Ruh-ul-Quran - An-Najm : 5
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ
عَلَّمَهٗ : سکھایا اس کو شَدِيْدُ الْقُوٰى : زبردست قوت والے نے
اور اس کو تعلیم دی ہے زبردست قوتوں والے نے
عَلَّمَہٗ شَدِیْدُالْقُوٰی۔ ذُوْمِرَّۃٍ ط فَاسْتَوٰی۔ وَھُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی۔ (النجم : 5 تا 7) (اور اس کو تعلیم دی ہے زبردست قوتوں والے نے۔ جو بڑا صاحب حکمت ہے، وہ نمودار ہوا۔ اور وہ بالائی افق پر تھا۔ ) حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی صفات قریش کا یہ بھی الزام تھا کہ محمد ﷺ پر کوئی جن اترتا ہے جو اسے مختلف باتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ اور کبھی وہ یہ کہتے کہ کوئی غلام ہے جو نہایت پڑھا لکھا ہے اور وہ آپ کو قرآن کریم کی عبارت بنانے میں مدد دیتا ہے۔ چناچہ ایسی تمام لایعنی باتوں کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو نہ کسی جن نے سکھایا ہے اور نہ کسی انسان نے آپ کو کوئی تعلیم دی ہے بلکہ آپ کو تعلیم دی ہے اس فوق البشر شخصیت نے جو بہت قوتوں والی ہے اور اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ پروردگار نے انھیں شدیدالقویٰ یعنی بہت قوتوں والا قرار دیا ہے اور اگلی آیت میں اسے ذُوْمِرَّۃٍ فرمایا گیا ہے۔ یعنی وہ اپنی عقل اور اپنے کردار میں نہایت محکم ہے۔ وہ صاحب حکمت ہے۔ یعنی نہ اس کی قوت میں کوئی مقابل ہوسکتا ہے اور نہ عقل اور کردار میں اس کا کوئی مثیل ہوسکتا ہے۔ سورة التکویر میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا ذکر بدیں الفاظ میں ہے انہ لقول رسول کریم، ذی قوۃ عند ذی العرش مکین، مطاع ثم امین ” یہ ایک باعزت فرشتے کا بیان ہے، وہ بڑی قوت والا اور عرش والے کے نزدیک بارسوخ ہے، اس کی اطاعت کی جاتی ہے، مزیدبرآں وہ نہایت امین ہے۔ “ یعنی وہ فرشتہ جو ان خصوصیات کا حامل ہے اور ایسی اعلیٰ صلاحیتوں سے بھرپور ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی دوسری روح اس کو متأثر یا مرعوب کرسکے اور نہ کوئی قوت اس کی امانت میں نقص پیدا کرسکتی ہے یا اس کی تعلیم میں خلط مبحث کرسکتی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب اس کا حکم لے کر رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوتا ہے تو وہ اسے بغیر کسی خلل و فساد کے پوری دیانت و امانت کے ساتھ آپ تک پہنچاتا ہے۔ اور دوسری آیت میں مزید فرمایا کہ وہ غیرمعمولی قوتوں کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عقل اور کردار میں بھی نہایت محکم ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ کوئی دھوکہ کھا سکے یا کوئی اس کو دھوکہ دے سکے یا وہ کسی کے ہاتھ بک سکے یا کوئی اس کو خرید سکے۔ پھر اس فرشتے کی شخصیت محض تصوراتی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رسول نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس کی اصلی شکل میں بھی اور دوسری شکلوں میں بھی۔ پھر اس رویت کی منظرکشی کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ مستوی القامت ہو کر آپ کے سامنے نمودار ہوا اور اس کی نمودار ہونے کی جگہ آسمان کے افقِ اعلیٰ میں تھی۔ افقِ اعلیٰ سے مراد آسمان کا بالائی مشرقی کنارہ ہے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور دن کی روشنی پھیلتی ہے۔ پہلی مرتبہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب نبی کریم ﷺ کو نظر آئے تو اس وقت وہ آسمان کے مشرقی کنارے سے نمودار ہوئے تھے اور متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ اپنی اصلی صورت میں تھے۔ اور جس کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے کہ آپ کے جسم نے پورے افق کو بھر دیا تھا۔
Top