Mutaliya-e-Quran - At-Tur : 16
اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا١ۚ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
اِصْلَوْهَا : جھلسو اس میں فَاصْبِرُوْٓا : پس صبر کرو اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ : یا نہ تم صبر کرو سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ ۭ : برابر ہے تم پر اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم بدلہ دیئے جاتے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
جاؤ اب جھلسو اِس کے اندر، تم خواہ صبر کرو یا نہ کرو، تمہارے لیے یکساں ہے، تمہیں ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے
اِصْلَوْهَا [ تم لوگ جا پڑو اس میں ] فَاصْبِرُوْٓا [ پھر (چاہیے ) صبر کرو ] اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ [ یا صبر مت کرو ] سَوَاۗءٌ عَلَيْكُمْ ۭ [ برابر ہے تم لوگوں پر ] اِنَّمَا تُجْزَوْنَ [ تم لوگوں کو تو بس بدلہ دیا جاتا ہے ] مَا [ وہ (ہی ) جو ] كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ [تم لوگ عمل کیا کرتے تھے ] نوٹ ۔ 1: سورة ذاریات میں آخرت کے امکان اس کے وجود اور وقوع کے دلائل دیے جاچکے تھے ۔ اس لیے یہاں ان کا اعادہ نہیں کیا گیا ۔ البتہ آخرت کی شہادت دینے والے چند حقائق و آثار کی قسم کھا کر پورے زور کے ساتھ فرمایا کہ وہ یقینا واقع ہوکر رہے گی ۔ طور وہ جگہ ہے جہاں ایک دبی اور پسی ہوئی قوم کو اٹھانے اور ایک غالب وقاہر قوم کو گرانیکا فیصلہ کیا گیا ۔ اور یہ فیصلہ قانون طبیعی ( Laws Physical) کی بیناد پر نہیں بلکہ قانون اخلاقی Moral Law اور قانون مکافات عمل (Law of Ratribtion) کی بنیاد پر تھا اس لیے آخرت کے حق میں تاریخی استدلال کے طور پر بطور ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا (تفہیم القرآن) نوٹ ۔ 2 ایک پھیلائی ہوئی پتلی چیز میں لکھی ہوئی کتاب سے شاید لوح محفوظ مراد ہو یا لوگوں کا اعمالنامہ یا قرآن یا تورات یا عام کتب سماویہ مراد ہوں یہ سب احتمالات ہیں ۔ (شیخ الہند)
Top