Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 44
تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَلٰمٌ١ۚۖ وَ اَعَدَّ لَهُمْ اَجْرًا كَرِیْمًا
تَحِيَّتُهُمْ : ان کی دعا يَوْمَ : جس دن يَلْقَوْنَهٗ : وہ ملیں گے اس کو سَلٰمٌ ڻ : سلام وَاَعَدَّ : اور تیار کیا اس نے لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا : اجر كَرِيْمًا : بڑا اچھا
دعا ان کی جس دن اس سے ملیں گے سلام ہے اور تیار رکھا ہے ان کے واسطے ثواب عزت کا
(آیت) تحیتہم یوم یلقونہ سلام، یہ اسی صلوٰة کی توضیح و تفسیر ہے جو اللہ کی طرف سے مومن بندوں پر ہوتی ہے، یعنی جس روز یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو اس کی طرف سے ان کا اعزازی خطاب سلام سے کیا جائے گا یعنی السلام علیکم کہا جائے گا۔ اللہ سے ملنے کا دن کون سا ہوگا ؟ امام راغب وغیرہ نے فرمایا کہ مراد اس سے روز قیامت ہے، اور بعض آئمہ تفسیر نے فرمایا کہ جنت میں داخلہ کا وقت مراد ہے، جہاں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلام پہنچے گا اور سب فرشتے بھی سلام کریں گے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے اللہ سے ملنے کا دن موت کا دن قرار دیا ہے کہ وہ دن سارے عالم سے چھوٹ کر صرف ایک اللہ کے سامنے حاضری کا دن ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ملک الموت جب کسی مومن کی روح قبض کرنے کے لئے آتا ہے تو اول اس کو یہ پیام پہنچاتا ہے کہ تیرے رب نے تجھے سلام کہا ہے۔
اور لفظ بقاء ان تینوں حالات پر صادق ہے اس لئے ان اقوال میں کوئی تضاد و تعارض نہیں ہو سکتا، کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سلام تینوں حالات میں ہوتا ہے۔ (روح المعانی)
مسئلہ
اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے باہم ایک دوسرے کا تحیر لفظ السلام علیکم ہونا چاہئے خواہ بڑے کی طرف سے چھوٹے کے لئے ہو یا چھوٹے کی طرف سے بڑے کے لئے ہو۔
Top