Maarif-ul-Quran - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے
بیان علم وحلم خداوندی قال اللہ تعالی۔ ان اللہ عالم غیب السموت والارض۔۔۔ الی۔۔۔ انہ کان حلیما غفورا۔ (ربط) اوپر اکثر آیات میں اثبات توحید اور ابطال شرک اور دلائل قدرت اور صفات کمال کا بیان تھا۔ اب ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کو اور اپنے حکم بیان کرتے ہیں کہ وہ باوجود علیم وقدیر ہونے کے حلیم و غفور بھی ہے مجرمین کے پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ کما قال تعالی۔ لقد جئتم شیئا ادا تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا ان دعوا للرحمن ولدا۔ ان کے شرک کا مقتضی تو یہ تھا کہ آسمان و زمین پھٹ جائیں لیکن اللہ کے حلم کی وجہ سے تھمے ہوئے ہیں جیسا کہ ان آیات کے اخیر میں ہے۔ انہ کان حلیما غفورا بیشک اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی تمام پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اس کو پہلے ہی سے معلوم ہے کہ دنیا میں واپس جانے کے بعد بھی وہی کرو گے جو پہلے کرتے تھے اور تمہارا یہ وعدہ کہ ہم دنیا میں واپسی کے بعد نیک عمل کریں گے۔ سیاسی لوگوں کی طرح جھوٹا وعدہ ہے جس سے مقصود وقتی طور پر جان خلاصی کرنی ہے سو وہ اگر تم کو پھر دنیا کی طرف واپس کر دے تو اسے معلوم ہے کہ تم دنیا کی واپسی کے بعد بھی عمل صالح نہ کرو گے۔ کما قال تعالیٰ ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ وانہم لکاذبون اس لئے کہ وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے اس کو معلوم ہے کہ ان کے سینوں میں کفر اور مکر اور جھوٹ چھپا ہوا ہے۔ اسی خدا نے تم کو زمین میں پہلی امتوں کا قائم مقام بنایا اور تصرف اور اختیار اور اقتدار کی کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دیں اور یہ حق تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت تھی مگر ایمان نہ لائے۔ پس جو شخص کفر کرے تو اس کے کفر کا ضرر اسی پر پڑے اور نہیں زیادہ کرتا کفر اور شرک کافروں کے حق میں مگر آخرت کے خسارہ اور نقصان کو اور بسا اوقات کفر کا نقصان دنیا میں بھی ظاہر ہوجاتا ہے پس آپ ﷺ ان نادانوں کی توبیخ اور سرزنش کے لئے ذرا ان سے یہ کہیے کہ بھلا بتلاؤ تو سہی کہ جن کو تم شریک ٹھہرائے ہوئے ہو اور اللہ کے سوا ان کو اپنی حاجتوں کے لئے پکارتے ہو ذرا مجھے ان کے حال سے آگاہ کرو اور مجھے دکھلاؤ کہ وہ کیا چیز ہے جو انہوں نے زمین میں سے پیدا کی ہے اور زمین کا وہ کون سا حصہ اور جزء ہے جو ان کا بنایا ہوا ہے یا آسمانوں کی پیدائش میں ان کا کوئی حصہ ہے کہ انہوں نے بھی کوئی آسمان بنایا ہے بہرحال شرک کے لئے ان کے پاس نہ کوئی دلیل عقلی ہے اور نہ نقلی۔ کیا ہم نے ان کو کوئی کتاب دی ہے جس میں شرک کا صحیح ہونا لکھا ہو۔ اور اس میں شرک کی تعلیم وتلقین مذکور ہو پس وہ اس کتاب سے کسی روشن دلیل پر ہوں جو اس بات پر دلالت کرتی ہو کہ یہ کفر اور شرک ٹھیک اور درست ہے مگر ان میں کوئی بات بھی نہیں مگر کافر اور ظالم آپس میں مکروفریب کی رو سے ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں کہ یہ بت تمہاری شفاعت کریں گے یہ سب خیال خام ہے اللہ کے حلم سے دھوکہ میں پڑگئے ہیں اس کی قدرت پر نظر نہیں کرتے کیا اس قدرت عظیم میں غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کو روکے ہوئے اور تھامے ہوئے ہے کہ اپنی جگہ سے ٹل نہ جائیں۔ یعنی اللہ کی قدرت عظیم کا ایک کرشمہ ہے کہ آسمان و زمین باوجود بڑے بڑے اجسام ہونے کے اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں کسی کی یہ مجال نہیں کہ ذرہ برابر اپنی جگہ سے جنبش کرسکے اگر آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی مجال نہیں کہ ان کو روک سکے۔ اور تھام سکے۔ کما قال تعالیٰ ویمسک السماء ان تقع علی الارض الا باذنہ ومن ایتہ ان تقوم السماء والارض بامرہ۔ خلاصہ یہ کہ شرک پر کوئی دلیل نہیں بلکہ شرک تو فساد عالم اور اس کی تباہی اور بربادی کا سبب ہے ان کے کفر کا مقتضی تو یہ تھا کہ غضب الٰہی جوش میں آتا اور ان پر قہر خداوندی نازل ہوتا لیکن حلم الٰہی کی وجہ سے قہر خداوندی کا نزول رکا ہوا ہے اس لئے کہ تحقیق اللہ تعالیٰ بڑا ہی بردبار ہے مجرمین کے پکڑے میں جلدی نہیں کرتا اور آمرزگار ہے کفر اور معصیت کو دیکھتا ہے مگر عذاب میں جلدی نہیں کرتا ورنہ اگر چاہتا تو ایک دم سے ان پر آسمان گرا دیتا یا زمین میں ان کو دھنسا دیتا۔ نافرمانوں کو چاہیے کہ عذاب نہ آنے کو اللہ کے حلم اور بردباری کی دلیل سمجھیں اس کے عفو کلی کی دلیل نہ سمجھیں۔ جب تک دنیا قائم ہے اس وقت تک آسمان اور زمین اپنی جگہ قائم ہیں جب قیامت ہوگی تو اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ فائدہ جلیلہ دربارہ حرکت آسمان و زمین : جمہور علماء اسلام کا یہ مذہب ہے کہ نہ آسمان حرکت کرتا ہے اور نہ زمین (روح المعانی (ف 1) ص 188) قدیم فلاسفہ آسمان کو متحرک اور زمین کو ساکن کہتے ہیں اور جدید فلاسفہ آسمان کے وجود کے تو قائل نہیں اور زمین کو آفتاب کے گرد متحرک مانتے ہیں جس پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ فائدہ دیگر : حق جل شانہ کے اس قول ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا میں اس بات کی دلیل ہے کہ آسمان اور زمین کا قیام اور بقا سب اللہ کے ارادہ اور مشیت سے ہے اس میں فلاسفہ کے اس قول کے رد کی طرف اشارہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ آسمان و زمین کے حدوث کی تو علت ہے مگر بقاء کی علت نہیں (تفسیر عزیزی ص 243) عمارت کو اپنے وجود اور حدوث میں بانی کی ضرورت ہے اپنے بقا میں عمارت کو بانی کی ضرورت نہیں۔ حکماء اسلام یہ کہتے ہیں کہ جو علت حدوث کی ہے وہی علت بقا کی ہے۔ عالم کو اپنے وجود اور بقاء میں باری تعالیٰ کے ساتھ وہی نسبت ہے جو زمین کو اپنے روشن ہونے اور روشن رہنے میں آفتاب کی شعاعوں سے نسبت ہے زمین میں اپنی روشنی کے وجود اور حدوث میں بھی آفتاب کی تجلی اور اس کے طلوع کی محتاج اور اپنی روشنی کی بقاء میں بھی آفتاب کی محتاج ہے آفتاب اپنی حرکت طلوعی میں زمین کو روشنی عطا کرتا ہے اور حرکت غروبی میں اپنے عطیہ کو زمین میں سے واپس لے لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس طرح زمین ابتداء اپنے روشن ہونے میں آفتاب کی محتاج ہے اسی طرح زمین اپنی روشنی کی بقاء میں بھی آفتاب کی محتاج ہے۔ 1 قال الالوسی المشھور عند السلف ان السموت لا تدورو انھا غیر الافک وکثیر من الاسلامیین ذھبوا الی انھا تدورو انھا لیست غیر الا فلاک واما الارض فلا خلاف بین المسلمین فی سکونھا والفلاسفۃ مختلفون والمعظم علی السکون ومنہم من ذھب الی انھا متحرکۃ وان الطلوع والغروب بحرک تھا ورد ذلک فی موضعہ کذا فی روح المعانی ص 188 ج 22۔ فائدہ : ایک روایت میں ہے کہ منجانب اللہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دو شیشے دئیے گئے کہ ان کو ہاتھ میں تھامے رکھیں اور جبرئیل (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو سونے نہ دو ۔ تین راتیں تو اس طرح گذار دیں بالآخر نیند کا غلبہ ہو اور شیشے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! بالفرض اگر مجھ پر نیند اور اونگھ آتی تو شیشہ کی طرح یہ آسمان و زمین ٹوٹ پھوٹ جاتے۔ (تفسیر عزیزی ص 243)
Top