Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے ایمان والو جو کوئی تم میں پھرے گا اپنے دین سے تو اللہ عنقریب لا دے گا ایسی قوم کو کہ اللہ ان کو چاہتا ہے اور وہ اس کو چاہتے ہیں نرم دل ہیں مسلمانوں پر زبردست ہیں کافروں پر لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں، اور ڈرتے نہیں کسی کے الزام سے یہ فضل ہے اللہ کا دے گا جس کو چاہے، اور اللہ کشائش والا ہے خبردار
چوتھی آیت میں یہ بتلایا ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ گہری دوستی اور خلط ملط کی جو ممانعت کی گئی ہے یہ خود مسلمانوں ہی کے مفاد کی خاطر ہے، ورنہ اسلام وہ دین حق ہے جس کی حفاظت کا ذمہ حق تعالیٰ نے خود لے لیا ہے، کسی فرد یا جماعت کی کجروی یا نافرمانی تو بجائے خود ہے۔ اگر مسلمانوں کا کوئی فرد یا جماعت سچ مچ اسلام ہی کو چھوڑ بیٹھے اور بالکل ہی مرتد ہو کر غیر مسلموں میں مل جائے اس سے بھی اسلام کو کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قادر مطلق جو اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے فوراً کوئی دوسری قوم میدان عمل میں لے آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور اشاعت کے فرائض انجام دے گی۔ اس کے کام نہ کسی ذات پر موقوف ہیں نہ کسی بڑی سے بڑی جماعت یا ادارہ پر وہ جب چاہتے ہیں تو تنکوں سے شہتیر کا کام لے لیتے ہیں ورنہ شہتیر پڑے کھاد ہوتے رہتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے
ان المقادیر اذا ساعدت
الحقت العاجز بالقادر
”یعنی تقدیر الٓہی جب کسی کی مددگار ہوجاتی ہے تو ایک عاجز و بیکار سے قادر و توانا کا کام لے لیتی ہے“۔ اس آیت میں جہاں یہ ذکر فرمایا کہ مسلمان اگر مرتد ہوجائیں تو پروا نہیں، اللہ تعالیٰ ایک دوسری جماعت کھڑی کر دے گا، وہاں اس پاکباز جماعت کے کچھ اوصاف بھی بیان فرماتے ہیں کہ یہ جماعت ایسے اوصاف کی حامل ہوگی، دین کی خدمت کرنے والوں کو ان اوصاف کا خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ آیت سے معلوم ہوا کہ ان اوصاف و عادات کے حامل لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول و محبوب ہیں۔
ان کی پہلی صفت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھے گا اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھیں گے۔ اس صفت کے دو جز ہیں، ایک ان لوگوں کی محبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ، یہ تو کسی نہ کسی درجہ میں انسان کے اختیار میں سمجھی جاسکتی ہے کہ ایک انسان کو کسی کے ساتھ اگر طبعی محبت نہ ہو تو کم از کم عقلی محبت اپنے عزم و ارادہ کے تابع رکھ سکتا ہے۔ اور طبعی محبت بھی اگرچہ اختیار میں نہیں، مگر اس کے بھی اسباب اختیاری ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور قدرت کاملہ اور انسان پر اس کے اختیارات و انعامات کا مراقبہ اور تصور لازمی طور پر انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت طبعی بھی پیدا کردیتا ہے۔
لیکن دوسرا جز یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت ان لوگوں کے ساتھ ہوگی، اس میں تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اختیار وعمل کا کوئی دخل اس میں نہیں، اور جو چیز ہماری قدرت و اختیار سے باہر ہے اسے سنانے اور بتلانے کا بھی بظاہر کوئی حاصل نہیں نکلتا۔
لیکن قرآن کریم کی دوسری آیت میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ محبت کے اس جز کے اسباب بھی انسان کے اختیار میں ہیں۔ اگر وہ ان اسباب کا استعمال کرے تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے ساتھ لازمی ہوگی۔ اور وہ اسباب (آیت) قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی۔ میں مذکور ہیں یعنی اے رسول ﷺ لوگوں کو بتلا دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میرا اتباع کرو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمانے لگیں گے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرمائیں اس کو چاہئے کہ سنت رسول اللہ ﷺ کو اپنی زندگی کا محور بنالے، اور زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں سنت کے اتباع کا التزام کرے، تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سے محبت فرمائیں گے۔ اور اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کفر و ارتداد کا مقابلہ وہی جماعت کرسکے گی جو متبع سنت ہو، نہ احکام شرعیہ کی تعمیل میں کوتاہی کرے اور نہ اپنی طرف سے خلاف سنت اعمال کو اور بدعات کو جاری کرے۔
دوسری صفت اس جماعت کی یہ بتلائی گئی ہے کہ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤ ْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ، اس میں لفظ اذلّہ حسب تصریح قاموس ذلیل یا ذلول دونوں کی جمع ہو سکتی ہے۔ ذلیل کے معنی عربی زبان میں وہی ہیں جو اردو وغیرہ میں معروف ہیں۔ اور ذلول کے معنی ہیں نرم اور سہل الانقیاد، یعنی جو آسانی سے قابو میں آجائے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس جگہ یہی معنی مراد ہیں، یعنی یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے نرم ہوں گے۔ اگر کسی معاملہ میں اختلاف بھی ہوا تو آسانی سے قابو میں آجائیں گے۔ جھگڑا چھوڑ دیں گے۔ اگرچہ وہ اپنے جھگڑے میں حق بجانب بھی ہوں۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہےانا زعیم ببیت فی ربض الجنة لمن ترک المراء وھو محق، ”یعنی میں اس شخص کو وسط جنت میں گھر دلوانے کی ذمہ داری لیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے“۔
تو حاصل اس لفظ کا یہ ہوا کہ یہ لوگ مسلمانوں سے اپنے حقوق اور معاملات میں کوئی جھگڑا نہ رکھیں گے۔ دوسرا لفظ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ آیا۔ اس میں بھی اَعِزّة، عزیز کی جمع ہے، جس کے معنی غالب، قوی اور سخت کے آتے ہیں، مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے دین کے مخالفوں کے مقابلہ میں سخت اور قوی ہیں اور وہ ان پر قابو نہ پاسکیں گے۔
اور دونوں جملوں کو ملانے کا حاصل یہ نکل آیا کہ یہ ایک ایسی قوم ہوگی جس کی محبت و عداوت اور دشمنی اپنی ذات اور ذاتی حقوق و معاملات کے بجائے صرف اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خاطر ہوگی۔ اسی لئے ان کی لڑائی کا رخ اللہ و رسول کے فرماں برداروں کی طرف نہیں بلکہ اس کے دشمنوں اور نافرمانوں کی طرف ہوگا۔ یہی مضمون ہے سورة فتح کی اس آیت کا(آیت) اشداء علی الکفار رحمآء بینھم۔
پہلی صفت کا حاصل حقوق کی تکمیل تھا اور دوسری صفت کا حاصل حقوق العباد اور معاملات کا اعتدال ہے۔ تیسری صفت اس جماعت کی یہ بیان فرمائیيُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ، یعنی یہ لوگ دین حق کی اشاعت اور برتری کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اس کا حاصل یہ ہے کہ کفر و ارتداد کے مقابلہ کے لئے صرف معروف قسم کی عبادت گزاری اور نرم و سخت ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اقامت دین کا جذبہ بھی ہو۔ اسی جذبہ کی تکمیل کے لئے چوتھی صفت یہ بتلائی گئی وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ، یعنی اقامت دین اور کلمہ حق کے سربلند کرنے کی کوشش میں یہ لوگ کسی ملامت کی پروا نہ کریں گے۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کسی تحریک کو چلانے والے کی راہ میں دو قسم کی چیزیں حائل ہوا کرتی ہیں۔ ایک مخالف قوت کا زور دوسرے اپنوں کے لعن طعن اور ملامت، اور تجربہ شاہد ہے کہ جو لوگ تحریک چلانے کے لئے عزم لے کر کھڑے ہوتے ہیں اور اکثر حالات میں مخالف قوت سے تو مغلوب نہیں ہوتے، قید و بند اور زخم و خون سب کچھ برداشت کر لتے ہیں۔ لیکن اپنوں کے طعنوں اور تشنیع و تقبیح سے بڑے بڑے عزم والوں کے قدم میں لغزش آجاتی ہے۔ شاید اسی لئے حق تعالیٰ نے اس جگہ اس کی اہمیت جتلانے کے لئے اس پر اکتفاء فرمایا کہ یہ لوگ کسی کی ملامت کی پروا کئے بغیر اپنا جہاد جاری رکھتے ہیں۔
آخر آیت میں یہ بھی بتلا دیا کہ یہ صفات اور خصائل حسنہ اللہ تعالیٰ ہی کے انعام ہیں، وہی جس کو چاہتے ہیں عطا فرماتے ہیں، انسان محض اپنے سعی و عمل سے بغیر فضل خدا وندی کے ان کو حاصل نہیں کرسکتا۔
آیت کے الفاظ کی تشریح سے یہ واضح ہوچکا کہ اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو دین اسلام کو کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ بلکہ اس کی حفاظت و حمایت کیلئے اللہ جل شانہ ایک اعلیٰ اخلاق و اعمال کی جماعت کو کھڑا کردیں گے۔
جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ آیت درحقیقت آنے والے فتنہ کی پیشن گوئی اور اس کا ہمت کے ساتھ مقابلہ کرکے کامیاب ہونے والی جماعت کے لئے بشارت ہے آنے والا وہ فتنہ ارتداد ہے جس کے کچھ جراثیم تو عہد نبوت کے بالکل آخری ایام میں پھیلنے لگے تھے۔ اور پھر بعد وفات آنحضرت ﷺ کے عام ہو کر پورے جزیرة العرب میں اس کا طوفان کھڑا ہوگیا اور بشارت پانے والی وہ جماعت صحابہ کرام ؓ کی ہے جس نے خلیفہ اول صدیق اکبر ؓ کے ساتھ مل کر اس فتنہ ارتداد کا مقابلہ کیا۔
واقعات یہ تھے کہ سب سے پہلے تو مسیلمہ کذّاب نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک نبوت ہونے کا دعویٰ کیا، اور یہاں تک جرأت کی کہ آپ کے قاصدوں کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ اگر بمصلحت تبلیغ و اصلاح یہ دستور عام نہ ہوتا کہ قاصدوں اور سفیروں کو قتل نہیں کیا جاتا تو میں تمہیں قتل کردیتا، مسیلمہ اپنے دعوے میں کذاب تھا۔ پھر آپ کو اس کے خلاف جہاد کا موقع نہیں ملا، یہاں تک کہ وفات ہوگئی۔
اسی طرح یمن میں قبیلہ مذجج کے سردار اسودعنسی نے اپنی نبوت کا اعلان کردیا رسول کریم ﷺ نے اپنی طرف سے مقرر کئے ہوئے حاکم یمن کو اس کا مقابلہ کرنے کا حکم دیدیا، مگر جس رات میں اس کو قتل کیا گیا اس کے اگلے دن ہی آنحضرت ﷺ کی وفات ہوگئی، صحابہ کرام تک اس کی خبر ربیع الاول کے آخر میں پہنچی، اسی طرح کا واقعہ قبیلہ بنو اسد میں پیش آیا کہ ان کا سردار طلیحہ بن خویلد خود اپنی نبوت کا مدعی بن گیا۔
یہ تین قبیلوں کی جماعتیں تو آنحضرت ﷺ کے مرض وفات ہی میں مرتد ہوچکی تھیں۔ آپ ﷺ کی وفات کی خبر نے اس فتنہ ارتداد کو ایک طوفانی شکل میں منتقل کردیا۔ عرب کے سات قبیلے مختلف مقامات پر اسلام اور اس کی حکومت سے منحرف ہوگئے اور خلیفہ وقت ابوبکر صدیق ؓ کو اسلامی قانون کے مطابق زکوٰة ادا کرنے سے انکار کردیا۔
وفات سرور کائنات کے بعد ملک و ملت کی ذمہ داری خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر ؓ پر عائد ہوئی۔ ایک طرف ان حضرات پر اس حادثہ عظیم کا صدمہ جانگداز اور دوسری طرف یہ فتنوں اور بغاوتوں کے سیلاب عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد جو صدمہ میرے والد حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر پڑا اگر وہ مضبوط پہاڑوں پر بھی پڑجاتا تو ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر و استقامت کا وہ اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا کہ تمام آفات و مصائب کا پورے عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بالآخر کامیاب ہوئے۔
بغاوتوں کا مقابلہ ظاہر ہے کہ طاقت استعمال کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ مگر حالات کی نزاکت اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ صدیق اکبر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو کسی کی رائے نہ ہوئی کہ اس وقت بغاوتوں کے مقابلہ میں کوئی سخت قدم اٹھایا جائے۔ خطرہ یہ تھا کہ حضرات صحابہ اگر اندرونی جنگ میں مشغول ہوجائیں تو بیرونی طاقتیں اس جدید اسلامی ملک پر دوڑ پڑیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے صدیق کے قلب کو اس جہاد کے لئے مضبوط فرما دیا اور آپ ؓ نے ایک ایسا بلیغ خطبہ صحابہ کرام کے سامنے دیا کہ اس جہاد کے لئے ان کا بھی شرح صدر ہوگیا۔ اس خطبہ میں اپنے پورے عزم و استقلال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ
”جو لوگ مسلمان ہونے کے بعد رسول کریم ﷺ کے دیئے ہوئے احکام اور قانون اسلام کا انکار کریں تو میرا فرض ہے کہ میں ان کے خلاف جہاد کروں، اگر میرے مقابلہ پر تمام جن وانس اور دنیا کے شجر و حجر سب کو جمع کر لائیں، اور کوئی میرا ساتھی نہ ہو، تب بھی میں تنہا اپنی گردن سے اس جہاد کو انجام دوں گا“۔
اور یہ فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے اور چلنے لگے، اس وقت صحابہ کرام آگے آئے اور صدیق اکبر ؓ کو اپنی جگہ بٹھلا کر مختلف محاذوں پر مختلف حضرات کی روانگی کا نقشہ بن گیا۔
اسی لئے حضرت علی مرتضیٰ ؓ ، حسن بصری رحمة اللہ علیہ، ضحاک رحمة اللہ علیہ قتادہ وغیرہ جمہور ائمہ تفسیر نے بیان فرمایا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں آئی ہے وہی سب سے پہلے اس قوم کا مصداق ثابت ہوئے۔ جن کے من جانب اللہ میدان عمل میں لائے جانے کا آیت مذکورہ میں ارشاد ہے۔
مگر یہ اس کے منافی نہیں کہ کوئی دوسری جماعت بھی اس آیت کی مصداق ہو، اس لئے جن حضرات نے اس آیت کا مصداق حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ یا دوسرے صحابہ کرام کو قرار دیا ہے، وہ بھی اس کا مخالف نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ سب حضرات بلکہ قیامت تک آنے والا وہ مسلمان جو قرآنی ہدایات کے مطابق کفر و ارتداد کا مقابلہ کریں گے، اسی آیت کے مصداق میں داخل ہوں گے۔ بہرحال صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت حضرت صدیق اکبر ؓ کے زیر ہدایت اس فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہوگئی۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کو ایک بڑا لشکر دے کر مسیلمہ کذاب کے مقابلہ پر یمامہ کی طرف روانہ کیا۔ وہاں مسیلمہ کذاب کی جماعت نے اچھی خاصی طاقت پکڑ لی تھی۔ سخت معرکے ہوئے، بالآخر مسیملہ کذاب حضرت وحشی ؓ کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کی جماعت تائب ہو کر پھر مسلمانوں میں مل گئی۔ اسی طرح طلیحہ بن خویلد کے مقابلہ پر بھی حضرت خالد ؓ ہی تشریف لے گئے۔ وہ فرار ہو کر کہیں باہر چلا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو خود بخود ہی اسلام کی دوبارہ توفیق بخشی اور مسلمان ہو کر لوٹ آئے۔
خلافت صدیقی کے پہلے مہینہ ربیع الاول کے آخر میں اسود عنسی کے قتل اور اس کی قوم کے مطیع و فرمانبردار ہوجانے کی خبر پہنچ گئی اور یہی خبر سب سے پہلی فتح کی خبر تھی جو حضرت صدیق اکبر ؓ کو ان حالات میں پہنچی تھی۔ اسی طرح دوسرے قبائل مانعین زکوٰة کے مقابلہ میں بھی ہر محاذ پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو فتح مبین نصیب فرمائی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو تیسری آیت کے آخر میں مذکور ہے فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ ، یعنی اللہ والوں کی جماعت ہی غالب آ کر رہے گی۔ اس کی عملی تفسیر دنیا نے آنکھوں سے دیکھ لی۔ اور جبکہ تاریخی اور واقعاتی رنگ میں یہ بات بدیہی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد قبائل عرب میں فتنہ ارتداد پھیلا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جو قوم کھڑی فرمائی وہ صدیق اکبر ؓ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام ہی تھے۔ تو اس آیت ہی سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو اوصاف اس جماعت کے قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں وہ سب صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقائے کار صحابہ کرام میں موجود تھے۔ یعنی
اول یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ سب حضرات مسلمانوں کے معاملات میں نہایت نرم ہیں اور کفار کے معاملہ میں تیز،
چوتھے یہ کہ ان کا جہاد ٹھیک اللہ کی راہ میں تھا جس میں انہوں نے کسی کی ملامت وغیرہ کی پرواہ نہیں کی۔
آخر آیت میں اس حقیقة الحقائق کو واضح فرما دیا کہ یہ سب صفات کمال پھر ان کا ہر وقت استعمال پھر ان کے ذریعہ اسلامی مہم میں کامیابی یہ سب چیزیں نری تدبیر یا طاقت یا جماعت کے بل بوتہ پر حاصل نہیں ہوا کرتیں، بلکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہی جس کو چاہتے ہیں یہ نعمت عطاء فرماتے ہیں۔
Top