Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 5
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ
عَلَّمَهٗ : سکھایا اس کو شَدِيْدُ الْقُوٰى : زبردست قوت والے نے
اس کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے
عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى، یہاں سے سترہویں آیت (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى) تک تمام آیات میں اس کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وحی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ اللہ کا کلام ہے، جو آپ کو اس طرح دیا گیا ہے کہ اس میں کسی التباس وتلبیس یا خطاء اور غلطی کا کوئی امکان نہیں رہتا۔
آیات نجم کی تفسیر میں ائمہ تفسیر کا اختلاف
ان آیات کے بارے میں ائمہ تفسیر سے دو تفسیریں منقول ہیں، ایک کا حاصل یہ ہے کہ ان سب آیات کو واقعہ معراج کا بیان قرار دے کر حق تعالیٰ سے تعلیم بلا واسطہ اور رویت و قرب حق تعالیٰ کے ذکر پر محمول فرمایا، اور شَدِيْدُ الْقُوٰى، ۙذُوْ مِرَّةٍ ۭ فَاسْتَوٰى اور دَنَا فَتَدَلّٰى سب کو حق تعالیٰ کی صفات و افعال قرار دیا اور آگے جو رویت و مشاہدہ کا ذکر ہے اس سے بھی حق تعالیٰ کی رویت و زیارت مراد لی، صحابہ کرام میں حضرت انس اور ابن عباس سے یہ تفسیر منقول ہے، تفسیر مظہری میں اسی کو اختیار کیا ہے اور بہت سے حضرات صحابہ وتابعین اور ائمہ تفسیر نے ان آیات کو جبرئیل ؑ کے ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کا بیان قرار دیا ہے اور شَدِيْدُ الْقُوٰى وغیرہ جبرئیل امین کی صفات بتلائی ہیں، اس کی بہت سی وجہ ہیں، تاریخی حیثیت سے بھی سورة نجم بالکل ابتدائی سورتوں میں سے ہے اور حسب تصریح حضرت عبداللہ بن مسعود سب سے پہلی سورت جس کو آنحضرت ﷺ میں اعلاناً پڑھا ہے یہی سورت ہے اور ظاہر یہی ہے کہ واقعہ معراج اس سے موخر ہے لیکن اس میں کلام کیا جاسکتا ہے اصل وجہ یہ ہے کہ حدیث مرفوع میں خود رسول اللہ ﷺ سے ان آیات کی تفسیر رویت جبرئیل سے منقول ہے، جس کے الفاظ مسند احمد میں یہ ہیں
عن الشعبی عن مسروق قال کنت عند عائشة فقلت الیس اللہ یقول (ولقد راہ بالافق، المبین و لقد راہ نزلة اخری) فقالت انا اول ھذہ الامة سالت رسول اللہ ﷺ عنھا فقال انما ذاک جبرئیل لم یرہ فی صورتہ التی خلق علیھا الا مرتین راہ منھبطا من السمآء الی الارض سادا عظم خلقہ ما بین السمآء والارض، اخرجاہ فی الصحیحین من حدیث الشعبی (ابن کثیر)
" شعبی حضرت مسروق سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک روز حضرت صدیقہ عائشہ کے پاس تھے (رویت باری تعالیٰ کے مسئلہ میں گفتگو تھی) مسروق کہتے ہیں کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ولقد راہ بالافق المبین، و لقد راہ نزلة اخری) حضرت صدیقہ نے فرمایا کہ پوری امت میں سب سے پہلے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا ہے آپ نے فرمایا کہ جس کے دیکھنے کا آیت میں ذکر ہے وہ جبرئیل ؑ ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے صرف دو مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے آیت میں جس رویت کا ذکر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے جبرئیل امین کو آسمان سے زمین کی طرف اترتے ہوئے دیکھا کہ ان کے جثے نے زمین و آسمان کے درمیان کی فضا کو بھر دیا تھا "۔
صحیح مسلم میں بھی یہ روایت تقریباً انہی الفاظ سے منقول ہے اور فتح الباری کتاب التفسیر میں حافظ نے ابن مردویہ سے یہی روایت اسی سند کے ساتھ نقل کی ہے، جس میں صدیقہ کے الفاظ یہ ہیں
انا اول من سال رسول اللہ ﷺ عن ھذا، فقلت یا رسول اللہ ھل رایت ربک ؟ فقال لا انما رایت جبرئیل منھبطا (فتح الباری، ص 493 ج 8)
" یعنی صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ اس آیت کے متعلق سب سے پہلے میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے جبرئیل کو اترتے ہوئے دیکھا ہے "۔
اور صحیح بخاری میں شیبانی سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زر سے اس آیت کا مطلب پوچھا (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى، الی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰى) انہوں نے جواب دیا کہ ہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود نے حدیث بیان کی کہ محمد ﷺ نے جبرئیل امین کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود سے آیت (مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى) کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل امین کو دیکھا اس حالت میں کہ وہ رفرف کے لباس میں تھے اور زمین و آسمان کی درمیانی فضاء کو ان کے وجود نے بھر رکھا تھا۔
ابن کثیر کی تحقیق
یہ سب روایات حدیث ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کر کے فرمایا ہے کہ سورة نجم کی آیات مذکورہ میں رویت اور قرب سے مراد جبرئیل کی رویت اور قرب ہے، یہ قول صحابہ کرام میں سے حضرت ام المومنین عائشہ اور عبداللہ بن مسعود، ابوذر غفاری، ابوہریرہ ؓ اجمعین کا ہے، اسی لئے ابن کثیر نے آیات مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ۔
ان آیات میں جس رویت اور قرب کا ذکر ہے وہ رویت و قرب جبرئیل امین کی مراد ہے جبکہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھا تھا، پھر دوسری مرتبہ شب معراج میں سدرة المنتہیٰ کے قریب دیکھا اور یہ پہلی رویت نبوت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں ہوئی، جبکہ جبرئیل ؑ پہلی مرتبہ سورة اقراء کی ابتدائی آیتوں کی وحی لے کر آئے، اس کے بعد وحی میں فترت یعنی وقفہ پیش آیا جس سے رسول اللہ ﷺ کو سخت غم اور تکلیف تھی، بارہا یہ خیالات دل میں آئے کہ پہاڑ سے گر کر جان دیدیں مگر جب کبھی ایسی صورت ہوئی تو جبرئیل امین غائبانہ ہوا سے آواز دیتے کہ اے محمد آپ اللہ کے رسول ہیں برحق ہیں اور میں جبرئیل ہوں، ان کی آواز سے آپ کا دل ٹھہر جاتا اور سکون ہوجاتا تھا، جب کبھی ایسا خیال آیا اسی وقت جبرئیل نے اس آواز کے ذریعہ تسلی دی مگر یہ تسلیاں غائبانہ تھیں، یہاں تک کہ ایک روز جبرئیل امین بطحا کے کھلے میدان میں اپنی اصلی صورت میں اس طرح ظاہر ہوئے کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور پورے افق کو گھیر رکھا تھا، پھر جبرئیل امین آپ کے قریب آئے اور آپ کو وحی الٰہی پہنچائی، اس وقت رسول اللہ ﷺ پر جبرئیل امین کی عظمت اور اللہ کے نزدیک جلالت قدر کی حقیقت روشن ہوئی (ابن کثیر)
خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن کثیر نے خود تفسیر مرفوع اور صحابہ کرام کے اقوال کی بنا پر سورة نجم کی آیات مذکورہ کی تفسیر یہی قرار دی ہے کہ اس میں رویت اور قرب جبرئیل کا مراد ہے اور یہ پہلی رویت ہے جو اسی عالم میں مکہ مکرمہ کے افق پر ہوئی، بعض روایات میں اس رویت کی یہ تفصیل آئی ہے کہ جبرئیل امین کو پہلی مرتبہ ان کی اصلی صورت میں دیکھ کر رسول اللہ ﷺ پر غشی طاری ہوگئی، تو پھر جبرئیل امین آدمی کی صورت میں آپ کے قریب آئے اور بہت قریب آگئے۔
دوسری رویت کا تذکرہ آگے سورة نجم ہی کی آیت وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى میں آیا ہے، جو شب معراج میں ہوئی، مذکور الصدر وجوہ کی بناء پر عامہ مفسرین حضرات نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے، ابن کثیر کا مضمون تو ابھی اوپر گزرا ہے، قرطبی، ابو حیان، امام رازی وغیرہ عموماً اسی تفسیر کو ترجیح دے رہے ہیں، سیدی حضرت حکیم الامت نے بھی اسی کو اختیار فرمایا ہے جو اوپر خلاصہ تفسیر کے عنوان میں بیان ہوچکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ سورة نجم کی ابتدائی آیات میں حق تعالیٰ کی رویت کا ذکر نہیں ہے بلکہ رویت جبرئیل ؑ مذکور ہے، نووی نے شرح مسلم میں اور حافظ نے فتح الباری میں بھی یہی تفسیر اختیار فرمائی ہے۔
Top