Maarif-ul-Quran - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
(کہدو) کہ مجھ کو یہی ارشاد ہوا ہے کہ اس شہر (مکہ) کے مالک کی عبادت کروں جس نے اس کو محترم (اور مقام ادب) بنایا ہے اور سب چیز اسی کی ہے اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ اس کا حکم بردار رہوں
خاتمہء سورت برحکم عبادت وتلاوت قرآن قال اللہ تعالیٰ انما امرت ان اعبدرت ھذہ البلدۃ۔۔۔ الی۔۔۔۔ وما ربک بغافل عما تعملون۔ (ربط) جب اللہ تعالیٰ مبدا اور معاد اور قیامت اور علامات قیامت اور قانون جزا اور سزا کو بیان کرچکے تو اب اس سورت کو تین احکام کے بیان پر ختم کرتے ہیں جن پر آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ (1) ایک تو خدا کی عبادت۔ یعنی توحید خالص۔ (2) دوم دین اسلام پر استقامت۔ (3) سوم قرآن مجید کی تلاوت جو تبلیغ احکام اور دعوت اسلام کا اولین ذریعہ ہے۔ اور بتلا دیا کہ راہ راست پر چلنے سے بندہ ہی کا فائدہ ہے۔ اور نہ چلنے سے بندہ ہی کا نقصان ہے اور اللہ بندوں کے اعمال سے غافل نہیں۔ لہٰذا اعمال صالحہ عبادت اور تلاوت میں لگے رہو تاکہ آخرت میں کام آویں۔ (ربط دیگر) کہ گزشتہ آیات میں مبداء اور معاد کو اور ایمان اور ہدایت کو بیان کیا اب نبی اکرم ﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ ﷺ تبلیغ رسالت کرچکے اور حق دعوت ادا کرچکے۔ منکرین پر حجت پوری ہوگئی۔ لہٰذا آپ ﷺ اللہ کی عبادت میں مشغول رہیں۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھیں اور ان مخالفین کی پروا نہ کریں چناچہ فرماتے ہیں اے نبی آپ ان لوگوں سے یہ کہہ دیجئے کہ بس مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں شہر مکہ کے پروردگار کی عبادت اور بندگی میں لگا رہوں جس پروردگار نے اس کو حرم محرم ٹھہرایا ہے کہ اس نے اس شہر میں قتل و قتال کو اور شکار کرنے کو اور اس کے گھاس کاٹنے کو اور بغیر احرام کے اس میں داخل ہونے کو ممنوع قرار دیا ہے اور اس کی تحریم خدا کی طرف سے ہے بتوں کی طرف سے نہیں ہے اور ہر شے اسی پروردگار کی ملک ہے اور مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں خالص اللہ کے فرمانبرداروں میں سے رہوں یعنی توحید اور اخلاص اور عبودیت پر قائم اور ثابت قدم رہوں اور مجھ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں قرآن کی تلاوت کرتا رہوں یعنی خود بھی پڑھتا رہوں اور تم کو بھی پڑھ کر سناتا رہوں اس آیت میں تلاوت قرآن کے حکم سے تلاوت قرآن پر مواظبت اور مداومت مراد ہے خواہ وہ تلاوت بطریق عبادت ہو یا بطریق دعوت ہو یعنی مجھ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں برابر قرآن کی تلاوت میں لگا رہوں اور مسلسل تم کو اللہ کا پیغام اور اس کے احکام پہنچاتا رہوں سو جو کوئی میری ہدایت سے راہ ہدایت پر آجاوے تو وہ اپنے ہی بھلے کے لئے راہ ہدایت پر آتا ہے اس کا نفع اسی کی ذات کو ہے اس نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا اور جو شخص راہ ہدایت بتلانے کے بعد بھی گمراہ رہا تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تو ڈرانے والوں میں سے ہوں اور بس۔ یعنی مراد کام تو صرف پہنچا دینا ہے۔ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے میرا یہ کام نہیں کہ تم سے زبردستی منواؤں اور آپ کہہ دیجئے کہ شکر ہے خدا تعالیٰ کا جس نے مجھ کو منصب رسالت پر فائر کیا اور اپنے پیغام پہنچانے کی توفیق دی۔ اب نتیجہ اور انجام سب اس کے ہاتھ میں ہے سو وہ عنقریب تم کو اپنی قدرت کی اور میری نبوت کی نشانیاں دکھلائے گا جن کی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے۔ پھر تم ان کو پہچان لو گے جن کا تم اب انکار کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ مخلوق کو عذاب نہیں دیتا جب تک ان پر حجت پوری نہ کردے اس لئے وہ وقتا فوقتا تم کو اپنی قدرت کی نشانیاں اور آخرت کی نشانیاں دکھلائے گا۔ آخرت کی آخری نشانیوں میں سے زمین سے سے دابۃ الارض کا خروج ہے مگر نشانیوں کو دیکھ کر ایمان لانا چنداں مفید نہیں اب اگر ایمان لے آؤ تو نفع دے گا۔ اور اے نبی تیرا پروردگار بنی آدم کے اعمال سے غافل نہیں وہ ان کے اعمال سے خبردار ہے۔ اعمال کے مطابق ان کو سزا دے گا لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ آخرت پر ایمان لائیں گے اور اس کی تیاری کریں۔ براحتے نرسید آنکحہ زحمتے نکشید
Top