Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 21
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يَا اَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو اعْبُدُوْا : عبادت کرو رَبَّكُمُ : تم اپنے رب کی الَّذِیْ : جس نے خَلَقَكُمْ : تمہیں پیدا کیا وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جو مِنْ : سے قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَتَّقُوْنَ : تم پرہیزگار ہوجاؤ
اے لوگو بندگی کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ
خلاصہ تفسیر
اے لوگو ! عبادت اختیار کرو اپنے پروردگار کی جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں عجب نہیں کہ تم دوزخ سے بچ جاؤ (شاہی محاورہ میں عجب نہیں کا لفظ وعدہ کے موقع پر بولا جاتا ہے) وہ ذات پاک ایسی ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر (پردہ عدم سے) نکالا بذریعہ اس پانی کے پھلوں سے غذا کو تم لوگوں کے واسطے اب ٹھراؤ اللہ پاک کے مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو، (یعنی یہ جانتے ہو کہ یہ تمام تصرّفات خدا تعالیٰ کے سوا کوئی کرنے والا نہیں پھر خدا کے مقابلہ میں دوسری چیزوں کو معبود بنانا کیسے درست ہوسکتا ہے)
معارف و مسائل
ربط آیات
سورة بقرہ کی دوسری آیت میں اس دعاء و درخواست کا جواب تھا جو سورة فاتحہ میں آئی ہے یعنی اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ جو صراط مستقیم تم طلب کرتے ہو وہ اس کتاب میں ہے کیونکہ قرآن کریم اول سے آخر تک صراط مستقیم ہی تشریح ہے،
اس کے بعد قرآنی ہدایات کو قبول کرنے اور نہ کرنے کے اعتبار سے انسان کے تین گروہوں کو بیان کیا گیا پہلی تین آیات میں مؤمنین متقین کا ذکر ہوا جنہوں نے ہدایات قرآنی کو اپنا نصب العین بنا لیا بعد کی دو آیتوں میں اس گروہ کا ذکر کیا جس نے کھلے طور پر اس ہدایت کی مخالفت کی اس کے بعد تیرہ آیتوں میں اس خطرناک گروہ کے حالات بیان کئے گئے جو حقیقت میں تو قرآنی ہدایات کے مخالف تھے مگر دنیا کی ذلیل اغراض یا مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے خیال سے اپنے کفر و مخالفت کو چھپا کر مسلمانوں میں شامل رہتے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے،
اسی طرح سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں ہدایت کے قبول کرنے اور نہ کرنے کے معیار پر کل انسانوں کو تین گروہوں میں بانٹ دیا گیا جس میں اس طرف بھی اشارہ پایا گیا کہ انسانوں کی گروہی اور قومی تقسیم نسب اور وطن یا زبان اور رنگ کی بنیادوں پر معقول نہیں بلکہ اس کی صحیح تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی ہدایات کو ماننے والے ایک قوم اور نہ ماننے والے دوسری قوم جن کو سورة مجادلہ میں حزب اللہ اور حزب الشیطان کا نام دیا گیا ،
غرض سورة بقرہ کی ابتدائی بیس آیتوں میں قرآنی ہدایات کو ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر انسان کو تین گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کا کچھ حال بیان فرمایا گیا،
اس کے بعد مذکورہ اکیسویں اور بائیسویں آیتوں میں تینوں گروہوں کو خطاب کرکے وہ دعوت پیش کی گئی ہے جس کے لئے قرآن نازل ہوا اس میں مخلوق پرستی سے باز آنے اور ایک خدا کی عبادت کرنے کی طرف دعوت ایسے انداز سے دی گئی ہے کہ اس میں دعویٰ کے ساتھ اس کے واضح دلائل بھی موجود ہیں جن میں ادنٰی سمجھ بوجھ والا انسان بھی ذرا سا غور کرے تو توحید کے اقرار پر مجبور ہوجائے،
پہلی آیت میں يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ سے خطاب شروع ہوا لفظ النَّاس عربی زبان میں مطلق انسان کے معنی میں آتا ہے اس لئے مذکورہ تینوں گروہ اسمیں داخل ہیں جن کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ عبادت کے معنی ہیں اپنی پوری طاقت مکمل فرمانبرداری میں صرف کرنا اور خوف و عظمت کے پیش نظر نافرمانی سے دور رہنا (روح البیان ص 74 ج 1) اور لفظ رَبّ کے معنی پروردگار کے ہیں جس کی پوری تشریح پہلے گذر چکی ہے، ترجمہ یہ ہوا کہ عبادت کرو اپنے رب کی،
یہاں پر لفظ رب کی جگہ لفظ اللہ یا اسما حسنیٰ میں سے کوئی اور نام بھی لایا جاسکتا تھا مگر ان میں سے اس جگہ لفظ رب کا انتخاب کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اس مختصر سے جملے میں دعوے کے ساتھ دلیل بھی آگئی کیونکہ عبادت کی مستحق صرف وہ ذات ہوسکتی ہے جو انسان کی پرورش کی کفیل ہو جو اس کو ایک قطرہ سے تدریجی تربیت کے ساتھ ایک بھلا چنگا، سمیع وبصیر، عقل و ادراک والا ماہر انسان بنا دے اور اس کی بقا وارتقاء کے وسائل مہیا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ انسان کتنا ہی جاہل ہو، اور اپنی بصیرت کو برباد کرچکا ہو جب بھی ذرا غور کرے گا تو اس کا یقین کرنے میں اسے ہرگز تامل نہیں ہوگا کہ یہ شان ربوبیت بجز حق تعالیٰ کے اور کسی میں نہیں اور انسان پر یہ مربّیانہ انعامات نہ کسی پتھر کے تراشے ہوئے بت نے کئے ہیں اور نہ کسی اور مخلوق نے اور وہ کیسے کرتے جب کہ وہ سب خود اپنے وجود اور بقاء میں اسی ذات واحد کے محتاج ہیں ایک محتاج دوسرے محتاج کی کیا حاجت روائی کرسکتا ہے ؟ اور اگر ظاہری طور پر کرے بھی تو وہ بھی درحقیقت اسی ذات کی تربیت ہوگی جس کی طرف یہ دونوں محتاج ہیں
خلاصہ یہ ہے کہ اس جگہ لفظ رب لا کر یہ واضح کردیا گیا کہ جس ذات کی عبادت کی طرف دعوت دی گئی ہے اس کے سوا کوئی دوسری ہستی عبادت کی مستحق ہو ہی نہیں سکتی اس جملہ میں انسانوں کے تینوں گروہوں کو خطاب ہے، اور ہر مخاطب کیلئے اس جملہ کا معنی ومطلب جدا ہے مثلاً جب کہا گیا کہ اپنے رب کی عبادت کرو تو کفار کے لئے اس خطاب کے معنی یہ ہوئے کہ مخلوق پرستی چھوڑ کر توحید اختیار کرو، اور منافقین کے لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ نفاق چھوڑ کر اخلاص پیدا کرو گناہ گار مسلمانوں کے لئے معنی یہ ہوئے کہ گناہ سے باز آؤ اور کامل اطاعت اختیار کرو اور متقی مسلمانوں کے لئے اس جملہ کے یہ معنی ہوئے کہ اپنی اطاعت و عبادت پر ہمیشہ قائم رہو اور اس میں ترقی کی کوشش کرو (روح البیان) اس کے بعد رب کی چند صفات خاصہ کا ذکر کر کے اس مضمون کی مزید توضیح فرمادی گئی ارشاد ہوتا ہے
الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان قوموں کو بھی جو تم سے پہلے گذر چکی ہیں اس میں رب کی وہ صفت بتلائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق میں پائے جانے کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا کہ نیست سے ہست اور نابود سے بود کرنا پھر بطن مادر کی تاریکیوں اور گندگیوں میں ایسا حسین و جمیل پاک وصاف انسان بنادینا کہ فرشتے بھی اس کی پاکی پر رشک کریں یہ سوائے اس ذات حق کے کس کا کام ہوسکتا جو کسی کا محتاج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں اس آیت میں خَلَقَكُمْ کے ساتھ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ کا اضافہ کرکے ایک تو یہ بتلا دیا کہ تم اور تمہارے آباء و اجداد یعنی تمام بنی نوع انسان کا خالق وہی پروردگار ہے دوسرے صرف مِنْ قَبْلِكُمْ کا ذکر فرمایا مِنْ بَعدِكُمْ یعنی بعد میں پیدا ہونے والے لوگوں کا ذکر نہیں کیا اس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے بعد کوئی دوسری امت یا دوسری ملت نہیں ہوگی کیونکہ خاتم النبین ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی مبعوث ہوگا نہ اس کی کوئی جدید امت ہوگی اس کے بعد اسی آیت کا آخری جملہ ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی دنیا میں گمراہی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کی امید تمہارے لئے صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ توحید کو اختیار کرو اور شرک سے باز آؤ
کسی کا عمل اس کی نجات اور جنت کا یقینی سبب نہیں
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ اس جملہ میں لفظ لَعَلَّ استعمال فرمایا ہے جو رجاء یعنی امید کے معنی میں آتا ہے اور ایسے مواقع پر بولا جاتا ہے جہاں کسی فعل کا وقوع یقینی نہ ہو حکم ایمان و توحید کے نتیجہ میں نجات اور جنت کا حصول وعدہ الیہہ کے مطابق یقینی ہے مگر اس یقینی شے کو امید ورجاء کے عنوان سے بیان کرنے میں حکمت یہ بتلانا ہے کہ انسان کا کوئی عمل اپنی ذات میں نجات وجنت کی قیمت نہیں بن سکتا بلکہ فضل خداوندی اس کا اصل سبب ہے ایمان وعمل کی توفیق ہونا اس فضل خداوندی کی علامت ہے علت نہیں۔
عقیدہ توحید ہی دنیا میں امن امان اور سکون و اطمینان کا ضامن ہے
عقیدہ توحید جو اسلام کا سب سے پہلا بنیادی عقیدہ ہے یہ صرف ایک نظریہ نہیں بلکہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنانے کا واحد ذریعہ ہے جو انسان کی تمام مشکلات کا حل اور ہر حالت میں اس کے لئے پناہ گاہ اور ہر غم وفکر میں اس کا غمگسار ہے کیونکہ عقیدہ توحید کا حاصل یہ ہے کہ عناصر کے کون و فساد اور ان کے سارے تغیرات صرف ایک ہستی کی مشیت کے تابع اور اس کی حکمت کے مظاہر ہیں،
ہر تغیر ہے غیب کی آواز
ہر تجدد میں ہیں ہزاروں راز
اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ کسی کے قلب و دماغ پر چھا جائے اور اس کا حال بن جائے تو یہ دنیا ہی اس کے لئے جنت بن جائے گی سارے جھگڑے فساد اور ہر فساد کی بنیاد ہی منہدم ہوجائیں گی کیونکہ اس کے سامنے یہ سبق ہوگا
از خداداں خلاف دشمن ودوست
کہ دل ہر دودر تصرف اوست
اس عقیدہ کا مالک ساری دنیا سے بےنیاز ہر خوف وخطر سے بالا تر زندگی گذارتا ہے اس کا حال یہ ہوتا ہے ،
موحد چہ برپائے ریزی زرش چہ فولاد ہندی نہی برسرش
امید وہراسش نباشد زکس ہمیں است بنیاد توحید وبس
کلمہ الا الہٰ الہ اللہ جو کلمہ توحید کہلاتا ہے اس کا یہی مفہوم ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ توحید کا محض زبانی اقرار اسکے لئے کافی نہیں بلکہ سچے دل سے اس کا یقین اور یقین کے ساتھ استحضار ضروری ہے کیونکہ توحید خدا واحد دیدن بودنہ واحد گفتن،
کلمہ لا الہٰ الّا اللہ کے پڑھنے والے دنیا میں کروڑوں ہیں اور اتنے ہیں کہ کسی زمانے میں اتنے نہیں ہوئے لیکن عام طور پر یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے توحید کا رنگ ان میں رچا نہیں ورنہ ان کا وہی حال ہوتا جو پہلے بزرگوں کا تھا کہ نہ کوئی بڑی سے بڑی قوت و طاقت ان کو مرعوب کرسکتی تھی اور نہ کسی قوم کی عددی اکثریت ان پر اثرانداز ہوسکتی تھی نہ کوئی بڑی سے بڑی دولت و سلطنت ان کے قلوب کو خلاف حق اپنی طرف جھکا سکتی تھی ایک پیغمبر کھڑا ہو کر ساری دنیا کو للکار کر کہہ دیتا تھا کہ تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ انبیاء کے بعد صحابہ کرام اور تابعین جو تھوڑی سے مدت میں دنیا پر چھا گئے ان کی طاقت وقوت اسی حقیقی توحید میں مضمر تھی اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو یہ دولت نصیب فرمائے،
Top