Tafseer-e-Madani - Al-Qasas : 5
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ
وَنُرِيْدُ : اور ہم چاہتے تھے اَنْ : کہ نَّمُنَّ : ہم احسان کریں عَلَي الَّذِيْنَ : ان لوگوں پر جو اسْتُضْعِفُوْا : کمزور کر دئیے گئے تھے فِي الْاَرْضِ : زمین (ملک) میں وَنَجْعَلَهُمْ : اور ہم بنائیں انہیں اَئِمَّةً : پیشوا (جمع) وَّنَجْعَلَهُمُ : اور ہم بنائیں انہیں الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور ہم چاہتے تھے کہ ہم احسان و مہربانی کریں ان لوگوں پر جن کو دبا کر اور ذلیل بنا کر رکھا گیا تھا اس ملک میں (2) اور مہربانی بھی اس طرح کہ ان کو ہم پیشوا بنادیں اور ان کو وارث بنادیں
7 بنی اسرائیل کو پیشوا بنانے کا خدائی فیصلہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور ہم چاہتے تھے کہ انکو پیشوا بنادیں "۔ یعنی فرعون اور اس کی قوم کی پوری کوشش تو یہ تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو کسی بھی صورت ابھرنے نہ دیں لیکن ہمارا فیصلہ یہ تھا کہ ہم ان کو پیشوا بنادیں۔ یعنی دین و دنیا میں تاکہ یہ حق و ہدایت کے مطابق لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کریں۔ اور لوگ ان کی اقتداء و پیروی کریں۔ امامت و پیشوائی اپنے عموم کے ساتھ اگرچہ دینی اور دنیاوی دونوں قسم کی پیشوائی کو عام اور شامل ہے لیکن یہاں پر چونکہ وراثت کا ذکر آگے آرہا ہے جس کا تعلق یہاں دنیاوی وراثت و پیشوائی ہی سے ہے اس لیے یہاں پر امامت و پیشوائی سے مراد وہی پیشوائی ہے جو حضرت موسیٰ کی بعثت کے بعد بنی اسرائیل کو حاصل ہوئی تھی۔ سو فرعون تو ان لوگوں کو دبا کر رکھنا چاہتا تھا مگر ہم ان کو منصب امامت پر فائز کرنا چاہتے تھے۔ یعنی ان پر احسان کر کے ان کو امامت و پیشوائی کے منصب پر فائز کریں اور ظالموں کو مٹا کر ان مظلوموں کو ان کی وراثت و خلافت عطا کریں۔ سو { نجعلہم ائمۃ } کے ارشاد سے اشارہ ان کی اس دینی امامت و پیشوائی کی طرف ہے جو ان کو حضرت موسیٰ کی بعثت کے بعد حاصل ہوئی۔ اور { ونجعلہم الوارثین } سے وہ حکومت اور خلافت مراد ہے جو ان کو ارض فلسطین میں ملی اور جس کی حدود حضرت سلیمان کے عہد میں بہت وسیع ہوگئی تھیں۔ یہاں تک کہ مصر کی حکومت بھی ان کی ایک باج گزار ریاست بن گئی تھی۔ سو قدرت کی عنایتوں نے ان کو غلامی سے نکال کر تخت حکمرانی پر بٹھا دیا ۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top