علم میں يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِهٖ : اس پر كُلٌّ : سب مِّنْ عِنْدِ : سے۔ پاس (طرف) رَبِّنَا : ہمارا رب وَمَا : اور نہیں يَذَّكَّرُ : سمجھتے اِلَّآ : مگر اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا اس کتاب کی بعض آیات تو واضح اور محکم میں وہی آیتیں اس کتاب کی اصل اور بنیاد ہیں اور بعض دوسری آیتیں ایسی ہیں جو مختلف معنی کو شامل ہیں ، سو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ کتاب کی انہی آیتیوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور جو مختلف المعنی اور مختلف المراد ہیں تا کہ کوئی فتنہ برپا کرنے کی راہ نکالیں اور نیز اس لئے کہ اس مشتبہ المراد کا مطلب تلاش کریں حالانکہ اس کا حقیقی مفہوم کوئی نہیں جانتا مگر اللہ تعالیٰ اور پختہ کار اہل علم یوں کہتے ہیں کہ ہم ان آیات متشابہات پر یقین رکھتے ہیں ہر ایک محکم اور متشابہ ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے اور نصیحت صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو صاحبان عقل و خرد ہیں1
1۔ اللہ تعالیٰ کی وہ ذات ہے جس نے آپ پر کتاب یعنی قرآن نازل فرمایا اس قرآن میں دو طرح کی آیتیں ہیں کچھ آیتیں اس قرآن میں سے محکمات ہیں یعنی جن کی مراد میں اشتباہ اور ان کے مطلب میں خفان ہیں ہے بلکہ ان کا مطلب ظاہ رہے اور وہ آیات محکمات قرآن و احکام کا اصلی مدار اور اصل بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہات ہیں جن کا مطلب اور مفہوم خفی ہے اور ان میں اشتباہ کی گاجائش ہے لہٰذا جن لوگوں کے دلوں میں کجی اور ڈیڑھ پن ہے ۔ وہ قرآن کے اس حصہ اور ان آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو مختلف المعنی اور مشتبہ المراد ہیں تا کہ یہ لوگ دین میں کوئی شورش و فتنہ تلاش کریں نیز ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اش مشتبہ المراد کی کوئی غلط توجیہہ اور تاویل تلاش کریں اور اس کو اپنے مطلب کے معنی پہنائیں، حالانکہ ان مشتبہ المراد آیات کا اور قرآن کے اس مشتبہ المرادحصہ کا صحیح مفہوم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں اور علم دین میں پختہ اور مضبوط ہیں اور وہ قرآن کے اش مشتبہ المرادحصہ کے متعلق یوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں یہ سب ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے یعنی خواہ وہ ظاہر المعنی آیات ہوں یا ان کے معنی خفی ہوں سب ہمارے رب کی جانب سے نازل شدہ ہیں اور بات یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں اور وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو دانش مند اور اہل عقل و خرد ہیں۔ ( تیسیر) حکم کے اصل معنی روکنے کے ہیں ۔ محکم مضبوط اور پختہ آیات محکمات سے یہاں قرآن کی وہ آیات مراد ہیں جو ہر قسم کے اشتباہ سے محفوظ ہوں ۔ شبہ کے معنی مثل کے ہیں اسی شے تشابہ اور مشابہت ہے جو دو چیزیں آپس میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں وہاں بولا جاتا ہے یہاں متشابہات سے مراد قرآن کی وہ آیات ہیں جن کے معنی اور جن کی مراد ظاہر نہ ہو ۔ تفصیل آگے عرض کی جائے گی۔ زیخ کے معنی راستی اور استقامت سے مائل ہوجانا ، یعنی ایک طرف کو جھک جانا ، کج ہوجانا ٹیڑھا ہوجانا عام طور سے قرآن نے اس کو قلب کی بیماریوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ راہ مستقیم سے جب کسی بدنصیب انسان کا دل پھر جائے اور باطل کی جانب متوجہ ہوجائے تو اس موقع پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة صف میں ہے ۔ فلما زاغوازاغ اللہ قلوبھم رسخ کے معنی ثابت پختہ جمے ہوئے کے ہیں ۔ راسخون فی العلم سے مراد وہ اہل علم ہیں جو اپنے علم میں نہایت مضبوط اور ہر قسم کے شبہات سے محفوظ ہیں ۔ اول کے معنی ہیں کسی شے کا اپنی اصل کی طرف لوٹنا اور کسی چیز کو اس کی غایت مراد کی طرف پھرنا اسی لئے تاویل کے دو معنی کے جاتے ہیں ایک حقیقت شئی اور ایک انجا م شئے مطلب آیت زیر بحث کا یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے آپ پر اے پیغمبر نازل فرمایا ہے اس کی آیات اپنے منطوق اور مفہوم کے اعتبار سے دو طرح کی ہیں ایک کا نام ان میں سے محکمات ہے اور یہی آیات اصل کتاب اور قرآن کریم کی بنیاد ہیں اور دوسری آیات کا نام متشابہات ہے ۔ لہٰذا اب جن لوگوں کے دل میں زیغ اور کجی ہے وہ تو دین میں فتنہ اور فساد کی جستجو اور تلاش کی غرض سے ان آیات متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اس غرض سے متشابہات کے پیچھے چلتے ہیں کہ ان کی حقیقت تلاش کریں اور اپنے مطلب کے معنی بیان کریں ، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کا صحیح اور حقیقی مفہوم سوائے اللہ تعالیٰ کے یا جس کو وہ بتادے اور کوئی دوسرا نہیں جانتا اور پختہ کار اہل علم کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم ان متشابہات پر ایمان رکھتے ہیں اس لئے کہ مقصود ان آیات سے یہی ہے کہ ان پر ایمان لائو یہ سب کا سب قرآن خواہ محکمات ہو اور خواہ متشابہات سب ہمارے رب ہی کی جانب سے نالز ہوا ہے اور نصیحت کی باتیں صرف وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل سلیم سے بہرہ مند ہیں آیت کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اس موقعہ پر چند گزارشات ک دل نشین کرلینا ضروری ۔ 1۔ مشتابہ کی معنی ہم نے آپس میں ملتی جلتی بتائے ہیں جس طرح ایک لفظ کے بہت سے معنی باہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اسی طرح قرآن کی تمام آیات اپنی خوبی اور اپنے حسن اور کمال فصاحت کی وجہ سے آپس میں ملتی جلتی اور باہم متشابہ ہیں اور چونکہ محکم کے معنی مضبوط کے ہیں اور قرآن کی تمام آیات کلام الٰہی ہونے کی وجہ سے پختہ مضبوط اور محکم ہیں۔ اس لئے تمام آیات کو محکم بھی کہا جاسکتا ہے اور چونکہ قرآن کریم کی تمام آیات کو حق ہونے کی وجہ سے محکم اور حسن و خوبی میں باہم مماثل ہونے کی وجہ سے متشابہ کہہ سکتے ہیں اس لئے اب اس شبہ کی گنجائش نہ رہی کہ سورة ٔ زمر میں اللہ تعالیٰ نے پوری کتاب کو متشابہ اور سورة ہود میں تمام آیات کو محکم کیوں فرمایا ہے اور اسی شبہ کو رفع کرنے کی وجہ سے ہم نے تسہیل میں ( منطوق و مفہوم کے اعتبار دو طرح کی ہیں) عرض کیا ہے تا کہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ یہاں مفہوم اور منطوق کی حیثیت سے تقسیم کا بیان ہے۔ 2۔ دین فطرت اور دین حق کا انداز تمام ادیان باطلہ سے جدا اور ممتاز ہے مثلاً دین باطل میں بت پرستی ہے اور ایک مشرک کے سامنے بت رکھا ہوتا ہے وہ اس کی حالت کو جانتا ہے بلکہ وہ بت اسی صنم پرست کے ہاتھ کا بنا ہوا ہے اس لئے وہ اس کی حقیقت اور ماہیت کو خوب سمجھتا ہے وہ بت پرست جانتا ہے کہ یہ میرا بنایا ہوا ہے یہ ایک دیوتا کی مورت ہے اور یہ پتھر یا لکڑی کی بنی ہوئی ہے لیکن دین حق میں صرف ایک بن دیکھے خدا کی طرف دعوت دی گئی ہے وہ بن دیکھا خدا نہ دیکھا جاسکتا ہے نہ اس کو ہاتھ لگا کر چھوا جاسکتا ہے نہ اس کی ذات وصفات کی حقیقت کا پتہ لگ سکتا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے وہ قادر مطلق ہے وہ سنتا ہے وہ انسانی قلوب کے بھیدوں سے واقف ہے وہ کلام کرتا ہے یہ قرآن اسی کا کلام ہے۔ وہ عرش پر قائم ہے ، قرآن یہ سب باتیں بتاتا ہے اور جس کے متعلق بتاتا ہے وہ نظر کے سامنے نہیں اور قرآن جس زبان میں یہ صفات بیان کرتا ہے وہ وہی عربی زبان ہے۔ جس میں قرآن نازل ہوا ہے ، وہ سننے کو سمع سے اور دیکھنے کو بصر سے اور عرص پر قائم ہونے کو استوا اعلیٰ العرش سے سمجھاتا ہے۔ اب بجز اس کے کیا چارہ ہے کہ ہم ان سب چیزوں پر ایمان لائیں اور ساتھ ہی ان الفاظ کے صحیح معنی اور صحیح مراد متعین کرنے میں اپنی عاجزی اور بےبسی کا اظہار کریں اس لئے کہ ہم کو اگرچہ ان الفاظ کے معنی تو معلوم ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے سننے اور دیکھنے اور عرش پر قائم ہونے کی صحیح حقیقت نہیں سمجھ سکتے اور یہ بات صرف ان ہی الفاظ قرآنی پر موقوف نہیں بلکہ ان تمام امور فوق الطبعیات پر یہ بات صادق آتی ہے جو انسانی عقو ل اور انسانی فہم و ادراک سے ماورا اور بالا تر ہیں اور آسمانی کتابیں ان کو اپنی اپنی زبان میں بیان کرتی چلی آئی ہیں ۔ اللہ تعلیٰ کی ذات وصفات پر کیا موقوف ہے۔ عالم برزخ اور عالم ارواح سب کی یہی حالت ہے چونکہ سلف نے کسی خاص ضرورت کی وجہ سے چند چیزوں پر بحث کی ہے اس لئے وہی چیزیں عام طور سے مفسرین کی بحث کا بھی موضوع بنی ہوئی ہیں ، مثلاً حروف مقطعات ، استوا علی العرش ید اللہ اور سمع و بصر وغیرہ۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس جملہ قیودات سے پاک اور دوسری طرف انسانی اعضاء کا اثبات ایک طرف جملہ قیودات مکانی سے منزلہ اور دوسری طرف عرش پر قیام یہی وہ چیزیں ہیں کہ جن کو قرآن نے متشابہات فرمایا ہے اور یہی وہ متشابہات ہیں جن کو سلف نے معنی معلوم اور حقیقت مجہول کہا ہے اور یہی دو امور ہیں جن پر سلف بلا کسی توجیہہ اور تاویل کے ایمان رکھتے تھے اور ان پر بحث کرنے سے اجتناب کرتے تھے اور اس راہ میں سلف ہی کا طریقہ اسلم اور اس قابل ہے کہ اس کو اختیار کیا جائے اگرچہ خلف نے اہل باطل کو جواب دینے اور سمجھانے کی غرض سے توجیہہ او تاویل کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اس سے فقیر کا انکار نہیں لیکن اسلم احوط اور حفظ طریقہ وہی ہے جو سلف کا طریقہ ہے رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اتنا ہی ہر مسلمان کی نجات کیلئے کافی ہے کہ امنا بہ کل من عند ربنا۔ 3۔ اور یہ جو فرمایا کہ ام الکتاب ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی آیتیں قرآن کریم کی بنیاد ہیں اس لئے متشابہات کے معنی ان ہی کے موافق کرنے چاہئیں اور کوئی مطلب متشابہات کا ایسا نہیں بیان کرنا چاہئے جو آیات محکمات کے خلاف ہو۔ 4۔ محکمات وہ آیتیں ہیں جن کی عبارت بالکل صاف ہو اور ایک لغت عربی کے عالم کو اس کے معنی سمجھنے میں کوئی اشتباہ نہ ہو خواہ بلا تامل سمجھ لے خواہ تھوڑے سے تامل کے بعد سمجھ لے یہی وہ آیتیں ہیں جو نزول قرآن کی غرض کو پورا کرتی ہیں ان ہی میں عبرت و موعظمت اور عقائد و اعمال اور امر و نواہی عبادات و اخلاق وغیرہ کے احکام بیان کئے گئے ہیں ان ہی میں گمراہوں کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور ان ہی آیات میں انسانی ضروریات کے ہر شعبہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دنیا کے لیے ایک مکمل پروگرام بتایا ہے جو معاش و معاد کے لئے کافی ہے اور تشنگان راہ حق کو سیراب کرنے اور گمشدگان راہ حق کو صحیح راہ بتانے کے لئے کافی ہے۔ (5) متشابہات وہ آیات ہیں کہ جن کی مراد سامع پر مشتبہ ہو اور باوجود طلب و تامل کے اس کی اصلی مراد معلوم نہ ہو سکے مگر یہ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اس کے معنی اور مراد بیان فرما دیں یا کسی کو انوار نبوت کی برکت سے شرح صدر کی دولت نصیب ہوجائے ان متشابہات کی مختلف اقسام ہیں مثلاً آیت متشابہ کا لغوی مدلول بھی معلوم نہ ہو ۔ جیسے حروف مقطعات یا یہ کہ اس کے لغوی معنی اور مدلول تو معلوم ہے لیکن کسی عقلی یا نقلی محذور کی وجہ سے لغوی مدلول مراد نہ لے سکیں ، پھر اگر کسی کو مدلول لغوی معلوم ہو تو اس کی بھی یہ شکل ہوسکتی ہے کہ مدلول لغوی واحد ہو یا اس کا لغوی مدلول متعدد ہو اور چند معنی میں مشترک اور مخمل ہو پھر جو بہت سے معنی کو مشترک ہو اس میں بھی یہ احتمال ہے کہ کسی ایک کو مدلول اور ایک معنی کو کسی دلیل قطعی یا دلیل ظنی سے ترجیح دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو بلکہ تمام مدلولات کی حیثیت مساوی ہو یہ تمام صورتیں متشابہ کی ہیں ۔ 6۔ ایک تقسیم علماء اصول نے بھی کی ہے وہ بھی خیال میں رہنی چاہئے اگرچہ اس کی نوعیت ذرا مختلف ہے ان کے ہاں تقسیم اس طرح ہے ظاہر نص ، مفسر ، محکم پھر ان چار قسموں کے مقابل چار قسمیں اور ہیں ۔ خفی ، مجمل اور متشابہ یہ سب صورتیں الفاظ کے ظہور اور خفا پر مبنی ہیں مثلاً کسی کلام کے معنی ظاہر ہیں مگر یہ ظاہری معنی کسی تاویل کے مخمل ہیں یا نہیں ہیں اور اگر معنی کا ظہور مجرد صیغہ کے ساتھ ہو تو وہ ظاہ رہے اور اگر ظہور کے ساتھ سوق کلام بھی اس کا موید ہو تو وہ نص ہے اسی طرح جس میں اجتمال تاویل تو نہ ہو مگر نسخ کا احتمال ہو تو وہ مفسر ہے اور اگر نسخ کا احتمال نہ ہو تو وہ محکم ہے اور اگر کلام کے معنی میں خفا ہو تو پھر کئی صورتیں ہیں اگر خفا نفس صیغہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ کسی عارض کی وجہ سے ہو تو وہ خفی ہے اگر نفس صیغہ کی وجہ سے ہو مگر تامل سے معنی سمجھے جاسکتے ہیں تو مشکل ہے اور اگر متکلم کی جانب تو ضیح مراد ہو تو مجمل ہے اور اگر توقع بھی نہ ہو اور غور و تامل سے حقیقی معنی کا ادراک بھی نہ ہو تو متشابہ ہے۔ 7۔ متشابہات کے متعلق علماء کے دو قول ہیں ایک تو یہ کہ ان کے تعین معنی اور حقیقی مراد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور دوسرا قول یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ بھی حقیقی مراد ہے واقف تھے۔ 8۔ چونکہ یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت حق جل مجدہٗ کی تمام صفات خواہ وہ سمع ہو یا بصر ہو یا نزول الی السماء الدنیا ہو یا استوار علی العرش ہو وہ صفات ایسی نہیں ہیں جو مستلزم بالمادیۃ ہوں اس لئے احتیاط کا مقتضا یہ ہے کہ لغوی معنی تو کیے جائیں لیکن ساتھ میں یہ قید لگا دیجئے کہ وہ سنتا ہے مگر اس کا سننا ہماری طرح کا سننا نہیں ہے ، وہ دیکھتا ہے مگر اس کا دیکھنا ہمارا جیسا دیکھنا نہیں ہے وہ عرش پر اپنی شان کے لائق قائم ہے اس طرح سلف اور خلف کے طریقہ میں مآل کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں رہتا ۔ 9۔ سلف کے قول کو ہم ابھی اوپر عرض کرچکے ہیں ان کا مسلک یہ ہے کہ استوا معلوم کیفیت مجہول استوا پر ایمان واجب اور اس کی پوچھ گچھ کرنا بدعت۔ 01۔ لیکن جیسا کہ فقیر نے عرض کیا کہ خلف کو دشواریاں تبلیغ میں پیش آئیں اور عجم کو قرآن سمجھانے میں جو دقتیں رونما ہوئیں اس لئے انہوں نے متشابہات میں ایک خاص طریقہ اختیار کیا جو ان تبلیغی اور اہم مقاصد کے لحاظ سے جائز تھا اور اس خاص طریقہ کے اختیار کرنے میں سلف کی مخالفت کا الزام ان پر عائد نہیں کرنا چاہئے۔ 11۔ ہمارے اس خلاصہ کے بعد جو ہم نے بہت سی تفاسیر سے کیا ہے تیسر اور تسہیل کا مطلب واضح ہوگیا ہوگا چناچہ ہماری ان گذارشات کے بعد یہ معلوم ہوگیا ہوگا کہ بجائے اس کے کہ متشابہ کی مراد محکم سے حاصل کریں اور متشابہات کو اپنے مطلب کے معنی پہنانے کی جستجو میں رہتی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دین فطرت میں فتنہ برپا کریں۔ جیسا کہ اہل باطل کا دستور چلا آتا ہے اور ان سب اہل باطل میں اول جس فرقہ نے خروج کیا وہ نبی کریم ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق خوارج کا فرقہ تھا اللھم ارنا الحق حقا دار زقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا دار زقنا اجتنا بہ واجعلنا ممن بذکر من اولی الباب حضر ت شاہ صاحب (رح) ارشاد فرماتے ہیں کہ اس سورت میں نصاریٰ کو سمجھنا منظور ہے کہ حضرت مریم کو خدا کی عورت کہتے اور حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا اور وہ بہکے تھے اس پر کہ اللہ کی مہربانی کے الفاظ ان کے حق میں سنے تھے ایسے کہ بندگی سے زیادہ مرتبہ چاہیں ۔ اس واسطے اللہ صاحب فرماتا ہے کہ ہر کلام میں اللہ نے بعض باتیں رکھیں ہیں جن کے معنی صاف نہیں کھلتے تو جو گمراہ ہو ان کے معنی عقل سے لگے پڑنے اور جو مضبوط علم رکھے وہ ان کے معنی اور آیتوں سے ملا کر سمجھے جو جڑ کتاب کی ہے اس کے موافق سمجھ پائے تو سمجھے اور اگر نہ ۔۔۔ پاوے تو اللہ پر چھوڑے کہ وہی بہتر جانے ہم کو ایمان سے کام ( موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) کب عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ نصاریٰ نے انجیل کے ایسے الفا ظ کو اختیار کرلیا جو متشابہ کے حکم میں تھے اور محض حضرت حق نے اپنی مہربانی سے وہ پیار کے الفاظ اپنی مخلوق کے لئے یا حضرت عیسیٰ کے لئے استعمال کئے تھے ان لوگوں نے اپنے مطلب کی تاویل کرکے عیسیٰ کو خدا کا بیٹا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کو خدا کی بیوی کہا اور ان کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت میں شریک کر کے اقانیم ثلاثہ کی شکل وضع کی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روح اللہ اور کلمۃ اللہ سے جو استدلال وفد نجران نے کیا تھا اس کا جواب ہو کہ یہ اضافت تشریفی ہے اور یہ الفاظ متشابہات میں سے ہیں ان کا مطلب آیات محکمات کو دیکھنے سے یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ایک ایسی روح ہیں جس کے موجود ہونے کا سبب صرف اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا کلمہ کن ہے اور دوسرے اسباب پیدائش سے وہ منزہ ہیں اب آگے ان راسخون فی العلم کی دعا نقل ہوتی ہے کہ وہ لوگ اس قدر پختہ مسلمان ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس طرح عاجزانہ درخواست کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پختہ مسلمانوں کو دعا تعلیم فرمائی گئی ہو اور مطلب یہ ہو کہ باوجود پختہ مسلمان ہونے کے ہم سے یوں دعا کیا کرو چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیلض
Top