Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 85
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ١ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَمَنْ : اور جو يَّبْتَغِ : چاہے گا غَيْرَ : سوا الْاِسْلَامِ : اسلام دِيْنًا : کوئی دین فَلَنْ : تو ہرگز نہ يُّقْبَلَ : قبول کیا جائیگا مِنْهُ : اس سے وَھُوَ : اور وہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
اور جو کوئی چاہے سوا دین اسلام کے اور کوئی دین سو اس سے ہرگز قبول نہ ہوگا، اور وہ آخرت میں خراب ہے۔
خلاصہ تفسیر
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو وہ (دین) اس (شخص) سے (خدا تعالیٰ کے نزدیک) مقبول و (منظور) نہ ہوگا اور (وہ شخص) آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا (یعنی نجات نہ پائے گا)۔
معارف و مسائل
اسلام کی تعریف اور اس کا مدار نجات ہونا
" اسلام " کے لفظی معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، اور اصطلاح میں خاص اس دین کی اطاعت کا نام " اسلام " ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے، کیونکہ اصول دین تمام انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں ایک ہی ہیں۔ پھر لفظ " اسلام " کبھی تو اس عام مفہوم کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی صرف اس آخری شریعت کے لئے بولا جاتا ہے جو خاتم الانبیاء ﷺ پر نازل ہوئی، قرآن کریم میں یہ دونوں طرح کے اطلاقات موجود ہیں، انبیاء سابقین کا اپنے آپ کو مسلم کہنا اور اپنی امت کو امت مسلمہ کہنا بھی نصوص قرآن سے ثابت ہے، اور نام کا خاتم الانبیاء ﷺ کی امت کے ساتھ مخصوص ہونا بھی مذکور ہے۔
(ھو سمکم المسلمین من قبل وفی ھذا۔ 22: 78) خلاصہ یہ کہ ہر دین الہی جو کسی نبی و رسول کے ذریعے دنیا میں آیا اس کو بھی " اسلام " کہا جاتا ہے، اور امت محمدیہ کے لئے یہ خاص لقب کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس جگہ " اسلام " کے لفظ سے کونسا مفہوم مراد ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ دونوں میں سے جو بھی مراد لیا جائے، نتیجہ کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، کیونکہ انبیاء سابقین کے دین کو جو اسلام کا نام دیا گیا ہے وہ ایک محدود طبقہ اور مخصوص زمانے کے لئے تھا، اسوقت کا اسلام وہی تھا، اس طبقہ اور امت کے علاوہ دوسروں کے لئے اس وقت بھی وہ اسلام معتبر نہ تھا اور جب اس نبی کے بعد اور کوئی نبی بھیج دیا گیا تو اب وہ اسلام نہیں رہا، اس وقت کا اسلام وہ ہوگا جو جدید نبی پیش کرے، جس میں یہ تو ظاہر ہے کہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہوگا مگر فروعی احکام مختلف ہوسکتے ہیں، اور خاتم الانبیاء ﷺ کو جو اسلام دیا گیا وہ ناقابل نسخ دائمی تا قیامت رہے گا، اور حسب قاعدہ مذکورہ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد پچھلے تمام ادیان منسوخ ہوگئے، اب وہ اسلام نہیں بلکہ اسلام صرف وہ دین ہے جو آنحضرت ﷺ کے واسطہ سے پہنچا، اسی لئے احادیث صحیحہ معتبرہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آج اگر حضرت موسیٰ ؑ زندہ ہوتے تو اس وقت ان پر بھی میرا ہی اتباع لازم ہوتا۔ اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ قریب قیامت میں حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوں گے، تو باوجود اپنے وصف نبوت اور عہدہ نبوت پر قائم رہنے کے اس وقت وہ بھی آپ ﷺ ہی کی شریعت کا اتباع کریں گے۔
اس لئے اس جگہ خواہ اسلام کا مفہوم عام مراد لیں یا مخصوص امت محمدیہ کا دین مراد لیں، نتیجہ دونوں کا ایک ہی ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت کے بعد صرف وہی دین اسلام کہلائے گا جو آپ ﷺ کے ذریعہ دنیا کو پہنچا ہے۔ وہی تمام انسانوں کے لئے مدار نجات ہے، آیت مذکورہ میں اسی کے متعلق ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین جو شخص اختیار کرے وہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں، اس مضمون کی مزید تفصیل اسی سورة کی آیت (ان الدین عنداللہ الاسلام) کے تحت جلد دوم میں گزر گئی ہے۔
Top