Al-Quran-al-Kareem - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت دی اور اسی کے لیے ہر چیز ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوجاؤں۔
اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ۔۔ : اس آیت میں قریش مکہ پر چوٹ ہے کہ تم لوگ جو اس شہر میں رہتے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت والا اور جائے امن قرار دیا ہے، جہاں نہ کسی کو قتل کیا جاتا ہے، نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے، نہ اس میں شکار کی اجازت ہے، نہ اس کے درخت کاٹنے کی، جس کی وجہ سے تم بیشمار فوائد اٹھا رہے ہو۔ اللہ کے گھر کے متولی ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں تمہاری عزت اور تمہارا وقار قائم ہے۔ سارے عرب میں کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں، لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جاتا ہے، ان کے اموال لوٹ لیے جاتے ہیں، مگر بیت اللہ کی وجہ سے مکہ میں بھی تمہیں اس کی نعمت میسر ہے اور ہر جانب سے وافر رزق تمہیں پہنچتا ہے۔ سردی میں یمن کی طرف اور گرمی میں شام کی طرف تمہارے تجارتی قافلے جاتے ہیں۔ کعبہ کے احترام کی وجہ سے کوئی انھیں لوٹنے کی جرأت نہیں کرتا۔ تم بھی مانتے ہو کہ یہ سب کچھ اس گھر کے رب کی وجہ سے ہے، ان بتوں کی وجہ سے نہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ تمہارا حق تو یہ تھا کہ تم اس شہر کے رب کی عبادت کرتے جس نے تمہیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن عطا کیا، فرمایا : (فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ الَّذِيْٓ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ) [ القریش : 3، 4 ] ”تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ وہ جس نے انھیں بھوک سے (بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔“ فرمایا، ان سے کہہ دو تم ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہوئے غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو تو تمہاری مرضی، مجھے تو یہی حکم ہے کہ میں اس گھر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔ ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : (إِنَّ ھٰذَا الْبَلَدَ حَرَّمَہُ اللّٰہُ ، لَا یُعْضَدُ شَوْکُہُ ، وَلَا یُنَفَّرُ صَیْدُہُ وَلَا یَلْتَقِطُ لُقَطَتَہُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَھَا) [ بخاري، الحج، باب فضل الحرم۔۔ : 1587 ] ”اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا، نہ اس کے کانٹے والے درخت کاٹے جائیں اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائے، مگر جو اس کا اعلان کرتا رہے۔“ وَلَهٗ كُلُّ شَيْءٍ : یہ لفظ اس لیے فرمایا کہ کوئی شخص یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اس لیے ہے کہ وہ شہر مکہ کا رب ہے، اس لیے ساتھ ہی فرمایا کہ ہر چیز کا مالک بھی وہی ہے، اس لیے مجھے اس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ وَّاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة انعام (161 تا 163)۔
Top