Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب صبح کو نکلا تو اپنے گھر سے بٹھلانے لگا مسلمانوں کو لڑائی کے ٹھکانوں پر اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے
ربط آیات
گزشتہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ اگر مسلمان صبر وتقوی پر قائم رہیں تو کوئی طاقت ان کو ضرر نہیں پہنچا سکتی، اور یہ کہ غزوہ احد کے موقع پر جو عارضی شکست اور تکلیف مسلمانوں کو پہنچی وہ انہی دو چیزوں میں بعض حضرات کی طرف سے کوتاہی کی بناء پر تھی، مذکورہ آیات میں اسی غزوہ احد کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اور غزوہ بدر میں فتح کا۔
خلاصہ تفسیر
اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جب کہ آپ صبح کے وقت (تاریخ قتال سے پہلے) اپنے گھر سے (اس غرض سے) نکلے (کہ) مسلمانوں کو (کفار سے) مقاتلہ کرنے کے لئے (مناسب) مقامات پر جمانے (کے لئے آمادہ کر) رہے تھے (پھر اسی تجویز کے مطابق سب کو ان مقامات پر جمادیا) اور اللہ تعالیٰ (اس وقت کی باتیں) سب سن رہے تھے (اور اس وقت کے حالات) سب جان رہے تھے (اسی کے ساتھ یہ قصہ بھی ہوا کہ) تم (مسلمانوں) میں سے دو جماعتوں نے (کہ وہ بنی سلمہ اور بنی حارثہ ہیں) دل میں خیال کیا کہ ہمت ہاریں (اور ہم بھی عبداللہ بن ابی منافق کی طرح اپنے گھر جابیٹھیں) اور اللہ تعالیٰ تو ان دونوں جماعتوں کا مددگار تھا، (بھلا ان کو کب ہمت ہارنے دیتا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس خیال پر عمل کرنے سے محفوظ رکھا) اور (ہم آئندہ کے لئے ان جماعتوں اور سب کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب تم مسلمان ہو) پس مسلمانوں کو تو اللہ تعالیٰ ہی پر اعتماد کرنا چاہئے (اور ایسی کم ہمتی کبھی نہ کرنا چاہئے) اور یہ بات محقق ہے کہ حق تعالیٰ نے تم کو (غزوہ) بدر میں منصور فرمایا، حالانکہ تم (محض) بےسروسامان تھے (کیونکہ مجمع بھی کفار کے مقابلہ میں کم تھا، وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ تھے اور ہتھیار وغیرہ بھی بہت کم تھے) سو (چونکہ یہ منصور بدولت تقوی کے تھا جس میں استقلال و صبر بھی داخل ہے تو تم پر لازم ہے کہ آئندہ بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو (اسی کا نام تقوی ہے) تاکہ تم (اس نعمت نصرت کے) شکر گزار رہو، (کیونکہ شکر گزاری صرف زبان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ پورا شکر یہ ہے کہ زبان اور قلب بھی مشغول ہو اور اطاعت کی بھی پابندی ہو بالخصوص جبکہ اس اطاعت کا اس نعمت میں دخیل ہونا بھی ثابت ہوجائے)۔
معارف و مسائل
غزوہ احد کا پس منظرآیت مذکورہ کی تفسیر سے قبل ضروری ہے کہ غزوہ احد کے واقعاتی پس منظر کو سمجھ لیا جائے۔ رمضان المبارک 2 ھ میں بدر کے مقام پر قریشی فوج اور مسلمان مجاہدین میں جنگ ہوئی، جس میں کفار مکہ ستر نامور اشخاص مارے گئے، اور اسی قدر گرفتار ہوئے، اس تباہ کن اور ذلت آمیز شکست سے جو حقیقتا عذاب الہی کی پہلی قسط تھی قریش کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھا، جو سردار مارے گئے تھے ان کے اقارب نے تمام عرب کو غیر دلائی، اور یہ معاہدہ کیا کہ جب تک ہم اس کا بدلہ مسلمانوں سے نہ لے لیں گے چین سے نہ بیٹھیں گے، اور اہل مکہ سے اپیل کی کہ ان کا تجارتی قافلہ جو مال شام سے لایا ہے وہ سب اسی مہم پر خرچ کیا جائے تاکہ ہم محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں سے اپنے مقتولین کا بدلہ لے سکیں، سب نے منظور کیا، اور 3 ھ میں قریش کے ساتھ بہت سے دوسرے قبائل بھی مدینہ پر چڑھائی کرنے کی غرض سے نکل پڑے، حتی کہ عورتیں بھی ساتھ آئیں تاکہ موقع آنے پر مردوں کو غیرت دلا کر پسپائی سے روک سکیں، جس وقت یہ تین ہزار کا لشکر اسلحہ وغیرہ سے پوری طرح آراستہ ہو کر مدینہ سے تین چار میل جبل احد کے قریب خیمہ زن ہوا تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا۔ آپ کی رائے مبارک یہ تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ بہت آسانی اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، یہ پہلا موقع تھا اس کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی جو بظاہر مسلمانوں میں شامل تھا، اس سے بھی رائے لی گئی، جو حضور ﷺ کی رائے کے موافق تھی مگر بعض پرجوش مسلمان جنہیں بدر کی شرکت نصیب نہ ہوئی تھی اور شوق شہادت بےچین کر رہا تھا مصر ہوئے کہ ہم کو باہر نکل کر مقابلہ کرنا چاہئے، تاکہ دشمن ہمارے بارے میں بزدلی اور کمزوری کا گمان نہ کرے، کثرت رائے اسی طرف ہوگئی۔ اس عرصہ میں آپ ﷺ مکان کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آئے، تو اس وقت بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ہم نے آپ کو آپ کی رائے کے خلاف مدینہ سے باہر جنگ کرنے پر مجبور کیا، یہ غلط ہوا، اس لئے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر آپ کا منشاء نہ ہو تو یہیں تشریف رکھئے، فرمایا " ایک پیغمبر کو سزاوار نہیں کہ جب وہ زرہ پہن لے اور ہتھیار لگا لے پھر بدون قتال کئے ہوئے بدن سے اتارے " اس جملہ میں نبی اور غیر نبی کا فرق واضح ہورہا ہے کہ نبی کی ذات سے کبھی کمزوری کا اظہار نہیں ہوسکتا، اور اس میں امت کے لئے بھی ایک بڑا سبق ہے۔
جب آپ ﷺ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے، تقریبا ایک ہزار آدمی آپ کے ساتھ تھے، مگر منافق عبداللہ بن ابی تقریبا تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر راستہ سے یہ کہتا ہوا واپس ہوگیا کہ جب میرا مشورہ نہ مانا اور دوسروں کی رائے پر عمل کیا تو ہم کو لڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں ہم خواہ مخواہ اپنے کو ہلاکت میں ڈالیں، اس کے ساتھیوں میں زیادہ تو منافقین ہی تھے، مگر بعض مسلمان بھی ان کے فریب میں آکر ساتھ لگ گئے تھے۔
آخر آپ کل سات سو سپاہیوں کی جمعیت لے کر میدان جنگ میں پہنچ گئے، آپ نے بہ نفس نفیس فوجی قاعدہ سے صفیں ترتیب دیں، صف آرائی اس طرح کی کہ احد کو پشت کی جانب رکھا، اور دوسرے انتظامات اس طرح کئے کہ حضرت مصعب بن عمیر کو علم (جھنڈا) عنایت کیا، حضرت زبیر بن عوام کو رسالہ کا افسر مقرر کیا، حضرت حمزہ کو اس حصہ فوج کی کمان ملی جو زرہ پوش نہ تھے، پشت کی طرف احتمال تھا کہ دشمن ادھر سے آئے، اس لئے پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین کیا، اور حکم دیا کہ وہ پشت کی جانب ٹیلہ پر حفاظت کا کام سرانجام دیں، لڑنے والوں کی فتح و شکست سے تعلق نہ رکھیں اور اپنی جگہ سے نہ ہٹیں، عبداللہ بن جبیر ان تیر اندازوں کے افسر مقرر ہوئے، قریش کو بدر میں تجربہ ہوچکا تھا اس لئے انہوں نے بھی ترتیب سے صف آرائی کی۔
نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کی جنگی ترتیب غیروں کی نظر میں
نبی کریم ﷺ کی اس صف آرائی اور فوجی قواعد کے لحاظ سے نظم و ضبط کو دیکھ کر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ امت کے رہبر کامل، مقدس نبی ہونے کے ساتھ سپہ سالار اعظم کے لحاظ سے بھی بےنظیر ہیں، آپ نے جس انداز میں مورچے قائم کئے اور لڑائی کا نظم قائم کیا، اس وقت کی دنیا اس سے ناآشنا تھی، اور آج جبکہ فن حرب ایک مستقل سائنس کی حیثیت اختیار کرگیا ہے، وہ بھی آپ کے فوجی قواعد اور نظم و ضبط کو سراہتا ہے، اسی حقیقت کو دیکھ کر ایک مسیحی مورخ بول اٹھا
" برخلاف اپنے مخالفین کے جو محض ہمت و شجاعت ہی رکھتے تھے محمد ﷺ نے کہنا چاہئے کہ فن حرب کی بھی نئی راہ نکالی، مکہ والوں کی بےدھڑک اور اندھا دھند لڑائی کے مقابلہ میں خود دور اندیشی اور سخت قسم کے نظم و ضبط سے کام لیا "۔ یہ الفاظ بیسیوں صدی کے ایک مورخ ٹام انڈر کے ہیں جو اس نے لائف آف محمد میں بیان کئے۔
جنگ کا آغاز
اس کے بعد جنگ شروع ہوئی ابتداء مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا، یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی، مسلمان سمجھے کہ فتح ہوگئی، مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوئے ادھر جن تیر اندازوں کو نبی کریم ﷺ نے پشت کی جانب حفاظت کے لئے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن کی طرف آنے لگے، حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی کریم ﷺ کا تاکیدی حکم یاد دلا کر روکا، مگر چند آدمیوں کے سوا دوسروں نے کہا کہ حضور کے حکم کی تعمیل تو موقت تھی اب ہمیں سب کے ساتھ مل جانا چاہئے، اس موقع سے خالد بن ولید نے جو ابھی تک مسلمان نہ تھے اور اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بروقت فائدہ اٹھایا، اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر عقب کے درہ سے حملہ کردیا، عبداللہ بن جبیر اور ان کے قلیل ساتھیوں نے اس حملہ کو ہمت و شجاعت سے روکنا چاہا، مگر مدافعت نہ کرسکے، اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا، دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے، اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ دیا، اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر میدان سے چلا گیا، تاہم کچھ صحابہ ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے، اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی کریم ﷺ شہید ہوگئے، اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کردیئے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے، اس وقت نبی کریم ﷺ کے گرد وپیش صرف دس بارہ جان نثار رہ گئے تھے، اور آپ خود بھی زخمی ہوگئے تھے، شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی، کہ عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ بسلامت تشریف رکھتے ہیں۔ چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ کو بہ سلامت پہاڑی کی طرف لے گئے، اس شکست کے بعد مسلمان حد درجہ پریشان رہے اور یہ عارضی شکست چند اسباب کا نتیجہ تھی، قرآن مجید نے ہر سبب پر جچے تلے الفاظ میں تبصرہ کیا اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی تلقین فرمائی۔
اس واقعہ کی تفصیل میں کچھ ایسے واقعات ہیں جو اپنے اندر عظیم سبق لئے ہوئے ہیں۔ اور اس میں تمام مسلمانوں کے لئے موعظت و نصیحت کے جواہر پارے مخفی ہیں۔
احد کے واقعہ سے چند سبق
1۔ پہلی بات جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ کفار قریش اس جنگ میں عورتوں کو بھی لائے تھے تاکہ وہ مردوں کو پسپائی سے روک سکیں، نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ عورتیں ہندہ زوجہ ابی سفیان کی سربراہی میں اشعار گا کر مردوں کو جوش دلا رہی ہیں
ان تقبلوا نعانق ونفرش النمارق
او تدبروا نفارق فراق غیر وامق
" مطلب یہ تھا کہ اگر مقابلہ پر ڈٹے رہے اور فتح پائی تو ہم تم کو گلے لگائیں گے، اور تمہارے لئے نرم بستر بچھائیں گے، لیکن اگر تم نے پیٹھ موڑی تو ہم تم کو بالکل چھوڑدیں گے " خاتم الانبیاء ﷺ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ دعائیہ جاری تھےاللھم بک اصول وبک اقاتل حسبی اللہ ونعم الوکیل۔ " اے اللہ میں تجھ ہی سے قوت حاصل کرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے حملہ کرتا ہوں اور تیرے ہی دین کے لئے قتال کرتا ہوں، اللہ ہی کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے "۔
اس دعا کا ایک ایک لفظ تعلق مع اللہ کی تاکید اور مسلمانوں کے تمام افعال و اعمال حتی کہ جنگ و قتال کو بھی دیگر اقوام کے جنگ و قتال سے ممتاز کر رہا ہے۔ 2۔ دوسری چیز قابل غور یہ ہے کہ اس غزوہ میں بعض صحابہ نے بہادری و شجاعت و جاں نثاری اور فدائیت کے وہ نقوش چھوڑے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، حضرت ابو دجانہ نے اپنے جسم کو حضور ﷺ کے لئے ڈھال بنالیا تھا کہ ہر آنے والا تیر اپنے سینہ پر کھاتے تھے، حضرت طلحہ نے بھی اسی طرح اپنے بدن کو چھلنی کرالیا تھا، لیکن حضور کی رفاقت کو نہیں چھوڑا، حضرت انس بن مالک کے چچا حضرت انس بن النضر جنگ بدر سے غیر حاضر رہے تھے اس لئے ان کو اس کا افسوس تھا، آرزو کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں اگر کوئی موقع ہاتھ آیا تو اپنے دل کی حسرت پوری کروں گا۔ جب کچھ دن کے بعد جنگ احد کا واقعہ پیش آیا تو انس بن النضر شریک ہوئے مسلمان جب منتشر ہوگئے تھے اور کفار قریش کا سیلاب امنڈ رہا تھا تو یہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے، اتفاقا حضرت سعد سے ملاقات ہوئی، سعد بھی منتشر ہونے والوں میں جا رہے تھے، پکار کر کہا، سعدکہاں چلے جارہے ہو ؟ میں تو احد کے اس دامن میں جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے اور شدید قتال کے بعد اپنی جان جہاں آفریں کے سپرد کردی۔ (ابن کثیر) حضرت جابر فرماتے ہیں کہ جب مسلمان منتشر ہوگئے اس وقت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ صرف گیارہ حضرات رہ گئے تھے جن میں حضرت طلحہ بھی تھے، کفار قریش کا سیلاب امڈ رہا تھا، حضور اکرم ﷺ نے فرمایا، کون ان کی خبر لے گا ؟ حضرت طلحہ بول ا تھے، میں یا رسول اللہایک دوسرے انصاری صحابی نے کہامیں حاضر ہوں۔ انصاری کو آپ نے جانے کا حکم دیا، وہ قتال کے بعد شہید ہوگئے، پھر ایک ریلہ آیا آپ نے پھر وہی سوال کیا، حضرت طلحہ نے وہی جواب دیا، اور بےتاب ہورہے تھے کہ حضور حکم دیں تو میں آگے بڑھوں، حضور نے پھر کسی دوسرے انصاری صحابی کو بھیج دیا، اور حضرت طلحہ کی تمنا پوری نہیں ہوئی، اسی طرح سات بار حضور نے کہا اور ہر مرتبہ حضرت طلحہ کو اجازت نہیں دی گئی، اور دوسرے صحابہ کو اجازت دی جاتی تھی وہ شہید ہوجاتے تھے۔ جنگ بدر میں باوجود قلت تعداد کے مسلمانوں کو فتح ہوئی، غزوہ احد میں بدر کی بہ نسبت کثرت تھی، پھر بھی شکست ہوئی، اس میں بھی مسلمانوں کے لئے عبرت ہے کہ مسلمان کو کبھی کثرت سازو سامان پر نہیں جانا چاہئے، بلکہ فتح کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے سمجھے اور اسی سے اپنے تعلق کو مضبوط رکھے۔
جنگ یرموک کے موقع پر جب محاذ جنگ سے حضرت عمر کو مزید فوجی کمک بھیجنے کے لئے لکھا گیا اور قلت تعداد کی شکایت کی گئی تو تحریر فرمایا
(قد جاءنی کتابکم تستمدوننی وانی ادلکم علی من ھو اعز نصرا واحصن جندا اللہ عزوجل فاستنصروہ فان محمدا ﷺ قد نصر فی یوم بدر فی اقل من عدتکم فاذا جاء کم کتابی ھذا فقاتلوھم ولا تراجعونی۔ (بحوالہ مسند احمد)
" میرے پاس تمہارا خط آیا جس میں تم نے زیادہ فوجی مدد طلب کی ہے لیکن میں تم کو ایک ایسی ذات کا پتہ دیتا ہوں جو نصرت کے لحاظ سے سب سے زیادہ غالب اور فوج کے لحاظ سے زیادہ محفوظ ہے وہ اللہ رب العالمین کی ذات ہے، لہذا تم اسی سے مدد طلب کرو محمد ﷺ کو بدر میں باوجود قلت عدد کے مدد دی گئی، جب میرا یہ خط تم کو پہنچے تو ان پر ٹوٹ پڑو اور مجھ سے اس سلسلہ میں کوئی مراجعت نہ کرو "۔
اس واقعہ کے راوی بیان کرتے ہیں کہ جب ہم کو یہ خط ملا ہم نے اللہ کا نام لے کر کفار کے لشکر کثیر پر یکبارگی حملہ کیا جس میں ان کو شکست فاش ہوئی، حضرت فاروق اعظم کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کی فتح و شکست، قلت و کثرت پر دائر نہیں ہوتی، بلکہ اللہ پر توکل اور اس کی مدد پر موقوف ہے جیسا کہ قرآن کریم نے غزوہ حنین کے بارے میں اس حقیقت کو وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا، ارشاد ہےیوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا۔ (9: 25)
" یعنی غزوہ حنین کو یاد کرو جب کہ تم کو اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، تو یہ کثرت تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکی "۔
اب آیات کی تفسیر پر غور فرمائیےاذ غدوت من اھلک یعنی جبکہ آپ صبح کے وقت اپنے گھر سے چلے، جنگ کے لئے مختلف مورچوں پر مسلمانوں کو بٹھا رہے تھے قرآن مجید کا نقل واقعات میں ایک خاص معجزانہ اسلوب ہے کہ وہ عام طور پر کوئی واقعہ پوری تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان نہیں کیا کرتا، مگر جن واقعات اور جزئیات میں خاص ہدایات مضمر ہوتی ہیں وہ بیان کی جاتی ہیں، مذکورہ آیت میں جو خاص جزوی امور کی تصریح ہے، مثلا گھر سے نکلنے کا وقت کیا تھا، اس کو لفظ غدوت سے بیان فرمادیا، اور روایات حدیث سے یہ ثابت ہے کہ یہ صبح ساتویں تاریخ شوال کی 3 ھ کی تھی۔ اس کے بعد یہ بھی بتلایا کہ اس سفر کی ابتداء کس جگہ سے ہوئی، من اھلک کے لفظ سے اشارہ ہوا کہ آپ اس وقت اپنے اہل و عیال میں تھے، ان کو وہیں چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے حالانکہ یہ حملہ مدینہ پر ہونے والا تھا، ان جزوی حالات میں یہ ہدایت مضمر ہے کہ جب اللہ کا حکم آجائے تو اس کی تعمیل میں اہل و عیال کی محبت سنگ راہ نہیں ہونی چاہئے، اس کے بعد گھر سے نکل کر محاذ جنگ تک پہنچنے کے جزئی واقعات کو چھوڑ کر محاذ جنگ کا پہلا کام یہ بیان کیا گیا کہتبوی المومنین مقاعد للقتال، یعنی آپ مسلمانوں کو قتال کے لئے مناسب مقامات پر جما رہے تھے پھر اس آیت کو اس طرح ختم کیا گیا کہ واللہ سمیع علیم یعنی اللہ تعالیٰ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے، سمیع علیم کی صفات کو یاد دلا کر اس طرف اشارہ کردیا کہ اس وقت مخالفین و موافقین دونوں جو کچھ اپنی اپنی جگہ پر کہہ سن رہے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں آچکا، اور اس موقع پر مخالفین و موافقین کے ساتھ جو کچھ پیش آیا، اس میں سے کوئی شے اس سے مخفی نہیں رہی، اور اسی طرح اس جنگ کا انجام بھی اس سے مخفی نہیں۔
Top