Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 85
وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُ١ۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
وَمَنْ : اور جو يَّبْتَغِ : چاہے گا غَيْرَ : سوا الْاِسْلَامِ : اسلام دِيْنًا : کوئی دین فَلَنْ : تو ہرگز نہ يُّقْبَلَ : قبول کیا جائیگا مِنْهُ : اس سے وَھُوَ : اور وہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت مِنَ : سے الْخٰسِرِيْنَ : نقصان اٹھانے والے
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو اس کا وہ دین کبھی قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت کے دن اس کی جگہ ان لوگوں میں ہوگی جو نامراد ہوں گے
دین اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا دین قبول کرنے والوں کا حال : 171: اگر کوئی تاجر راس المال ہی کو ضائع کر دے تو وہ کیا تجارت کرے گا ؟ دین اسلام کو چھوڑنے والوں کا بھی ایسا ہی حال ہے کہ گویا انہوں نے راس الامال ہی کو ضائع کردیا۔ دین اسلام ہی تو وہ دین ہے جو سب انبیاء کرام (علیہم السلام) کا موعود دین ہے اور یہی دین ہے جو سارے رسولوں کی تصدیق کا ضامن ہے اور بلحاظ اپنے معنی کے سارے ذرات عالم کا مذہب بھی ہے تو جو شخص ایسے کامل اور مکمل دین کو چھوڑ کر کسی ناقص دین کو قبول کرے گا وہ خسارہ میں ہے اور خسارہ بھی وہ جو راس المال میں ہو اس لیے اس نے اپنے راس المال کو تباہ کردیا اور یاد رہے کہ دین اسلام میں راس المال انسان کی فطرت ہے اور حدیث رسول صل اللہ علیہ وسلم گواہ ہے کہ ” کل مولود یولد علی الفطرۃ “ ہر ایک انسانی بچہ اس فطری دین پر پیدا ہوتا ہے۔ پس جو شخص اسلام یا کامل فرمانبرداری کی راہوں کو ترک کر کے ادھر ادھر بھٹکتا پھرتا ہے اس نے دراصل اپنی فطرۃ ہی کو بگاڑ دیا۔ زیر نظر آیت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کامل راہیں نجات کی صرف اسلام میں پائی جاتی ہیں گو قرآن کریم دوسرے مذاہب کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور اس بات کا بھی اعلان کرتا ہے کہ سب مذاہب کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس امر حق کا بھی اظہار فرماتا ہے کہ سب مذاہب میں غلطیوں کے راہ پا جانے اب انسان ان کے ذریعہ سے گناہ سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو رد ” جو ایسا عمل کرتا ہے جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے۔ “ ہاں ! ہر ایک نیکی کے کام پر خدا اور اس کے رسول کا امر موجود ہے پس نیکی کا کام کوئی بھی کرے وہ مردود نہیں اور اس لیے یہ ضروری ہے ہر نیکی کا کام رسول اللہ ﷺ نے خود کیا اور کرنے کا حکم دیا اور ہر نیکی کے عمل پر آپ ﷺ کی مہر ثبت ہے اور اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سب لوگ دین واحد پر جمع ہو کر گناہ کی غلامی سے بھی نجات حاص کریں اور دنیا میں ایک عظیم الشان اخوت نسل انسانی کے قائم کرنے کا موجب بھی ہوں۔ مختصر لفظوں میں یوں سمجھو کہ یہی دین نوع انسانی کے لیے ہدایت کی عالمگیر راہ ہے لیکن لوگوں نے اسے چھوڑ کر اپنی الگ الگ گروہ بندیاں بنا لیں ہیں اور ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلانے لگا ہے۔ قرآن کریم اس لیے آیا ہے کہ اس گمراہی سے دنیا کو نجات دلائے وہ کہتا ہے کہ سچائی کی راہ یہ ہے کہ تمام راہنمایان عالم کی یکساں طور پر تصدیق کرو اور سب کی متفقہ اور مشترکہ تعلیم کو دستور العمل بناؤ یہی راہ ہدایت اور دین اسلام کا ماحاصل ہے لیکن افسوس کہ آج اس دین اسلام کو دین تسلیم کرنے والے خود گروہ بندیوں کی سب سے بڑی لعنت میں مبتلا ہو کر متفرق ہوگئے۔ اس کا جتنا ماتم کیا جائے اتنا ہی کم ہے کہ ادراک باد مٹانے کے لیے تسلیم کیا جاتا تھا لیکن جب ادراک خود ہی باد ہوگیا تو وہ باد کو کیا مٹائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھو (عروۃ الوثقیٰ جلد اول سورة بقرہ : 173:2 ، سورة بقرہ : 258:2) دین اسلام کی راہ سے انحراف کرنے والوں کا حال قرآن کریم نے مختلف طریقوں اور حالتوں سے بیان فرمایا ہے ایک دو جگہوں کو زیرنظر کرلو اور غور کرتے رہو کہ غور و فکر ہی سے حق کی راہ واضح ہوجاتی ہے لکیر کا فقیر راہ راست پر کم ہی گامزن ہو سکتا ہے جیسے لکیر پے ٹن والے کو کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ چناچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ” اور جس شخص پر ہدایت کی راہ کھل جائے اور اس پر بھی وہ اللہ کے رسول سے مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر دوسری راہ چلنے لگے تو ہم اسے اسی طرف لے جائیں گے جس طرف کو اس نے جانا پسند کرلیا ہے اور اسے دوزخ میں پہنچا دیں گے اور یاد رکھو کہ جس کے پہنچنے کی جگہ دوزخ ہوئی تو یہ کیا ہی بری جگہ پہنچنے کی ہے۔ (النساء : 115:4) ایک جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہوا کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! جب منافق آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ بیشک آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق یقینا جھوٹ بولتے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے اس طرح یہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں بیشک یہ برے کام ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں یہ اس لیے کہ وہ ایمان لائے پھر کفر کرنے لگے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب یہ لوگ حق بات کو نہیں سمجھ پاتے۔ “ (المنافقون : 1:63 تا 3) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ : ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لیے بخشش کی دعا کرے تو یہ لوگ اپنے سرپھیرلیتے ہیں اور آپ ﷺ ان کو دیکھیں گے کہ متکبرانہ انداز میں بےرخی برتتے ہیں۔ اے پیغمبر اسلام ! آپ ان کے لیے بخشش کی دعا کرو یا نہ کرو ان کے حق میں یکساں ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان کو معاف نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کبھی حق سے تجاوز کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (المنافقون : 6 ۔ 5:63) ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! تم ان کے لیے دعا مغفرت کرو یا نہ کرو اب ان کی بخشش ہونے والی نہیں۔ تم اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو جب بھی اللہ انہیں کبھی نہیں بخشے گا۔ یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ دائرہ ہدایت سے نکل جانے والوں پر کامیابی وسعادت کی راہ کبھی نہیں کھولتا۔ “ (التوبہ : 80:9)
Top