Kashf-ur-Rahman - At-Tur : 16
اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا١ۚ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
اِصْلَوْهَا : جھلسو اس میں فَاصْبِرُوْٓا : پس صبر کرو اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ : یا نہ تم صبر کرو سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ ۭ : برابر ہے تم پر اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم بدلہ دیئے جاتے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
جائو اس دوزخ میں داخل ہوجائو پھر اب تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو تمہارے لئے دونوں باتیں برابر ہیں پس تم کو ویسا ہی بدلا دیا جائے گا جیسے اعمال تم کیا کرتے تھے۔
(16) جائو اس دوزخ میں داخل ہوجائو پھر اب تم خواہ صبر کرو یا صبرنہ کرو تمہارے لئے دونوں باتیں برابر ہیں۔ بس تم کو ویسا ہی بدلا دیاجائے گا جیسے اعمال تم کیا کرتے تھے - یہ قسمیں مجازاۃ عمل کی غرض سے ارشاد فرمائیں کیونکہ منکرین قیامت اور جزائے اعمال کے منکروں کا جس قدر ان کا بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس کے اثبات کو موکد فرماتے ہیں۔ طور سے مراد ہی پہاڑ ہے جس پر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا تھا لکھی ہوئی کتاب جو کشادہ کاغذ میں لکھی ہوئی ہے اس سے مراد بظاہر صحائف اعمال ہیں جن کو نامہ اعمال کہتے ہیں یا مراد توریت ہے یا قرآن ہے یا تمام کتب سماویہ یا لوح محفوظ مراد ہیں اس بارے میں علماء کے کئی قول ہیں۔ آباد گھر سے مراد بظاہر خانہ کعبہ ہے یا بہت معمور جو اس کعبہ کے بالکل محاذ میں آسمان کے اوپر کوئی چیز ہے فرشتے جس کی زیارت اور طواف کرتے ہیں خواہ وہ ساتویں آسمان میں ہو یا پہلے آسمان پر یا کسی اور آسمان پر علی اختلاف الاقوال کہتے ہیں ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں بلند اور اونچی چھت سے مراد آسمان ہے اور یا عرش الٰہی ہے جوش مارتا ہوا سمندر۔ یہ شاید اس لئے فرمایا کہ جس طرح سمندر میں پانی جوش مارتا ہے اسی طرح جہنم میں آگ جوش مارتی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ اوپر کوئی دریا ہو اس کی طرف اشارہ ہو۔ جواب قسم ہے کہ پروردگار کا عذاب ضرور واقع ہوگا اس کو کوئی ہٹانے والا اور دفع کرنے والا نہیں ہم نے تیسیر میں عذاب سے پہلے اس دن کا لفظ بڑھا دیا ہے تاکہ یوم تمورالسمآء سے ربط کی عبادت درست ہوجائے یعنی وہ دن عذاب کا ہے جس دن آسمان لرزنے لگے اور جھٹکے کھانے لگے یعنی پھٹنے سے پہلے ایسا ہوگا پہاڑ ابتداء میں اپنی جگہ سے ہٹ کر چلنے لگیں گے پھر اڑنے لگیں گے اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اس دن ان منکروں کو دھکے دے کر جہنم میں لے جایا جائے گا۔ بےہودہ نکتہ چینی یعنی قرآن کو ایک مشغلہ اور کھیل بنارکھا ہے قرآن کی باتیں کرکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور قیامت کی اور دین حق کی تکذیب کرتے ہیں دوزخ کے کنارے پر پہنچا کر کہا جائے گا کیا یہ جادو ہے کیونکہ قرآن کے وعدے اور وعید کو جادو کہتے ہیں یا اب تم کو دکھائی نہیں دیتا جس طرح دنیا میں دوزخ دکھائی نہ دیتی تھی اور تم انکار کرتے تھے اب کہو کیا کہتے ہو اب تو یہ جہنم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے جائو اس میں داخل ہوجائو اب تم صبر کرو اور عذاب کو سہارو یا چیخو چلائو دونوں باتیں برابر ہیں یہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں جو کچھ تم نے کیا ہے اس کا بدلہ دیا جائے گا کچھ تم پر ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی۔ آگے اہل تقویٰ اور پرہیزگار مومنین کا ذکر فرمایا تاکہ دونوں فریق اہل حق اور اہل باطل کا انجام معلوم ہوجائے اور ہر انسان کو اپنے متعلق فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔
Top