Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ
: اور جب
غَدَوْتَ
: آپ صبح سویرے
مِنْ
: سے
اَھْلِكَ
: اپنے گھر
تُبَوِّئُ
: بٹھانے لگے
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
مَقَاعِدَ
: ٹھکانے
لِلْقِتَالِ
: جنگ کے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
سَمِيْعٌ
: سننے والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
اور جب صبح کو نکلا تو اپنے گھر سے بٹھلانے لگا مسلمانوں کو لڑائی کے ٹھکانوں پر اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے
ربط آیات
گزشتہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ اگر مسلمان صبر وتقوی پر قائم رہیں تو کوئی طاقت ان کو ضرر نہیں پہنچا سکتی، اور یہ کہ غزوہ احد کے موقع پر جو عارضی شکست اور تکلیف مسلمانوں کو پہنچی وہ انہی دو چیزوں میں بعض حضرات کی طرف سے کوتاہی کی بناء پر تھی، مذکورہ آیات میں اسی غزوہ احد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اور غزوہ بدر میں فتح کا۔
خلاصہ تفسیر
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب کہ آپ صبح کے وقت (تاریخ قتال سے پہلے) اپنے گھر سے (اس غرض سے) نکلے (کہ) مسلمانوں کو (کفار سے) مقاتلہ کرنے کے لئے (مناسب) مقامات پر جمانے (کے لئے آمادہ کر) رہے تھے (پھر اسی تجویز کے مطابق سب کو ان مقامات پر جمادیا) اور اللہ تعالیٰ (اس وقت کی باتیں) سب سن رہے تھے (اور اس وقت کے حالات) سب جان رہے تھے (اسی کے ساتھ یہ قصہ بھی ہوا کہ) تم (مسلمانوں) میں سے دو جماعتوں نے (کہ وہ بنی سلمہ اور بنی حارثہ ہیں) دل میں خیال کیا کہ ہمت ہاریں (اور ہم بھی عبداللہ بن ابی منافق کی طرح اپنے گھر جابیٹھیں) اور اللہ تعالیٰ تو ان دونوں جماعتوں کا مددگار تھا، (بھلا ان کو کب ہمت ہارنے دیتا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس خیال پر عمل کرنے سے محفوظ رکھا) اور (ہم آئندہ کے لئے ان جماعتوں اور سب کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب تم مسلمان ہو) پس مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد کرنا چاہئے (اور ایسی کم ہمتی کبھی نہ کرنا چاہئے) اور یہ بات محقق ہے کہ حق تعالیٰ نے تم کو (غزوہ) بدر میں منصور فرمایا، حالانکہ تم (محض) بےسروسامان تھے (کیونکہ مجمع بھی کفار کے مقابلہ میں کم تھا، وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ تھے اور ہتھیار وغیرہ بھی بہت کم تھے) سو (چونکہ یہ منصور بدولت تقوی کے تھا جس میں استقلال و صبر بھی داخل ہے تو تم پر لازم ہے کہ آئندہ بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو (اسی کا نام تقوی ہے) تاکہ تم (اس نعمت نصرت کے) شکر گزار رہو، (کیونکہ شکر گزاری صرف زبان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پورا شکر یہ ہے کہ زبان اور قلب بھی مشغول ہو اور اطاعت کی بھی پابندی ہو بالخصوص جبکہ اس اطاعت کا اس نعمت میں دخیل ہونا بھی ثابت ہوجائے)۔
معارف و مسائل
غزوہ احد کا پس منظرآیت مذکورہ کی تفسیر سے قبل ضروری ہے کہ غزوہ احد کے واقعاتی پس منظر کو سمجھ لیا جائے۔ رمضان المبارک 2 ھ میں بدر کے مقام پر قریشی فوج اور مسلمان مجاہدین میں جنگ ہوئی، جس میں کفار مکہ ستر نامور اشخاص مارے گئے، اور اسی قدر گرفتار ہوئے، اس تباہ کن اور ذلت آمیز شکست سے جو حقیقتا عذاب الہی کی پہلی قسط تھی قریش کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھا، جو سردار مارے گئے تھے ان کے اقارب نے تمام عرب کو غیر دلائی، اور یہ معاہدہ کیا کہ جب تک ہم اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہ لے لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے، اور اہل مکہ سے اپیل کی کہ ان کا تجارتی قافلہ جو مال شام سے لایا ہے وہ سب اسی مہم پر خرچ کیا جائے تاکہ ہم محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے سکیں، سب نے منظور کیا، اور 3 ھ میں قریش کے ساتھ بہت سے دوسرے قبائل بھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کی غرض سے نکل پڑے، حتی کہ عورتیں بھی ساتھ آئیں تاکہ موقع آنے پر مردوں کو غیرت دلا کر پسپائی سے روک سکیں، جس وقت یہ تین ہزار کا لشکر اسلحہ وغیرہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر مدینہ سے تین چار میل جبل احد کے قریب خیمہ زن ہوا تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ بہت آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، یہ پہلا موقع تھا اس کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی جو بظاہر مسلمانوں میں شامل تھا، اس سے بھی رائے لی گئی، جو حضور ﷺ کی رائے کے موافق تھی مگر بعض پرجوش مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بےچین کر رہا تھا مصر ہوئے کہ ہم کو باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہئے، تاکہ دشمن ہمارے بارے میں بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے، کثرت رائے اسی طرف ہوگئی۔ اس عرصہ میں آپ ﷺ مکان کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آئے، تو اس وقت بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ہم نے آپ کو آپ کی رائے کے خلاف مدینہ سے باہر جنگ کرنے پر مجبور کیا، یہ غلط ہوا، اس لئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ کا منشاء نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے، فرمایا " ایک پیغمبر کو سزاوار نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے اور ہتھیار لگا لے پھر بدون قتال کئے ہوئے بدن سے اتارے " اس جملہ میں نبی اور غیر نبی کا فرق واضح ہورہا ہے کہ نبی کی ذات سے کبھی کمزوری کا اظہار نہیں ہوسکتا، اور اس میں امت کے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔
جب آپ ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، تقریبا ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے، مگر منافق عبداللہ بن ابی تقریبا تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسروں کی رائے پر عمل کیا تو ہم کو لڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں ہم خواہ مخواہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں، اس کے ساتھیوں میں زیادہ تو منافقین ہی تھے، مگر بعض مسلمان بھی ان کے فریب میں آکر ساتھ لگ گئے تھے۔
آخر آپ کل سات سو سپاہیوں کی جمعیت لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے، آپ نے بہ نفس نفیس فوجی قاعدہ سے صفیں ترتیب دیں، صف آرائی اس طرح کی کہ احد کو پشت کی جانب رکھا، اور دوسرے انتظامات اس طرح کئے کہ حضرت مصعب بن عمیر کو علم (جھنڈا) عنایت کیا، حضرت زبیر بن عوام کو رسالہ کا افسر مقرر کیا، حضرت حمزہ کو اس حصہ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئے، اس لئے پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین کیا، اور حکم دیا کہ وہ پشت کی جانب ٹیلہ پر حفاظت کا کام سرانجام دیں، لڑنے والوں کی فتح و شکست سے تعلق نہ رکھیں اور اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، عبداللہ بن جبیر ان تیر اندازوں کے افسر مقرر ہوئے، قریش کو بدر میں تجربہ ہوچکا تھا اس لئے انہوں نے بھی ترتیب سے صف آرائی کی۔
نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کی جنگی ترتیب غیروں کی نظر میں
نبی کریم ﷺ کی اس صف آرائی اور فوجی قواعد کے لحاظ سے نظم و ضبط کو دیکھ کر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ امت کے رہبر کامل، مقدس نبی ہونے کے ساتھ سپہ سالار اعظم کے لحاظ سے بھی بےنظیر ہیں، آپ نے جس انداز میں مورچے قائم کئے اور لڑائی کا نظم قائم کیا، اس وقت کی دنیا اس سے ناآشنا تھی، اور آج جبکہ فن حرب ایک مستقل سائنس کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، وہ بھی آپ کے فوجی قواعد اور نظم و ضبط کو سراہتا ہے، اسی حقیقت کو دیکھ کر ایک مسیحی مورخ بول اٹھا
" برخلاف اپنے مخالفین کے جو محض ہمت و شجاعت ہی رکھتے تھے محمد ﷺ نے کہنا چاہئے کہ فن حرب کی بھی نئی راہ نکالی، مکہ والوں کی بےدھڑک اور اندھا دھند لڑائی کے مقابلہ میں خود دور اندیشی اور سخت قسم کے نظم و ضبط سے کام لیا "۔ یہ الفاظ بیسیوں صدی کے ایک مورخ ٹام انڈر کے ہیں جو اس نے لائف آف محمد میں بیان کئے۔
جنگ کا آغاز
اس کے بعد جنگ شروع ہوئی ابتداء مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی، مسلمان سمجھے کہ فتح ہوگئی، مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے ادھر جن تیر اندازوں کو نبی کریم ﷺ نے پشت کی جانب حفاظت کے لئے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن کی طرف آنے لگے، حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی کریم ﷺ کا تاکیدی حکم یاد دلا کر روکا، مگر چند آدمیوں کے سوا دوسروں نے کہا کہ حضور کے حکم کی تعمیل تو موقت تھی اب ہمیں سب کے ساتھ مل جانا چاہئے، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو ابھی تک مسلمان نہ تھے اور اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بروقت فائدہ اٹھایا، اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر عقب کے درہ سے حملہ کردیا، عبداللہ بن جبیر اور ان کے قلیل ساتھیوں نے اس حملہ کو ہمت و شجاعت سے روکنا چاہا، مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے، اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ دیا، اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر میدان سے چلا گیا، تاہم کچھ صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کردیئے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے، اس وقت نبی کریم ﷺ کے گرد وپیش صرف دس بارہ جان نثار رہ گئے تھے، اور آپ خود بھی زخمی ہوگئے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی، کہ عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ بسلامت تشریف رکھتے ہیں۔ چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بہ سلامت پہاڑی کی طرف لے گئے، اس شکست کے بعد مسلمان حد درجہ پریشان رہے اور یہ عارضی شکست چند اسباب کا نتیجہ تھی، قرآن مجید نے ہر سبب پر جچے تلے الفاظ میں تبصرہ کیا اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔
اس واقعہ کی تفصیل میں کچھ ایسے واقعات ہیں جو اپنے اندر عظیم سبق لئے ہوئے ہیں۔ اور اس میں تمام مسلمانوں کے لئے موعظت و نصیحت کے جواہر پارے مخفی ہیں۔
احد کے واقعہ سے چند سبق
1۔ پہلی بات جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ کفار قریش اس جنگ میں عورتوں کو بھی لائے تھے تاکہ وہ مردوں کو پسپائی سے روک سکیں، نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ عورتیں ہندہ زوجہ ابی سفیان کی سربراہی میں اشعار گا کر مردوں کو جوش دلا رہی ہیں
ان تقبلوا نعانق ونفرش النمارق
او تدبروا نفارق فراق غیر وامق
" مطلب یہ تھا کہ اگر مقابلہ پر ڈٹے رہے اور فتح پائی تو ہم تم کو گلے لگائیں گے، اور تمہارے لئے نرم بستر بچھائیں گے، لیکن اگر تم نے پیٹھ موڑی تو ہم تم کو بالکل چھوڑدیں گے " خاتم الانبیاء ﷺ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ دعائیہ جاری تھےاللھم بک اصول وبک اقاتل حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ " اے اللہ میں تجھ ہی سے قوت حاصل کرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے حملہ کرتا ہوں اور تیرے ہی دین کے لئے قتال کرتا ہوں، اللہ ہی کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے "۔
اس دعا کا ایک ایک لفظ تعلق مع اللہ کی تاکید اور مسلمانوں کے تمام افعال و اعمال حتی کہ جنگ و قتال کو بھی دیگر اقوام کے جنگ و قتال سے ممتاز کر رہا ہے۔ 2۔ دوسری چیز قابل غور یہ ہے کہ اس غزوہ میں بعض صحابہ نے بہادری و شجاعت و جاں نثاری اور فدائیت کے وہ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، حضرت ابو دجانہ نے اپنے جسم کو حضور ﷺ کے لئے ڈھال بنالیا تھا کہ ہر آنے والا تیر اپنے سینہ پر کھاتے تھے، حضرت طلحہ نے بھی اسی طرح اپنے بدن کو چھلنی کرالیا تھا، لیکن حضور کی رفاقت کو نہیں چھوڑا، حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن النضر جنگ بدر سے غیر حاضر رہے تھے اس لئے ان کو اس کا افسوس تھا، آرزو کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں اگر کوئی موقع ہاتھ آیا تو اپنے دل کی حسرت پوری کروں گا۔ جب کچھ دن کے بعد جنگ احد کا واقعہ پیش آیا تو انس بن النضر شریک ہوئے مسلمان جب منتشر ہوگئے تھے اور کفار قریش کا سیلاب امنڈ رہا تھا تو یہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے، اتفاقا حضرت سعد سے ملاقات ہوئی، سعد بھی منتشر ہونے والوں میں جا رہے تھے، پکار کر کہا، سعدکہاں چلے جارہے ہو ؟ میں تو احد کے اس دامن میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے اور شدید قتال کے بعد اپنی جان جہاں آفریں کے سپرد کردی۔ (ابن کثیر) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب مسلمان منتشر ہوگئے اس وقت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ صرف گیارہ حضرات رہ گئے تھے جن میں حضرت طلحہ بھی تھے، کفار قریش کا سیلاب امڈ رہا تھا، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، کون ان کی خبر لے گا ؟ حضرت طلحہ بول ا تھے، میں یا رسول اللہایک دوسرے انصاری صحابی نے کہامیں حاضر ہوں۔ انصاری کو آپ نے جانے کا حکم دیا، وہ قتال کے بعد شہید ہوگئے، پھر ایک ریلہ آیا آپ نے پھر وہی سوال کیا، حضرت طلحہ نے وہی جواب دیا، اور بےتاب ہورہے تھے کہ حضور حکم دیں تو میں آگے بڑھوں، حضور نے پھر کسی دوسرے انصاری صحابی کو بھیج دیا، اور حضرت طلحہ کی تمنا پوری نہیں ہوئی، اسی طرح سات بار حضور نے کہا اور ہر مرتبہ حضرت طلحہ کو اجازت نہیں دی گئی، اور دوسرے صحابہ کو اجازت دی جاتی تھی وہ شہید ہوجاتے تھے۔ جنگ بدر میں باوجود قلت تعداد کے مسلمانوں کو فتح ہوئی، غزوہ احد میں بدر کی بہ نسبت کثرت تھی، پھر بھی شکست ہوئی، اس میں بھی مسلمانوں کے لئے عبرت ہے کہ مسلمان کو کبھی کثرت سازو سامان پر نہیں جانا چاہئے، بلکہ فتح کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے سمجھے اور اسی سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھے۔
جنگ یرموک کے موقع پر جب محاذ جنگ سے حضرت عمر کو مزید فوجی کمک بھیجنے کے لئے لکھا گیا اور قلت تعداد کی شکایت کی گئی تو تحریر فرمایا
(قد جاءنی کتابکم تستمدوننی وانی ادلکم علی من ھو اعز نصرا واحصن جندا اللہ عزوجل فاستنصروہ فان محمدا ﷺ قد نصر فی یوم بدر فی اقل من عدتکم فاذا جاء کم کتابی ھذا فقاتلوھم ولا تراجعونی۔ (بحوالہ مسند احمد)
" میرے پاس تمہارا خط آیا جس میں تم نے زیادہ فوجی مدد طلب کی ہے لیکن میں تم کو ایک ایسی ذات کا پتہ دیتا ہوں جو نصرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ غالب اور فوج کے لحاظ سے زیادہ محفوظ ہے وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے، لہذا تم اسی سے مدد طلب کرو محمد ﷺ کو بدر میں باوجود قلت عدد کے مدد دی گئی، جب میرا یہ خط تم کو پہنچے تو ان پر ٹوٹ پڑو اور مجھ سے اس سلسلہ میں کوئی مراجعت نہ کرو "۔
اس واقعہ کے راوی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کو یہ خط ملا ہم نے اللہ کا نام لے کر کفار کے لشکر کثیر پر یکبارگی حملہ کیا جس میں ان کو شکست فاش ہوئی، حضرت فاروق اعظم کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کی فتح و شکست، قلت و کثرت پر دائر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ پر توکل اور اس کی مدد پر موقوف ہے جیسا کہ قرآن کریم نے غزوہ حنین کے بارے میں اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا، ارشاد ہےیوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا۔ (9: 25)
" یعنی غزوہ حنین کو یاد کرو جب کہ تم کو اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، تو یہ کثرت تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی "۔
اب آیات کی تفسیر پر غور فرمائیےاذ غدوت من اھلک یعنی جبکہ آپ صبح کے وقت اپنے گھر سے چلے، جنگ کے لئے مختلف مورچوں پر مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے قرآن مجید کا نقل واقعات میں ایک خاص معجزانہ اسلوب ہے کہ وہ عام طور پر کوئی واقعہ پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان نہیں کیا کرتا، مگر جن واقعات اور جزئیات میں خاص ہدایات مضمر ہوتی ہیں وہ بیان کی جاتی ہیں، مذکورہ آیت میں جو خاص جزوی امور کی تصریح ہے، مثلا گھر سے نکلنے کا وقت کیا تھا، اس کو لفظ غدوت سے بیان فرمادیا، اور روایات حدیث سے یہ ثابت ہے کہ یہ صبح ساتویں تاریخ شوال کی 3 ھ کی تھی۔ اس کے بعد یہ بھی بتلایا کہ اس سفر کی ابتداء کس جگہ سے ہوئی، من اھلک کے لفظ سے اشارہ ہوا کہ آپ اس وقت اپنے اہل و عیال میں تھے، ان کو وہیں چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے حالانکہ یہ حملہ مدینہ پر ہونے والا تھا، ان جزوی حالات میں یہ ہدایت مضمر ہے کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو اس کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت سنگ راہ نہیں ہونی چاہئے، اس کے بعد گھر سے نکل کر محاذ جنگ تک پہنچنے کے جزئی واقعات کو چھوڑ کر محاذ جنگ کا پہلا کام یہ بیان کیا گیا کہتبوی المومنین مقاعد للقتال، یعنی آپ مسلمانوں کو قتال کے لئے مناسب مقامات پر جما رہے تھے پھر اس آیت کو اس طرح ختم کیا گیا کہ واللہ سمیع علیم یعنی اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے، سمیع علیم کی صفات کو یاد دلا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اس وقت مخالفین و موافقین دونوں جو کچھ اپنی اپنی جگہ پر کہہ سن رہے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں آچکا، اور اس موقع پر مخالفین و موافقین کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس میں سے کوئی شے اس سے مخفی نہیں رہی، اور اسی طرح اس جنگ کا انجام بھی اس سے مخفی نہیں۔
Top