Maarif-ul-Quran - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
مجھ کو یہی حکم ہے کہ بندگی کروں اس شہر کے مالک کی جس نے اس کو حرمت دی اور اسی کی ہے ہر ایک چیز اور مجھ کو حکم ہے کہ رہوں حکم برداروں میں
خلاصہ تفسیر
(اے پیغمبر ﷺ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم ملا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے مالک (حقیقی) کی عبادت کیا کروں جس نے اس (شہر) کو محترم بنایا ہے (کہ حرم ہونا اسی احترام پر مرتب ہے مطلب یہ ہے کہ عبادت میں کسی کو شریک نہ کروں) اور (اس کی عبادت کیوں نہ کی جاوے جبکہ) سب چیزیں اسی کی (ملک) ہیں اور مجھ کو یہ (بھی) حکم ہوا ہے کہ میں (عقائد و اعمال سب میں) فرمانبردار رہوں (یہ تو توحید کا حکم ہوا) اور (مجھ کو) یہ (بھی حکم ملا ہے) کہ میں (تم کو) قرآن پڑھ پڑھ کر سناؤں (یعنی احکام الہیہ کی تبلیغ کروں جو نبوت کے لوازم میں سے ہے) سو (میری تبلیغ کے بعد) جو شخص راہ پر آوے گا تو اپنے ہی فائدہ کے لئے راہ پر آوے گا (یعنی اس کو عذاب سے نجات اور جنت کی لازوال نعمتیں ملیں گی، میں اس سے کسی اپنے مالی یا جاہی نفع کا خواہاں نہیں) اور جو شخص گمراہ رہے گا تو آپ کہہ دیجئے کہ (میرا کوئی ضرر نہیں کیونکہ) میں تو صرف ڈرانے والے (یعنی حکم سنانے والے) پیغمبروں میں سے ہوں (یعنی میرا کام تو حکم پہنچا دینا ہے، اس کے بعد میری ذمہ داری ختم ہے نہ مانو گے تو وبال تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا) اور آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ (تم جو قیامت کے آنے میں دیر کو اس کے نہ ہونے کی دلیل سمجھ کر انکار کرتے ہو یہ تمہاری بیوقوفی ہے کسی چیز کے واقع ہونے میں دیر لگنا اس کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کبھی واقع ہو ہی گی نہیں۔ اس کے علاوہ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ میں جلد قیامت لے آؤں یہ دوسری غلطی ہے کیونکہ میں نے یہ کب دعویٰ کیا ہے کہ قیامت کا واقع کرنا میرے اختیار میں ہے بلکہ) سب خوبیاں خالص اللہ ہی کے لئے ثابت ہیں (قدرت بھی، علم بھی حکمت بھی۔ وہ جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا قیامت کو واقع کر دے گا۔ ہاں اتنی بات ہمیں بھی بتلا دی گئی ہے کہ قیامت میں زیادہ دیر نہیں بلکہ) وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں (یعنی قیامت کے واقعات) دکھلاوے گا سو تم (وقوع کے وقت) ان کو پہچانو گے (جبکہ پہچاننے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا) اور (صرف یہ علامات کھلانے ہی پر اکتفا نہ ہوگا بلکہ اپنے برے اعمال کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی کیونکہ، آپ کا رب ان کاموں سے بیخبر نہیں جو تم سب لوگ کر رہی ہو۔

معارف و مسائل
رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ ، بلدہ سے مراد جمہوری مفسرین کے نزدیک مکہ مکرمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو رب العالمین اور رب السموات والارض ہے مکہ مکرمہ کی تخصیص اس جگہ اس کی عظمت شان اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکرم و محترم ہونے کا اظہار ہے۔ لفظ حرم تحریم سے مشتق ہے اس کے معنے مطلق احترام و اکرام کے بھی ہیں اور اس احترام و اکرام کی وجہ سے جو خاص احکام شرعیہ مکہ مکرمہ اور ارض حرم سے متعلق ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں مثلاً جو شخص حرم میں پناہ لے وہ مامون ہوجاتا ہے۔ حرم میں کسی دشمن سے انتقام لینا اور قتل کرنا جائز نہیں اور ارض حرم میں شکار کو قتل کرنا بھی جائز نہیں، درختوں کا کاٹنا جائز نہیں۔ ان احکام کا بیان آیت وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا کے تحت میں اور کچھ سورة مائدہ کے شروع میں اور کچھ آیت للَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَاَنْتُمْ کے تحت پہلے بیان ہوچکا ہے۔
الحمد للہ سورة نمل کی تفسیر آج شب دو شنبہ 24 شوال 1391 ھ میں تمام ہوئی جبکہ 14 شوال سے ہندوستان کے ہندوؤں نے مغربی پاکستان پر بھرپور حملے میدانی اور بحری اور ہوائی کردیئے ہیں، کراچی خاص طور سے اس کا نشانہ ہے ہر رات بمباری ہوتی ہے، شہری آبادی پر بھی بم گرتے ہیں تمام رات مکمل اندھیرا رکھنا پڑتا ہے اور بموں کے دھماکے سے مکان لرزتے ہیں، مگر اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ان حالات میں بھی سلسلہ اس تفسیر کا جاری رکھا اور اس جنگ کے دس روز میں بھی تفسیر کے تقریباً چالیس صفحات لکھے گئے۔
Top