Maarif-ul-Quran - An-Najm : 50
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے نبی ہم نے حلال رکھیں تجھ کو تری عورتیں جن کے مہر تو دے چکا ہے اور جو مال ہو تیرے ہاتھ کا جو ہاتھ لگا دے تیرے اللہ اور تیرے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں جنہوں نے وطن چھوڑا تیرے ساتھ اور جو عورت ہو مسلمان اگر بخش دے اپنی جان نبی کو اگر نبی چاہے کہ اس کو نکاح میں لائے یہ خاص ہے تیرے لئے سوائے سب مسلمانوں کے ہم کو معلوم ہے جو مقرر کردیا ہے ہم نے ان پر ان کی عورتوں کے حق میں اور ان کے ہاتھ کے مال میں تانہ رہے تجھ پر تنگی اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان
خلاصہ تفسیر
اے نبی (بعض احکام آپ کے ساتھ مخصوص ہیں جن سے آپ کا اختصاص اور شرف بھی ثابت ہوتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں، حکم اول) ہم نے آپ کے لئے آپ کی یہ بیبیاں (جو کہ اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور) جن کو آپ ان کے مہر دے چکے ہیں (باوجود چار سے زائد ہونے کے) حلال کی ہیں (حکم دوم) اور وہ عورتیں بھی (خاص طور پر حلال کی ہیں) جو تمہاری مملوکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنیمت میں دلوا دی ہیں (اس خاص طور کا بیان معاف و مسائل میں آئے گا حکم سوم) اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں (مراد اس سے باپ کے خاندان کی بیٹیاں ہیں) اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں (مراد اس سے ماں کے خاندان کی بیٹیاں ہیں، یعنی ان سب کو) ابھی (اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے) مگر یہ خاندان کی عورتیں مطلقاً نہیں بلکہ ان میں سے صرف وہی) جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو (ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل ہجرت میں موافقت کی ہو اور معیت زمانیہ کی قید نہیں ہے اور اس قید سے وہ نکل گئیں جو مہاجر نہ ہوں، حکم چہارم) اور اس مسلمان عورت کو بھی (آپ کے لئے حلال کیا) جو بلا عوض (یعنی بلا مہر) اپنے کو پیغمبر کو دے دے (یعنی نکاح میں آنا چاہے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے (اور مسلمان کی قید سے کافرہ نکل گئی کہ حضور ﷺ کو اس سے نکاح درست نہ تھا اور یہ حکم پنجم ہے اور) یہ سب (احکام) آپ کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں اور نہ مومنین کے لئے (کہ ان کے لئے اور احکام ہیں چنانچہ) ہم کو وہ احکام معلوم ہیں (اور آیات و احادیث کے ذریعہ اور دن کو بھی معلوم کرا دیئے ہیں) جو ہم نے ان (عام مومنین) پر ان کی بیبیوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں (جو ان احکام سے متمائز اور متغائر ہیں، جن میں سے نمونہ کے طور پر ایک اوپر بھی آیت اذا نکحتم میں مذکور ہے، جس میں فمتعوہن سے مہر کا لزوم ہر نکاح کے لئے ثابت ہوتا ہے خواہ حقیقتاً یا حکماً ، اور خواہ باہم قرار داد سے ہو یا شرعی حکم سے۔ اور نکاح نبوی حکم چہارم میں مہر سے خالی ہے اور یہ اختصاص اس لئے ہے) تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی (واقع) نہ ہو (پس جن احکام مخصوصہ میں اوروں سے توسیع ہے جیسے حکم اول و چہارم، ان میں تو تنگی نہ ہونا ظاہر ہے، اور جن میں ظاہراً تقیید و تضییق ہے جیسے حکم سوم اور پنجم وہاں تنگی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے یہ قید آپ کے بعض مصالح کے لئے لگائی ہے اگر یہ قید نہ ہوتی تو آپ کی وہ مصلحت فوت ہوجاتی اور اس وقت آپ کو تنگی ہوتی جو ہم کو معلوم ہے، اس لئے رعایت اس مصلحت کی گئی تاکہ وہ تنگی متحمل واقع نہ ہو اور حکم دوم کے متعلق معارف و مسائل میں آوے گی) اور (رفع حرج کی رعایت کچھ انہی احکام مختصہ میں ہی نہیں ہے بلکہ عام مومنین کے متعلق جو احکام ہیں ان میں بھی یہ امر ملحوظ ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (پس رحمت سے احکام میں سہولت کی رعایت فرماتے ہیں، اور سہل احکام میں بھی کوتاہی ہوجانے پر احیاناً مغفرت فرماتے ہیں جو دلیل غایت رحمت ہے جو بناء ہے سہولت احکام و رفع حرج کی اور یہ تو بیان تھا ان عورتوں کی اقسام کا جو آپ کے لئے حلال کی گئیں، آگے اس کا بیان ہے کہ جو اقسام حلال کی گئیں ہیں ان میں سے جتنی جس وقت آپ کے پاس ہوں ان کے کیا احکام ہیں، پس حکم ششم یہ ارشاد ہے کہ) ان میں سے آپ جس کو چاہیں (اور جب تک چاہیں) اپنے سے دور رکھیں (یعنی اس کو باری نہ دیں) اور جس کو چاہیں (اور جب تک چاہیں) اپنے نزدیک رکھیں (یعنی اس کو باری دیں) اور جن کو دور کر رکھا تھا ان سے پھر کسی کو طلب کریں تب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں (مطلب یہ ہوا کہ ازواج میں شب باشی کی باری وغیرہ کی رعایت آپ پر واجب نہیں اور اس میں ایک بڑی ضروری مصلحت ہے وہ یہ کہ) اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان (بیبیوں) کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی (یعنی خوش رہیں گی) اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کو دے دیں گے اس پر سب کی سب راضی رہیں گی (کیونکہ بنا رنج کی عادتاً دعویٰ استحقاق کا ہوتا ہے، اور جب معلوم ہوجائے کہ جو کچھ مال یا توجہ مبذول ہوگی وہ تبرع محض ہے، ہمارا حق واجب نہیں ہے تو کسی کو کوئی شکایت نہیں رہے گی، اور لونڈیوں کا حق باری میں نہ ہونا سب ہی کو معلوم ہے) اور (اے مسلمانو ! یہ احکام مختصہ سن کر دل میں یہ خیالات مت پکا لینا کہ یہ احکام عام کیوں نہ ہوئے اگر ایسا کرو گے تو) خدا تعالیٰ کو تم لوگوں کے دلوں کی سب باتیں معلوم ہیں (ایسا خیال پکا لینے پر تم کو سزا دے گا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض اور رسول اللہ ﷺ پر حسد ہے جو موجب تعذیب ہے) اور اللہ تعالیٰ (یہی کیا) سب کچھ جاننے والا ہے (اور معترضین کو جو عاجلاً سزا نہیں ہوئی تو اس سے نفی علم لازم نہیں آتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) بردبار (بھی) ہے (اس لئے کبھی سزا میں ڈھیل دیتا ہے، آگے بقیہ احکام مختصہ بحضرة الرسالة ارشاد فرماتے ہیں جن میں بعضے تو احکام بالا کا نتیجہ ہیں اور بعضے جدید ہیں، پس ارشاد ہے کہ اوپر جو حکم سوم و پنجم میں منکوحہ عورتوں میں ہجرت اور ایمان کی قید لگائی ہے سو) ان کے علاوہ اور عورتیں (جن میں یہ قید نہ ہو) آپ کے لئے حلال نہیں ہیں (یعنی اہل قرابت میں سے غیر مہاجرات حلال نہیں اور دوسری عورتوں میں سے غیر مومنات حلال نہیں، یہ تو تتمہ ہوا حکم بالا کا) اور (آگے حکم ہفتم جدید ہے کہ) نہ یہ درست ہے کہ آپ ان (مجودہ) بیبیوں کی جگہ دوسری بیبیاں کرلیں (اس طرح سے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور بجائے ان کی دوسری کرلیں اور یوں بدون ان کے طلاق دیئے ہوئے اگر کسی سے نکاح کرلیں تو اس کی ممانعت نہیں اسی طرح اگر بلا قصد تبدل کسی کو طلاق دے دیں تو اس کی بھی ممانعت ثابت نہیں، بلکہ لفظ تبدل اس مجموعہ کی ممانعت پر دال ہے، پس یہ تبدل ممنوع ہے) اگرچہ آپ کو ان (دوسریوں) کا حسن اچھا معلوم ہو مگر جو آپ کی مملوکہ ہو (کہ وہ حکم پنجم اور ہفتم دونوں سے مستثنیٰ ہے، یعنی وہ کتابیہ ہونے پر بھی حلال ہے، اور اس میں تبدل بھی درست ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کی حقیقت اور آثار و مصالح) کا پورا نگراں ہے (اس لئے ان سب احکام میں مصلحتیں و حکمتیں ہیں گو عام مکلفین کو وہ تعییناً نہ بتلائی جائیں، اس واسطے کسی کو سوال یا اعتراض کا منصب و استحقاق نہیں)

معارف و مسائل
آیات مذکورہ میں نکاح و طلاق وغیرہ سے متعلق ان سات احکامات کا ذکر ہے جو رسول اللہ ﷺ کے لئے مخصوص ہیں۔ اور یہ خصوصیات آنحضرت محمد ﷺ کی ایک امتیازی شان اور خصوصی اعزاز کی علامت ہیں، ان میں سے بعض احکام تو ایسے ہیں کہ ان کی خصوصیت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بالکل واضح اور جلی ہے اور بعض ایسے ہیں جو اگرچہ سب مسلمانوں کے لئے عام ہیں مگر ان میں کچھ قیدیں شرطیں رسول اللہ ﷺ کے لئے مخصوص ہیں، اب ان کی تفصیل دیکھئے۔
پہلا حکم
(آیت) انا احللنا لک ازواجک التی اتیت اجورھن، ”یعنی ہم نے حلال کردیا۔ آپ کے لئے آپ کی سب موجودہ ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کردیئے ہیں۔“ یہ حکم بظاہر سبھی مسلمانوں کے لئے عام ہے، مگر اس میں وجہ خصوصیت یہ ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں موجود تھیں اور عام مسلمانوں کے لئے چار سے زائد عورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حلال نہیں، تو یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھنا آپ کے لئے حلال کردیا گیا۔
اور اس آیت میں جو التی اتیت اجورھن، فرمایا ہے یہ کوئی قید احترازی یا شرط حلت نہیں بلکہ واقعہ کا اظہار ہے کہ جتنی عورتیں رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں آئیں آپ نے سب کا مہر نقد ادا کردیا ادھار نہیں رکھا۔ آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس چیز کا دینا آپ کے ذمہ عائد ہو اس کو فوراً دے کر سبکدوش ہوجاتے تھے، بلا ضرورت تاخیر نہ فرماتے تھے۔ اس واقعہ کے اظہار میں عام مسلمانوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب ہے۔
دوسرا حکم
(آیت) وما ملکت بمینک مما افاء اللہ علیک، ”یعنی آپ کے لئے حلال کردیا ان عورتوں کو جو آپ کی ملک میں ہوں، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کا مالک بنادیا ہے اس آیت میں لفظ افاء فیی سے مشتق ہے۔ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے وہ مال جو کفار سے بغیر جنگ کے یا بطور مصالحت کے حاصل ہوجائے اور کبھی مطلق مال غنیمت کو بھی لفظ فی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اس کا ذکر کسی شرط کے طور پر نہیں کہ آپ کے لئے صرف وہ کنیز حلال ہوگی جو مال فئی یا غنیمت میں سے آپ کے حصہ میں آتی ہو، بلکہ جس کو آپ نے قیمت دے کر خریدا ہو وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔
لیکن اس حکم میں بظاہر رسول اللہ ﷺ کا کوئی اختصاص و امتیاز نہیں، پوری امت کے لئے یہ حکم ہے، جو کنیز مال غنیمت سے حصہ میں آئے یا جس کی قیمت دے کر خریدیں وہ ان کے لئے حلال ہے، اور بظاہر سیاق ان تمام آیات کا یہ چاہتا ہے کہ ان میں جو احکام آئے ہیں وہ کچھ نہ کچھ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہوں۔ اسی لئے روح المعانی میں کنیزوں کی حلت سے متعلق بھی رسول اللہ ﷺ کی ایک خصوصیت یہ بتلائی ہے کہ جس طرح آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی کا نکاح کسی امتی سے حلال نہیں۔
اسی طرح جو کنیز آپ کے لئے حلال کی گئی ہے آپ کے بعد وہ کسی کے لئے حلال نہ ہوگی، جیسا کہ حضرت ماریہ قبطیہ ہیں جن کو مقوقس بادشاہ روم نے آپ کے لئے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ تو جس طرح آپ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کا نکاح کسی سے جائز نہیں تھا ان کا بھی نکاح کسی سے جائز نہیں رکھا گیا۔ اس لحاظ سے (آیت) ما ملکت ایمانہم کے حلال ہونے میں بھی آپ کی ایک خصوصیت ثابت ہوگئی۔
اور سیدی حضرت حکیم الامة قدس سرہ، نے اور دو خصوصیتیں بیان القرآن میں بیان فرمائی ہیں جو مذکورہ خصوصیت سے زیادہ واضح ہیں
اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار خصوصی دیا گیا تھا کہ مال غنیمت کو تقسیم کرنے سے پہلے آپ اس میں سے کسی چیز کا اپنے لئے انتخاب فرما لیں تو وہ آپ کی ملک خاص ہوجاتی تھی، اس خاص چیز کو اصطلاح میں صفی النبی کہا جاتا تھا، جیسا کہ غزوہ خیبر کی غنیمت میں سے آنحضرت ﷺ نے حضرت صفیہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا تو ملک یمین کے مسئلہ میں یہ صرف آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے۔
دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دار الحرب سے کسی غیر مسلم کی طرف سے اگر کوئی ہدیہ مسلمانوں کے امیر المومنین کے نام پر آئے تو حکم شرعی یہ ہے کہ اس کا مالک امیر المومنین نہیں ہوتا بلکہ وہ بیت المال شرعی کی ملک قرار دیا جاتا ہے، بخلاف نبی کریم ﷺ کے کہ ایسا ہدیہ آپ کے لئے خصوصیت سے حلال کردیا گیا، جیسا ماریہ قبطیہ کا معاملہ ہے کہ مقوقس نے ان کو بطور ہدیہ وتحفہ آپ کی خدمت میں پیش کیا، تو یہ آپ ہی کی ملک قرار پائیں۔ واللہ اعلم۔
تیسرا حکم
بنت عمک وبنت عمتک الآیة، اس آیت میں عم اور خال کو مفرد اور عمات اور خالات کو جمع لانے کی توجیہات علماء نے بہت لکھی ہیں، تفسیر روح المعانی نے ابوحیان کی اس توجیہ کو اختیار کیا ہے کہ محاورہ عرب کا اسی طرح ہی اشعار عرب اس پر شاہد ہیں کہ عم کی جمع استعمال نہیں کرتے مفرد ہی استعمال ہوتا ہے۔
مطلب آیت کا یہ ہے کہ آپ کے لئے چچا اور پھوپھی کی لڑکیاں اور ماموں خالہ کی لڑکیاں حلال کردی گئیں، چچا پھوپھی میں باپ کے خاندان کی سب لڑکیاں اور ماموں خالہ میں ماں کے خاندان کی سب لڑکیاں شامل ہیں، اور ان سے نکاح کا حلال ہونا تو آنحضرت ﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں، سب مسلمانوں کا یہی حکم ہے۔ لیکن ان میں یہ قید کہ انہوں نے آپ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کی ہو یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ عام امت کے لئے تو باپ اور ماں کے خاندان کی یہ لڑکیاں بغیر کسی شرط کے حلال ہیں، خواہ انہوں نے ہجرت کی ہو یا نہ کی ہو، مگر رسول اللہ ﷺ کے لئے ان میں سے صرف وہ حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ ساتھ ہجرت کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ سفر میں آپ کی معیت رہی ہو یا ایک ہی وقت میں ہجرت کی ہو، بلکہ مراد نفس ہجرت میں معیت وموافقت ہے۔ ان میں سے جس نے کسی وجہ سے ہجرت نہیں کی اس سے آپ کا نکاح حلال نہیں رکھا گیا، جیسا کہ آپ کے چچا ابو طالب کی بیٹی ام ہانی نے فرمایا کہ مجھ سے آپ کا نکاح اس لئے حلال نہیں تھا کہ میں نے مکہ سے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ میرا شمار طلقاء میں تھا۔ طلقاء ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کو فتح مکہ کے وقت رسول اللہ ﷺ نے آزاد کردیا تھا نہ قتل کیا نہ غلام بنایا۔ (روح و جصاص)
اور رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے لئے مہاجرات کی شرط صرف اپنی ماں باپ کے خاندان کی لڑکیوں میں تھی، عام امت کی عورتوں میں ہجرت کی شرط نہ تھی، بلکہ ان کا صرف مسلمان ہونا کافی تھا۔ اور خاندان کی لڑکیوں میں ہجرت کی شرط لگانے میں شاید یہ حکمت ہو کہ عموماً خاندان کی لڑکیوں کو اپنے خاندان کا ایک ناز اور فخر ہوتا ہے، اور رسول کی زوجیت کے لئے یہ شایان شان نہیں، اس کا علاج ہجرت کی شرط سے کیا گیا۔ کیونکہ ہجرت صرف وہی عورت کرے گی جو اللہ و رسول کی محبت کو اپنے سارے خاندان اور وطن و جائیداد کی محبت سے غالب رکھے۔ نیز ہجرت کے وقت انسان کو طرح طرح کی تکلیفیں پیش آتی ہیں، اور اللہ کی راہ میں جو تکلیف و مشقت اٹھائی جائے اس کو اصلاح اعمال میں خاص دخل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ ماں اور باپ کے خاندان کی لڑکیوں سے نکاح میں آنحضرت ﷺ کے لئے ایک خصوصی شرط یہ ہے کہ انہوں نے مکہ سے ہجرت کرنے میں آپ کا ساتھ دیا ہو۔
چوتھا حکم
(آیت) وامراة مومنة ان وھبت نفسہا للنبی ان ارادالنبی ان یستنکہا خالصة لک من دون المومنین، ”یعنی اگر کوئی مسلمان عورت اپنے نفس کو آپ کے لئے ہبہ کر دے، یعنی بغیر مہر کے آپ سے نکاح کرنا چاہے، اگر آپ اس سے نکاح کا ارادہ کریں تو آپ کے لئے بلا مہر کے بھی نکاح حلال ہے، اور یہ خاص حکم آپ کے لئے ہے دوسرے مومنین کے لئے نہیں“
اس معاملہ کی خصوصیت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بالکل واضح ہے کیونکہ عام لوگوں کے لئے نکاح میں مہر شرط لازم ہے، یہاں تک کہ اگر بوقت نکاح کسی مہر کا ذکر نہی یا نفی کے ساتھ آیا کہ عورت نے کہا کہ مہر نہیں لوں گی، یا مرد نے کہا کہ نکاح اس شرط پر کرتے ہیں کہ مہر نہیں دیں گے، دونوں صورتوں میں ان کا کہنا اور شرط شرعی حیثیت سے لغو ہوگی، اور شرعاً مہر مثل واجب ہوگا۔ صرف رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت سے نکاح بلا مہر حلال کیا گیا ہے جبکہ عورت بلا مہر نکاح کرنے کی خواہش مند ہو۔
فائدہ
یہ حکم کہ جو عورت آپ کے لئے اپنے آپ کو ہبہ کرے۔ یعنی بلا مہر کے نکاح کرنا چاہے وہ آپ کے لئے حلال ہے، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش بھی آیا یا نہیں ؟ بعض نے فرمایا کہ کسی ایسی عورت سے رسول اللہ ﷺ کا نکاح کرنا ثابت نہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ نے کسی ہبہ کرنے والی عورت سے نکاح نہیں کیا، اور بعض حضرات نے بعض ایسی عورتوں سے نکاح ہونا ثابت کیا ہے۔ (روح المعانی)
اس حکم کے ساتھ جو جملہ خالصة لک کا آیا ہے، اس کو بعض حضرات نے صرف اسی حکم چہارم کے ساتھ مخصوص کہا ہے اور زمخشری وغیرہ مفسرین نے اس جملے کو ان تمام احکام کے ساتھ لگایا ہے جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، کہ یہ سب خصوصیات نبی کریم ﷺ کی ہیں۔ اس کے آخر میں فرمایا لکیلا یکون علیک حرج، یعنی یہ خصوصی احکام آپ کے لئے اس لئے دیئے گئے ہیں کہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو۔ جو احکام مخصوصہ اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں پہلا حکم یعنی چار سے زائد بیبیاں آپ کے لئے حلال کردی گئیں اور حکم چہارم کے بغیر مہر کے نکاح حلال کردیا گیا، ان میں تو تنگی کا رفع کرنا اور مزید سہولت دیا جانا ظاہر ہے، مگر باقی تین حکم یعنی دوم و سوم اور پنجم ان میں تو بظاہر آپ پر کچھ مزید قیدیں لگا دی گئیں جن سے تنگی اور بڑھنی چاہئے۔ مگر اس میں اشارہ فرما دیا کہ اگرچہ ظاہر میں یہ قیدیں ایک تنگی بڑھاتی ہیں، مگر ان میں آپ کی ایسی مصلحتوں کی رعایت ہے کہ یہ قیدیں نہ ہوتیں تو آپ کو بڑی تکلیف پیش آتی جو ضیق قلب کا سبب بنتیں، اس لئے قید زائد میں بھی آپ کی تنگی رفع کرنا ہی مقصود ہے۔
پانچواں حکم
جو آیات مذکورہ میں مومنہ کی قید سے مستفاد ہوتا ہے یہ کہ اگرچہ عام مسلمانوں کے لئے یہود و نصاریٰ کی عورتوں یعنی کتابیات سے نکاح بنص قرآن حلال ہے، مگر رسول اللہ ﷺ کے لئے عورت کا مومن ہونا شرط ہے، کتابیات سے آپ کا نکاح نہیں ہو سکتا۔
ان پانچوں احکام کی خصوصیت نبی کریم ﷺ کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد عام مسلمانوں کا حکم اجمالاً ذکر فرمایا ہے، (آیت) قد علمنا مافرضنا علیہم فی ازواجہم وما ملکت ایمانہم، یعنی احکام مذکورہ آپ کے لئے مخصوص ہیں، باقی مسلمانوں کے نکاح کے لئے جو ہم نے فرض کیا ہے وہ ہم جانتے ہیں، مثلاً عام مسلمانوں کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا اور کتابیات سے ان کا نکاح ہوسکتا ہے، اسی طرح سابقہ احکام میں جو قیدیں شرطیں آپ کے نکاح کے لئے ضروری قرار دی گئی ہیں وہ اوروں کے لئے نہیں ہیں۔
آخر میں فرمایا (آیت) لکیلا یکون علیک حرج، یعنی نکاح کے معاملے میں آپ کے لئے یہ خصوصی احکام اس لئے ہیں کہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو اور جو قیدیں شرطیں آپ پر بہ نسبت دوسرے مسلمانوں کے زائد لگائی گئی ہیں اگرچہ بظاہر وہ ایک قسم کی تنگی ہے مگر جن مصالح اور حکمتوں کے پیش نظر آپ کے لئے یہ شرطیں لگائی ہیں ان میں غور کریں تو وہ بھی آپ کی روحانی پریشانی اور تنگ دلی کو دور کرنے ہی کے لئے ہیں۔
یہاں تک نکاح کے متعلق پانچ احکام آئے ہیں، جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کوئی نہ کوئی خصوصیت رکھتے ہیں۔ آگے دو حکم انہی پانچ احکام سے متعلق بیان فرمائے ہیں ،
Top