Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 16
اِصْلَوْهَا فَاصْبِرُوْۤا اَوْ لَا تَصْبِرُوْا١ۚ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ١ؕ اِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
اِصْلَوْهَا : جھلسو اس میں فَاصْبِرُوْٓا : پس صبر کرو اَوْ لَا تَصْبِرُوْا ۚ : یا نہ تم صبر کرو سَوَآءٌ عَلَيْكُمْ ۭ : برابر ہے تم پر اِنَّمَا تُجْزَوْنَ : بیشک تم بدلہ دیئے جاتے ہو مَا كُنْتُمْ : جو تھے تم تَعْمَلُوْنَ : تم عمل کرتے
اس میں داخل ہو جائو، اب صبر کردیا نہ کرو۔ تمہارے لیے یکساں ہے۔ تم وہی بدلے میں پا رہے ہو جو کرتے رہے تھے۔
۔۔۔۔ (16) حکم ہوا گا کہ جائو اس میں پڑو، تمہارے لیے اب کوئی مفر نہیں۔ خواہ صبر کرو یا رئو و چلائو، دونوں تمہارے لیے یکساں ہے، نہ صبر کی داد طنی ہے اور نہ آہ و فریاد کی شنوائی ہوئی ہے۔ (انما تجزون ما کنتم تعملون) یہ جو کچھ تمہارے سامنے آیا ہے تمہارے اپنے ہی اعمال ہیں۔ اگر تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی ہوئی ہوتی اور تم فریاد کرتے تو شنوائی اور فریاد رسی کی توقع کرسکتے تھے لیکن جب تمہاری اپنی ہی کمائی تمہارے سامنے آرہی ہے تو فریاد کس کے خلاف کرو گے اور شنوائی کی توقع کس سے کرو گے ! (انما تجزون ما کنتم تعملون) سے مراد یہ نہیں ہے کہ بعینہٖ وہ اعمال ان کے سامنے آئیں گے جو انہوں نے دنیا میں کیے ہوں گے بلکہ مراد ان اعمال کی حقیقتیں ہیں۔ دنیا میں انسان جو عمل بھی کرتا ہے، خواہ نیکی کا عملی ہو یابدی کا، وہ اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک خاص شکل اختیار کرتا ہے اور اسی شکل میں وہ عمل کرنے والے کے سامنے آئے گا، اگرچہ اس کی شکل اس سے مختلف ہوگی جس شکل میں وہ اس دنیا میں انجام پایا لیکن چونکہ وہ اسی کی بوئی ہوئی فصل کا حاصل ہوگا اس وجہ سے فرمایا کہ تم وہی بدلے میں پارب ہو جو تم دنیا میں کر کے آئے ہو
Top