Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 6
هُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُكُمْ فِی الْاَرْحَامِ كَیْفَ یَشَآءُ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
ھُوَ : وہی ہے الَّذِيْ : جو کہ يُصَوِّرُكُمْ : صورت بناتا ہے تمہاری فِي : میں الْاَرْحَامِ : رحم (جمع) كَيْفَ : جیسے يَشَآءُ : وہ چاہے لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْعَزِيْزُ : زبردست الْحَكِيْمُ : حکمت والا
وہی تو ہے جو (ماں کے پیٹ) جیسی چاہتا ہے تمہاری صورتیں بناتا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں
آیت نمبر : 6۔ اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ھو الذی یصورکم “۔ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کے رحموں میں انسان کی تصویریں بنانے کی خبر دی ہے اور رحم کی اصل رحمۃ سے ہے، کیونکہ یہ ان میں سے ہے جن کے ساتھ ایک دوسرے پر رحم کیا جاتا ہے اور صورۃ کا اشتقاق صارہ الی کذا سے ہے جب وہ اس کی طرف مائل ہوجائے، پس صورت مائل ہوتی ہے ایک شبیہ اور ہیئت کی طرف۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان کو بیان کرتی ہے اور اس کے ضمن میں نجران کے عیسائیوں کا رد ہے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان میں سے ہیں جنکی تصوریں بنائی گئیں اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی عقلمند انکار نہیں کرسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے سورة الحج اور المومنون میں تصویر کی شرح اور وضاحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ نے حدیث ابن مسعود ؓ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 400 دارالکتب العلمیہ) میں اس کی وضاحت کی ہے، جیسا کہ وہاں اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور اس میں طبائعیین کا بھی رد ہے کیونکہ وہ اسے مستقل فاعل بناتے ہیں اور ان کا رد آیۃ التوحید میں گزر چکا ہے اور مسند ابن سنجر میں حدیث ہے۔ (ان کا نام محمد بن سنجر ہے) ‘’ بیشک اللہ تعالیٰ جنین کی ہڈیاں اور اس کی غضاریف (کچی ہڈیاں جو کھائی جاسکتی ہیں) مرد کی منی سے اور اس کی چربی اور گوشت عورت کی منی سے پیدا فرماتا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 400 دارالکتب العلمیہ) اور اس میں اس پر بہت بڑی دلیل ہے کہ بچہ مرد اور عورت کے پانی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں صریحا موجود ہے۔ (آیت) ” یایھا الناس انا خلقنکم من ذکر وانثی “۔ (الحجرات : 13) ترجمہ : اے لوگو ! ہم نے پیدا کیا ہے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ثوبان ؓ کی حدیث میں ہے “ کہ ایک یہودی نے حضور نبی مکرم ﷺ سے کہا : میں ایک شے کے بارے آپ سے سوال کرنے کے لئے آیا ہوں۔ سوائے نبی یا ایک آدمی یا دو آدمیوں کے اہل زمین میں سے کوئی اسے نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا : ” تجھے نفع ہوگا اگر میں تجھے بتا دوں ؟ “ اس نے کہا : میں کان لگا کر پورے غور سے سنوں گا، پھر اس نے کہا : میں بچے کے بارے آپ سے پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : آدمی کا پانی سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی زرد، اور جب وہ دونوں جمع ہوجائیں اور مرد کی منی عورت کی منی پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچہ (مذکر) پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کی منی مرد کی منی پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے بچی پیدا ہوتی ہے (1) (صحیح مسلم، کتاب المحیض، جلد 1، صفحہ 146) الحدیث، اس کا بیان سورة الشوری کے آخر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” کیف یشآء “ یعنی جسے وہ چاہتا ہے خوبصورت یا بدصورت، سیاہ اور سفید، طویل القامت یا پستہ قدم، اعضاء کے اعتبار سے صحیح سالم یا اپاہج (پیدا کرتا ہے) یہاں تک کہ اس کا شقی (بدبخت) ہونا اور سعید ہونا وغیرہ۔ حضرت ابراہیم بن ادھم (رح) سے ذکر کیا گیا کہ قرآء آپ کے پاس جمع ہیں تاکہ جو احادیث آپ کے پاس ہیں وہ انہیں سنیں۔ تو آپ نے انہیں فرمایا : میں تم سے چار چیزوں کے سبب مشغول ہوں اور میں روایت حدیث کے لئے فارغ نہیں ہوں، تو آپ سے عرض کی گئی : وہ مشغولیت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ان میں سے ایک یہ ہے کہ یوم میثاق میں غور وفکر اس حیثیت سے کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” یہ جنت میں ہوں گے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے اور یہ جہنم میں ہوں گے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ “ اور میں نہیں جانتا اس وقت میں کون سے فریق میں تھا اور دوسری یہ ہے کہ رحم میں میری صورت بنائی گئی تو اس فرشتے نے کہا جو رحموں پر مقرر ہے :” اے میرے رب ! یہ شقی ہے یا سعید ہے (2) (صحیح بخاری، باب ذکر الملائکہ، حدیث نمبر 2969، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو میں نہیں جانتا اس وقت اللہ تعالیٰ نے کیا جواب دیا، اور تیسری چیز یہ ہے کہ جس وقت ملک الموت میری روح قبض کرے گا تو یہ کہے گا : ” اے میرے رب ! کفر کے ساتھ یا ایمان کے ساتھ “ تو میں نہیں جانتا جواب کیسا ہوگا، اور چوتھی شے یہ ہے کہ وہ کہے گا۔ (آیت) ” وامتازو الیوم ایھا المجرمون “۔ (یسین) ترجمہ : اور (حکم ہوگا) اے مجرمو ! (میرے دوستوں سے) آج الگ ہوجاؤ۔ تو میں نہیں جانتا میں کون سے فریق میں ہوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لا الہ الا ھو “۔ یعنی اس کے سوا کوئی خالق نہیں اور نہ کوئی مصور (تصویر بنانے والا) ہے اور یہ اس کی وحدانیت پر دلیل ہے، پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کیسے الہ مصور ہوسکتے ہیں حالانکہ ان کی تصویر بنائی گئی ہے یعنی وہ مصور ہیں۔ (آیت) ” العزیز “۔ سے مراد وہ ہے جو مغلوب نہیں ہو سکتا۔ ” الحکیم “۔ سے مراد ذوالحکمت (صاحب حکمت) یا محکم “۔ (حکم (دانا بنانے والا) دینے والا) ہے۔ یہ اس کے مقابلہ میں اخص ہے جو تصویر کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔
Top