Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 101
وَ اِذَا بَدَّلْنَاۤ اٰیَةً مَّكَانَ اٰیَةٍ١ۙ وَّ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُفْتَرٍ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب بَدَّلْنَآ : ہم بدلتے ہیں اٰيَةً : کوئی حکم مَّكَانَ : جگہ اٰيَةٍ : دوسرا حکم وَّاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : اس کو جو يُنَزِّلُ : وہ نازل کرتا ہے قَالُوْٓا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اَنْتَ : تو مُفْتَرٍ : تم گھڑ لیتے ہو بَلْ : بلکہ اَكْثَرُهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ اس کے بدلے میں کوئی دوسری آیت اتارتے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ کہ وہ اتارتا ہے، تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ تم خود ہی گھڑ کرلے آتے ہو (نہیں) بلکہ (اصل حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں
220۔ احکام شریعت کی تبدیلی پر دشمنوں کے اعتراض کا ذکر :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور جب ہم کسی آیت کے بدلے میں کوئی دوسری آیت لے آتے ہیں “ کہ حکمت کا تقاضا یہی ہوتا ہے اور مکلفین کی بہتری اسی میں مضمر ہوتی ہے۔ جیسے ایک ڈاکٹر مریض کی حالت میں تبدیلی کے مطابق اس کی دوا تبدیل کرتا ہے کہ وہ مریض کی حالت کو اس سے بہتر جانتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر اور مریض دونوں انسان اور مخلوق ہونے میں ایک برابر ہیں تو پھر کیا کہنے حضرت خالق۔ جل مجدہ۔ کی عنایت اور اس کے علم اور اس کی حکمت کے۔ جو کہ سب کا خالق ومالک اور دائرہ مخلوق سے ورا الوراء اور مخلوق کی مشابہت اور اس کے ہر شائبے سے پاک اور اعلی وبالا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اس لیے وہ اپنے علم محیط اور حکمت بالغہ کے تقاضوں کے مطابق اپنے بندوں کی بہتری کیلئے اپنے احکام وارشادات میں تبدیلی فرماتارہتا ہے۔ تاکہ اس کے بندوں کا بھلا ہو۔ سو یہ احکام شریعت کی تبدیلی پر دشمنوں اور خاص کر یہود بےبہبود کے اعتراض اور ان کی وسوسہ اندازی کا جواب ہے جو وہ اس بارے میں پھیلاتے تھے اور کہتے تھے یہ صاحب اس کلام کو خود گھڑ کر لائے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنی حرمان نصیبی کو اور پکا کرتے تھے۔ والعیاذ باللہ۔ 221۔ منکرین کے اعتراض کا جواب :۔ سو اس اعتراض کے جواب میں فرمایا گیا ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ اتارتا ہے “ کہ اس میں کیا کیا فائدے اور کیا کیا حکمتیں اور مصلحتیں ہیں۔ اور بندوں کی ضرورتوں کی تکمیل کس سے اور کیسے ہوتی ہے کہ وہ خالق ومالک بھی ہے اور رحمن ورحیم بھی۔ اس لیے وہی جان سکتا ہے کہ اس کے بندوں کیلئے بہتر کی ہے۔ اپنے اتارے ہوئے کلام کی حکمت و مصلحت اور اپنے بندوں کی حاجت و ضرورت اور وقت کے حالات اور تقاضوں کو وہ خوب جانتا ہے۔ اس لیے وہ وہی کچھ نازل فرماتا ہے جس میں سرتا سر اس کے بندوں کی بہتری اور بھلائی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت نہ حق اور حقیقت کو جانتی ہے اور نہ جاننا چاہتی ہے۔ اس لیے وہ ایسے جاتے رہتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت وپناہ میں رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 222۔ قرآن حکیم کی عظمت شان کا ذکر وبیان :۔ سو فرمایا گیا کہ ان سے کہو کہ یہ میرا من گھڑت کلام نہیں بلکہ اس کو تو روح القدس لے کر آتے ہیں۔ یعنی جبریل آمین (علیہ السلام) جو کہ اللہ کی طرف سے وحی کی وہ نعمت لے کر آتے ہیں جس سے بواطن اور روحوں کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔ سو اس سے ایک بات تو واضح فرما دی گئی کہ یہ کتاب حکیم ایسی عظیم الشان کتاب ہے جو خالص اتاری ہوئی کتاب ہے تمہارے رب کی طرف سے۔ اس میں کسی اور کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اس کو لانے والے روح القدس ہیں۔ یعنی ایسی پاکیزہ روح جو کہ اس میں مداخلت کے ہر شائبہ سے پاک ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ جو لوگ قرآن حکیم کی اس روح سے محروم ہیں وہ درحقیقت مردہ ہیں۔ بہرکیف اس سے پیغمبر کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ جو آپ کو مفتری کہتے ہیں ان افتراء پردازوں سے کہو کہ یہ میرا اپنا من گھڑت کلام نہیں بلکہ یہ حضرت حق جل مجدہ کا کلام ہے۔ جس کو خداوند قدوس نے اپنے مقرب فرشتے جبریل امین کے ذریعے مجھ پر نازل فرمایا ہے۔ یہ سراسر حق وصدق ہے۔ جس میں شیاطین ومفسدین کی کسی آمیزش وملاوٹ کا کوئی سوال ہے اور نہ ہی یہود و نصاری اور مشرکین کی کسی ملاوٹ کا کوئی امکان۔ بلکہ یہ خالص کلام حق وصدق ہے جو رب العالمین کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے۔
Top